جمہوری ملک میں ووٹ کی شرعی حیثیت

از :- شمیم ریاض ندوی

محرک : مجلس علماء ملت کشن گنج بہار

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جو انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔

اسلام میں حکومت و سیاست بھی عبادت کا حصہ ہے، کیونکہ اس کا مقصد زمین پر عدل و انصاف کا قیام ہے۔
اسی لیے جب مسلمان کسی جمہوری نظام میں رہتے ہیں تو ان پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ اپنی رائے، یعنی "ووٹ”، کو حق اور امانت کے طور پر استعمال کریں۔

ووٹ کی حقیقت:

اسلامی نقطۂ نظر سے ووٹ محض ایک سیاسی حق نہیں بلکہ ایک شرعی ذمہ داری ہے۔
ووٹ دراصل ایک گواہی (شہادت) اور امانت ہے جو انسان اپنے ضمیر اور علم کی بنیاد پر دیتا ہے۔
جب آپ ووٹ دیتے ہیں تو آپ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جس کو آپ ووٹ دے رہے ہیں،
وہ شخص دیانتدار، اہل اور عوام کے مفاد میں بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔

ووٹ ایک امانت:

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"اِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰى اَهْلِهَا”
(سورۃ النساء، آیت 58)
“اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو۔”

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ کسی بھی ذمہ داری، اختیار یا حق کو اس کے اہل کے حوالے کرنا شرعاً واجب ہے۔
چنانچہ ووٹ دینا بھی ایک امانت کا ادا کرنا ہے،
اور ووٹ صرف اسی شخص یا جماعت کو دیا جانا چاہیے جو دیانت، صلاحیت اور امانت داری میں بہتر ہو۔

ووٹ ایک گواہی:

قرآن میں فرمایا گیا:

وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ”

(سورۃ البقرہ، آیت 283)
“اور گواہی کو مت چھپاؤ، اور جو گواہی چھپائے گا، اس کا دل گناہگار ہے۔”

چونکہ ووٹ بھی ایک شہادت ہے، اس لیے نااہل شخص کے حق میں ووٹ دینا جھوٹی گواہی شمار ہوگی،
اور جھوٹی گواہی کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔

نااہل یا فاسق کو ووٹ دینا:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“جب کسی قوم میں خیانت کرنے والے کو باعتماد سمجھا جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔”
(صحیح بخاری)

یہ حدیث ہمیں خبردار کرتی ہے کہ کسی فاسق، ظالم یا بددیانت شخص کو اختیار دینا خیانت کے مترادف ہے۔
لہٰذا کسی فاسق امیدوار کو ووٹ دینا شرعاً حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔

ووٹ دینے سے انکار کرنا :

اگر کسی ملک میں ایسا موقع ہو کہ دیانتدار اور حق پرست امیدوار موجود ہو،
اور مسلمان خاموش رہ جائیں یا ووٹ دینے سے گریز کریں،
تو وہ دراصل حق کی تائید سے پیچھے ہٹتے ہیں۔
یہ طرزِ عمل غفلت یا نیکی سے روگردانی کے مترادف ہے۔

ووٹ دینا کب فرض بنتا ہے؟

اگر ووٹ کے ذریعہ سے ظلم، کرپشن، اور ناانصافی کو روکا جا سکتا ہو،

یا کسی دیندار، دیانتدار امیدوار کی کامیابی میں مدد دی جا سکتی ہو،
تو ووٹ دینا فرضِ کفایہ یا بعض حالات میں فرضِ عین بھی بن جاتا ہے۔
یعنی اگر سب لوگ ووٹ نہ دیں تو سب گناہگار ہوں گے۔

علماء کی آراء:

مفتی تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں:

“ووٹ ایک امانت ہے۔ اس کو صرف اس کے اہل کے حق میں استعمال کرنا واجب ہے،
اور نااہل کو ووٹ دینا شرعاً خیانت ہے۔”

شیخ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں:

“جمہوری نظام میں ووٹ دینا امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا ایک جدید اور مؤثر ذریعہ ہے۔
اس کے ذریعہ مسلمان حق کی حمایت اور باطل کی مخالفت کر سکتا ہے۔”

دارالافتاء دیوبند کے فتوے کے مطابق:

“ووٹ دینا امانت کا استعمال ہے۔ اسے کسی فاسق، بددیانت یا اسلام دشمن شخص کے حق میں استعمال کرنا ناجائز ہے۔”

امید کہ بہار کے مسلمان اپنی حق رائے دہی کا استعمال شریعت اسلامیہ کی روشنی میں کرنے کی کوشش کرین گے تاکہ ظلم کا خاتمہ ہو اور عدل و انصاف کی فضاء قائم ہونے کی راہیں ہموار ہو سکے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔