از:- محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ
جناب نعیم صدیقی رح تحریک اسلامی کے ایک کامیاب رہبر اور قائد تھے ،وہ ایک باکمال مصنف صحافی اور صاحب اسلوب قلم کار بھی تھے ، متعدد دینی علمی اور تحریکی کتابوں کے مصنف و مؤلف تھے ، سیرت کے موضوع پر ان کی کتابیں انتہائی جامع اور مؤثر و البیلی ہیں اور عام و خاص میں ان کو قبولیت حاصل ہے۔ وہ تحریک اسلامی کے رکن رکین ،فرد فرید اور ایک کامیاب خادم تھے ،انہوں نے اپنی ایک
کتاب : تحریکی شعور میں ایک جگہ بہت حقیقت پسندانہ بات کہی ہے اور جو بہت ہی چشم کشا اور مبنی بر حقیقت ہے، ہم پہلے اس اقتباس کو آپ قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور پھر اس پر کچھ اس سابقہ کے ساتھ لاحقہ بھی رقم کریں گے ،تاکہ ہم سب اس کی روشنی میں اپنے آپ کا محاسبہ کرسکیں اور خود کا جائزہ لے سکیں اور یہ معلوم کریں کہ معاملات میں ہم کتنے کھرے کھوٹے ہیں اور کیا ہمارے اندر اس بارے میں شفافیت پائی جاتی ہے ، مولانا مرحوم لکھتے ہیں:
"کاروباری اور معاملاتی ذمہ داریوں میں جو لوگ کوتاہ ثابت ہوتے ہیں یا دانستہ گڑبڑ کرنا جن کا وتیرہ ہوتا ہے ، جو ایسی کسی بد معاملگی کی وجہ سے بدنام ہوں، میرا علم و ضمیر یہ کہتا ہے کہ اگر وہ جلد سے جلد اپنی اصلاح اور خرابیوں کی تلافی نہ کر سکیں تو انھیں تحریک اسلامی کے داعیوں کی صف میں کھڑا نہیں ہونا چاہیے ۔ میرے بس میں ہو تو میں کسی ایسے شخص کو یہ اجازت نہ دوں کہ وہ کسی اسٹیج سے دین کی سر بلندی کے وعظ کہے ، وہ نظام حیات یا اخلاق کو سنوارنے کے لیے عوام کا معلم بنے،یا وہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے عائد کردہ فریضۂ دعوت کا علم برادر بن کر کام کرے۔
اس قسم کے لوگ جب دین کا کام کرنے والوں میں گھس کر اپنے لیے پناہ گاہ تلاش کر لیتے ہیں، تو وہ بہت سے نیک دل لوگوں کو شکار بناتے ہیں ،اور فی الحقیقت اقامت دین کی مہم کی سست رفتاری اور دوسروں کی سرگرمئ کار میں کمی کا باعث بنتے ہیں ۔ ان کی وجہ سے مایوسی ، بددلی ، افسردگی اور ناکارہ پن فروغ ہو جاتا ہے ،کیونکہ داغ دار ضمیروں کے ساتھ خدا کی راہ میں بڑھتے چلے جانا ممکن نہیں ۔ داغ دار ضمیر رکھنے والے عناصر دعوت حق اور غلبۂ حق کی جد و جہد کے لیے غیر محسوس طریق پر دیمک کا کام کرتے ہیں ۔
کوئی فرد جو خدا کے دین کا خادم بن کے اٹھے ، جہاں وہ خود اپنے دامن کو مالی اور معاملات کی آلائشوں سے پاک رکھنے کی اس طرح بے تابانہ فکر کرے جیسے کسی نیک اور شریف گھرانے کی کنواری لڑکی اپنی عصمت کا تحفظ کرتی ہے ۔ وہاں اس کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ ایسے افراد کو ہرگز پناہ نہ دے، جو ایک طرف دین کے کام میں حصہ دار بنیں اور دوسری طرف لوگوں کی حق ماری اور دل آزاری کرنے والے ہوں۔
فرد کی طرح کوئی ایسا ادارہ یا ایسا گروہ جو اخلاص سے خدا اور رسول کی دعوت پھیلانے کی ذمہ داری اپنے سر لے ، اس کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ بد معاملہ لوگوں کو بغیر اصلاح و تلافی کے اپنے اندر جگہ نہ دے اور کوئی ایسا آدمی اندر موجود ہو تو اس سے درخواست کرے کہ آپ تشریف لے جائیں تو آپ کا احسان ہوگا۔
اندھا دھند ووٹروں کا ریوڑ بڑھانے کا کام عام سیاست بازوں کا ہے ۔ تحریک اسلامی کا طریق کار نہیں ۔ یہاں تو کھری دھات کی مانگ ہے۔ ادھر کھوٹے اور ملاوٹی مال کی مارکیٹ نہیں ہے۔
غور کیجئے کہ یا باتیں کتنی حقیقت پر مبنی ہیں اور آج تحریکیں اور جمعیتیںں جو ناکام و بے اثر ہورہی ہیں اور ان میں جو انتشار و افتراق ہے، اس میں بد معاملگی، انتشار و افتراق اور بے ایمانی و بے اعتدالی کا کتنا دخل ہے، ہم سب کو اپنی اپنی زندگی لین دین اور معاملات کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے ، ہم اسٹیج پر کتنی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اور خود ہماری ذاتی زندگی کس قدر ان باتوں سے دور ہوتی ہے اور ہمارے باہمی معاملات اور لین دین کس قدر مشکوک و مشتبہ ہوتے ہیں، ہمارے قول و فعل میں کس قدر تضاد ہوتا ہے اور گفتار و کردار کتنا فرق رہتا ہے، نیز دوسروں کو صبر و ایثار و تواضع و انکسار کی تعلیم دیتے ہیں اور خود ان اوصاف سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔
ابھی کل تلنگانہ میں جمعیت علمائے ہند کے ریاستی صدور و سکریٹریز کے انتخاب میں جو تناؤ ،کشاکش اور کشمکش نیز ناگفتہ بہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑا اور جس طرح ہو ہنگامہ ہوا کہ پولیس و انتظامیہ کو مداخلت کرنی پڑی ،تب یہ بوال اور نعرے بازی ختم ہوئی ، یہ بہت ہی افسوس اور صدمہ کی بات ہے اور ان حرکتوں سے برادران وطن بھی ہماری اوقات کو جان لیتے ہیں اور پھر وہ اس پر منفی تبصرے کرتے ہیں اور میڈیا والے تو اس کی تلاش میں ہی رہتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف کوئی موضوع ملے اور مسلمانوں کو ذلیل و رسواء کیا جائے۔
یہ موقع تو ہم خود دیتے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کی رسوائی کا سبب بنتے ہیں۔
مومن بننا اور مومن کے صفات پیدا کرنا یہ بہت آسان نہیں ہے، اس کے لیے مجاہدہ کرنا پڑتا ہے، دل بنانا پڑتا ہے، ریاضت و مجاہدات کرنے پڑتے ہیں ، نفس اور جذبات کو مارنا پڑتا ہے ،ایثار و قربانی کے اوصاف و کمالات پیدا کرنے پڑتے ہیں، تب کہیں انسان کو کامل انسان بننا نصیب ہوتا ہے، ورنہ تو ہوس چھپ چھپ کو سینوں میں تصویریں بناتی رہتی ہے۔
آج ہمارا حال یہ کہ عہدہ و منصب کے حصول کے لیے جس سطح پر جانا پڑے ،آسانی سے اس سطح پر پہنچ جاتے ہیں، اس کے لیے ٹولیاں اور جھتے بناتے ہیں، فساد اور بے ایمانی پر اتر آتے ہیں ،اپنا مقام و منزلت سب بھول جاتے ہیں ،ہماری اسی حالت پر ہی اقبال مرحوم نے کہا تھا کہ
براہمی نظر مشکل سے ہوتی ہے مگر پیدا
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان حقائق کو سمجھنے اور ہر کے منفی طرز عمل سے بچنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین ۔