سرفرازاحمد قاسمی،حیدراباد
گزشتہ دنوں اپنے اسی کالم میں ہم نے جدید لائف اسٹائل اور طلاق کے بڑھتے واقعات پر کچھ گفتگو اور شرعی طریقے کی رہنمائی کی تھی،جسکے کے نتیجے میں قارئین کے درجنوں کالس اور میسج موصول ہوئے،اکثر لوگوں کا کہنا تھا کہ طلاق کے اسباب و جوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نکاح اور شادی کے موقع پر اب ہر جگہ مشکل حالات اور دشواریوں سے گذرنا پڑتاہے،سماج میں پیدا ہونے والے بعض مسائل سنگین صورت اختیار کرتے جارہے ہیں،بعض جگہ اس مسئلے کو ناک کا مسئلہ سمجھ لیا جاتا ہے اور دینی وشرعی ہدایات کو آسانی سے ٹھکرادیا جاتاہے،آج کی تحریر اسی مسئلے کی رہنمائی کے لئے لکھی جارہی ہے،کئی سال قبل ایک مسلم تنظیم نے ملک بھر کے مختلف شہروں میں سروے کرایا تھا کہ سب سے زیادہ غیر شادی شدہ اور مطلقہ خواتین کس شہر میں ہیں؟ اس کی رپورٹ کے مطابق حیدرآباد میں یہ تعداد سب سے زیادہ ہے،لاکھوں خواتین ایسی ہیں جنکو کوئی مناسب رشتہ نہیں مل سکا اور رشتوں کے انتظار میں انکی عمریں ڈھل گئیں اور اگر کسی طرح شادی ہوبھی گئی تو وہ رشتہ پائیدار نہیں ہوپاتا،خلع اور طلاق تک کی نوبت آجاتی ہے،شاید اسی لئے طلا ق یافتہ خواتین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے،اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام میں ذات،برادری کے امتیاز کا کوئی تصورنہیں ہے،عہد رسالت میں غیر کفو میں نکاح کرنے کا عام معمول تھا،ہرچند کہ زمانہ جاہلیت کے اثرات کی وجہ سے بعض لوگ اپنے آپ کو نسبی اعتبار سے برتر اور دوسروں کو نسبی اعتبار سے فروتر گردانتے تھے، لیکن جیسے جیسے اسلام کی روشنی پھیل رہی تھی اور ایمانی اقدار دلوں میں راسخ ہورہی تھیں،نسب پر فخر کرنے کے جذبات مٹتے گئے اور اس کے بجائے زہد وتقویٰ کو معیارِ فضیلت قرار دیا جانے لگا تھا،سرکاردوعالم ﷺ کی یہی تعلیم تھی کہ نام و نسب پر فخر کرنے کے بجائے اسلام اور تقویٰ کو اہمیت دی جائے اور جب بھی کوئی موزوں،مناسب رشتہ مل جائے تو حسب و نسب اور ذات برادری کا لحاظ کیے بغیر اس سے نکاح کردیا جائے۔حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جب تم کو ایسا شخص نکاح کا پیغام دے،جس کا دین اور اخلاق تم کو پسند ہو تو اس سے نکاح کردو اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں بہت بڑا فتنہ اور فساد ہوگا،صحابہ نے سوال کیا: ہرچند کہ وہ شخص (غریب یا غیر کفو) ہو؟ آپ نے تین بار فرمایا :جب تم کو ایسا شخص نکاح کا پیغام دے جس کے دین اور اخلاق سے تم راضی ہو تو اس سے نکاح کردو۔
دو تین سال قبل مجھے بھی اس معاملے میں بڑا تلخ تجربہ ہوا وہ اس طرح کہ ہمارے ایک سسرالی رشتہ دار ہیں جو خیر سے عالم دین بھی ہیں،پورا گھرانہ دیندار کہلاتاہے،اتفاق سے وہ ایک دینی ادارے کے ذمہ دار بھی ہیں،اسی خاندان کی ایک بچی کا رشتہ،ایسے بچے سے طے ہوگیا جسکی برادری الگ تھی،پوری تیاری ہوچکی تھی اور شادی کو چند دن باقی تھے،اب وہ صاحب اس بات پر مصر ہو گئے اور پوری طاقت اسکے لئےصرف کرنے لگے کہ یہ رشتہ نہیں ہوسکتا،وجہ یہ کہ لڑکا ہمارے برابر اور ہماری برادری کا نہیں ہے،حالانکہ لڑکا شہر کے ایک ادارے کا فاضل،مفتی ہے لیکن انکی برادری الگ تھی،معاملہ چونکہ انکے بھائی کی بچی کا تھا،اس لیے اس رشتے کو ختم کرنے کے لیے وہ پوری طاقت صرف کرنے لگے،یہاں تک کہ وہ ایک مجلس میں آپے سے باہر بھی ہوگئے اور سارے دلائل کو انھوں نے رد کردیا،قرآن و حدیث پر مبنی دلائل کی ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رہی، وہ بچی کے ذمہ داروں پر دباؤ بنانے لگے،ان کی خواہش تھی کہ ہرحال میں یہ رشتہ ختم کردیا جائے،کیونکہ انکے بقول یہ مناسب نہیں تھا،حالانکہ شرعی اعتبار سے اس رشتے میں کوئی قباحت نہیں تھی،لیکن وہ اپنی بات زبردستی منوانا چاہتے تھے،دارالعلوم دیوبند سے اس سلسلے میں ایک فتوی بھی منگایا گیا،اس فتوے کو بھی انہوں نے ماننے سے انکار کردیا،بہرحال وہ رشتہ تو ختم نہیں ہوسکا، وقت مقررہ پر الحمدللہ شادی ہو گئی لیکن اس میں انکے گھر کا کوئی فرد شریک نہیں ہوا،اور انکی ساری کوشش رائیگاں ہوگئی،یہاں یہ بتلانا مقصود ہے کہ عام لوگ ہی اس نحوست کا شکار نہیں ہیں بلکہ اچھے خاصے پڑھے لکھے اور دین دار کہلانے والے لوگ بھی اس جہالت زدہ ماحول سے متاثر ہیں اور برہمنیت کا تصور انکے یہاں بھی کسی نہ کسی درجے میں موجود ہے۔
اسلام نے جس کفو کا خیال رکھا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ میاں بیوی،اخلاقی حالت اور سماجی حیثیت سے یکساں مقام رکھتے ہوں،تاکہ دونوں میں ذہنی ہم آہنگی زیادہ آسانی سے پیدا ہوسکے جو شادی کی کامیابی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہے،یہ مسئلہ دین سے زیادہ سماجی حیثیت رکھتا ہے،بعض لوگ اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں جو کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے،ایسے واقعات اور ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر قریشی عورت راضی ہو کہ کسی مولی(غلام) سے شادی کرے اور وہ مولی مہر مثل ادا کر سکتا ہو تو والی (حکمراں) اس کی شادی کا حکم دے گا اور اگر اس کا ولی تیار نہ ہو تو قاضی اس کی شادی کردے گا ،یہی رائے امام مالک و شافعی کی بھی ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی کی صاحبزادی حضرت زینب کی شادی اپنے غلام حضرت زید سے کرائی،اسی طرح حضرت ابو حذیفہ نے ایک انصاری عورت کے غلام سالم کی شادی، اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ قریشی سے کرائی،حضرت بلال نے حضرت عبدالرحمن ابن عوف قریشی کی بہن سے شادی کی اور حضرت حسین نے اپنی ایک لونڈی کو آزاد کر کے اس سے شادی کی اور جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس پر اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالی نے اسلام کے ذریعے پست کو بلند کردیا ہے اور ہمارے نقائص دور کردیے ہیں،اب کسی مسلمان کو صرف گناہ پر ملامت کی جا سکتی ہے اور ملامت کی چیز تو جاہلیت ہی ہے،حضرت علی سے ہی شادی کے سلسلے میں کفائت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا تمام لوگ عرب و عجم،قریشی،ہاشمی سب اسلام و ایمان لانے کے بعد ایک دوسرے کے کفو ہیں،علامہ شوکانی لکھتے ہیں کہ حضرت عمر،عبداللہ ابن مسعود،محمد ابن سیرین و عمر ابن عبدالعزیز یہ سب لوگ کفائت کا تعلق اصلا دین سے سمجھتے ہیں قرآن و سنت میں اس کے علاوہ کسی چیز کا کوئی اعتبار نہیں ہے،نہ نسب کا،نہ پیشے کا،نہ مال و دولت کا،اگر غلام مسلمان ہو،نیک ہو تو اچھے نسب والی عورت سے نکاح کرسکتا ہے،اسی طرح غیر قریشی مرد،قریشی عورتوں سے،غیر ہاشمی مرد،ہاشمی عورتوں سے اور غریب مرد مالدار عورتوں سے نکاح کرسکتے ہیں،خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو صاحبزادیوں کی شادی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے اور ایک کی شادی حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ سے فرمائی تھی اور یہ دونوں ہاشمی نہیں تھے،اسی طرح حضرت علی نے اپنی صاحبزادی ام کلثوم کی شادی،حضرت عمر سے فرمائی تھی اور وہ بھی ہاشمی نہیں تھے،خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کفو کون ہو سکتا ہے؟لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف عرب قبیلوں میں بھی شادیاں کیں،ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے بھی شادی کی جو ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھتیں تھیں اور بعد میں اسلام لائی تھیں۔قرآن کریم میں ایک جگہ ہے اے لوگو! بیشک ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے،تم میں قومیں اور قبیلے بنادیا،تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرسکو،بیشک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو،اللہ تعالی سب کچھ جاننے والا،بےحد خبر رکھنے والا ہے(القرآن) امام بیہقی نے اپنی ” سنن“ میں زہری سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو بیاضہ کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنی عورت کا ابوہند سے نکاح کردیں،انہوں نے کہا :یا رسول اللہ ! کیا ہم اپنی بیٹیوں کا اپنے آزاد شدہ غلاموں سے نکاح کردیں؟ اس موقع پر اوپر کی یہ آیت نازل ہوئی،زہری نے کہا :یہ آیت بالخصوص ابوہند کے متعلق نازل ہوئی ہے جو نبی ﷺ کو فصد لگاتا تھا،یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ نسب پر فخر نہیں کرنا چاہیے، احادیث میں بھی اس کی صراحت ہے،حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ نے باپ دادا کی وجہ سے جاہلیت کی نخوت اور تکبر کو دور کردیا ہے، تم سب آدم اور حوا کی اولاد ہو،جس طرح دو صاع برابر برابر ہوتے ہیں اور بیشک اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو،پس تمہارے پاس جو بھی ایسا شخص آئے جس کے دین اور امانت پر تم راضی ہو تو اس سے (اپنی لڑکیوں کا) نکاح کردو۔اس حدیث کو امام احمد اور محدثین کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔
علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی لکھتے ہیں:نبی ﷺ نے فرمایا :اے بنوبیاضہ! ابوہند سے نکاح کردو،انہوں نے عرض کیا:یا رسول اللہ ! کیا ہم اپنی لڑکیوں کا اپنے (آزاد شدہ) غلاموں سے نکاح کردیں ؟اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی :” یاایھا الناس انا خلقنکم من ذکرٍ وانثی “ (الحجرات :13) ۔ (عمدۃ القاری ج 20 ص 163-164)
علامہ قرطبی مالکی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ (یہ بدری صحابی تھے) نے سالم کو اپنا بیٹا بنایا اور ان کے ساتھ اپنے بھائی ولید بن عتبہ بن ربیعہ کی بیٹی (ہند بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ قرشیہ) کا نکاح کردیا،حالانکہ سالم انصار کی ایک عورت کے آزاد شدہ غلام تھے اور حضرت ضباعہ بنت الزبیر (یہ ہاشمی خاتون تھیں) حضرت مقداد بن اسود کے نکاح میں تھیں ،یہ غیر قریشی تھے (صحیح البخاری)حضرت زینب بنت حجش،حضرت زید بن حارثہ کے نکاح میں تھیں،ان مثالوں سے معلوم ہوا کہ آزاد شدہ غلاموں سے عرب عورتوں کا نکاح جائز ہے۔ اور کفاءۃ کا اعتبار صرف دین میں ہے۔ حضرت سلمان فارسی نے حضرت ابوبکر سے ان کی صاحبزادی کا رشتہ مانگا تو انہوں نے منظور کرلیا، اور حضرت سلمان فارسی نے حضرت عمر ؓ سے ان کی صاحبزادی کا رشتہ مانگا تو ان پر یہ امر دشوار ہوا، پھر حضرت عمر نے خود حضرت سلمان سے نکاح کی درخواست کی،لیکن حضرت سلمان نے نکاح نہیں کیا،حضرت بلال نے بکیر کی بیٹی کا رشتہ مانگا،اس کے بھائیوں نے انکار کیا،حضرت بلال نے کہا: یا رسول اللہ ! مجھے بنو بکیر سے کیا سانحہ پیش آیا ؟ میں نے ان کی بہن کا رشتہ مانگا،انہوں نے مجھے انکار کردیا اور مجھ کو اذیت دی،رسول اللہ ﷺ حضرت بلال کی وجہ سے غضب ناک ہوئے،یہ خبر ان لوگوں کو پہنچی تو وہ اپنی بہن کے پاس گئے اور کہا :تمہاری وجہ سے ہمیں کیسی پریشانی ہوئی ہے؟ ان کی بہن نے کہا:میرا معاملہ رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں ہے، پھر انہوں نے اس کا نکاح کردیا، اور امام دارقطنی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ ابوہند بنو بیاضہ کا آزاد شدہ غلام تھا جو فصد لگاتا تھا،اس نے نبی ﷺ کے فصد لگائی، نبی ﷺ نے فرمایا :جو شخص ایسے آدمی کو دیکھنے سے خوش ہو جس کے دل میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کی تصویر بنائی ہو وہ ابو ہند کو دیکھ لے اور رسول اللہ ﷺ نے (بنو بیاضہ سے) فرمایا :اس کے ساتھ نکاح کرو،عہدِ رسالت میں غیر کفو میں نکاح کے بہ کثرت واقعات ہوئے لیکن رسول اللہ ﷺ نے کسی نکاح کے موقع پر یہ نہیں فرمایا کہ صرف تمہارے لیے یہ نکاح جائز ہے اور کسی کے لیے یہ نکاح جائز نہیں ہے،اگر نکاح کے یہ واقعات استثنائی ہوتے تو رسول اللہ ﷺ کسی موقع پر تو اس استثناء کو بیان فرماتے۔حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:ولم یثبت فی اعتبار الکفاء ۃ بالنسب (فتح الباری) یعنی کفو میں نسب کا اعتبار کرنے کے سلسلہ میں کوئی حدیث ثابت نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس بہ کثرت احادیث سے یہ ثابت ہے کہ کفو کی برتری پر گھمنڈ نہ کیا جائے اور کسی مسلمان کو کفو کی وجہ سے حقیر نہ گردانا جائے اور کسی مسلمان کے رشتہ کے پیغام کو کفو کی وجہ سے مسترد نہ کیا جائے،حضرت ابو ذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:دیکھو تم کسی گورے یا کالے سے افضل نہیں ہو،البتہ تم اس پر تقویٰ سے فضیلت حاصل کرو گے،حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ دورِجاہلیت میں کِسی مرد یا عورت کو نکاح کا پیام بھیجا جاتا،تو وہ ایک دوسرے کے حسب و نسب بارے پوچھتے تھے،پھر جب اسلام آیا،تو وہ ایک دوسرے کا دین جاننے کی خواہش کرنے لگے،اور آج تم لوگ ایک دوسرے کے مال کے بارے میں سوال کرنے لگے ہو!
حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب محدث اعظمی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں نسبی کفائت کی مراعات میں جس تشدد اور عصبیت کا آج مظاہرہ کیا جارہا ہے، کچھ شبہ نہیں کہ وہ ہندوؤں کی ہمسائیگی کا اثر ہے اور وہ بھی قرون متاخرہ کی نام مسعود یادگار ہے،دوسرے بلاد(ملکوں) میں ایسی شدید عصبیت کا مظاہرہ نہ آج کیا جاتا ہے نہ پہلے کبھی کیا جاتا تھا،بلکہ خود ہندوستان میں بھی پہلے اتنی عصبیت نہ تھی،ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ حنفیہ کے نزدیک افضل یہی ہے کہ صرف دینداری کا لحاظ کیا جائے اور اسی پر اقتصار کیا جائے یعنی کفائت کی جستجو نہ کی جائے اور یہ کہ غیر عربی برادریوں میں نسبی کفائت کا بالکل اعتبار نہیں ہے۔قدیم ہندوستان میں ذات،برادریوں کی تقسیم نے وحدت انسانی کو پارہ پارہ کردیا تھا اور یہ چیز غیر مسلموں میں اس درجہ راسخ ہو گئی ہے کہ ہزار کوششوں کے باوجود آج بھی یہ افتراق پوری قوت کے ساتھ موجود ہے،اس کا اثر مسلمانوں میں بھی آیا اور یہاں بھی ذات برادری کی تقسیم اور اس کی بنیاد پر اونچ نیچ کا ایسا تصور جم گیا ہے کہ جس چیز کو اسلام نے بیخ وبن سے اکھاڑنا چاہا تھا،اس کے ریشے دلوں میں پیوست ہو کررہ گئے، لیکن یہ تفریق اور اونچ نیچ کا تصور بہرحال ایک غیر اسلامی چیز ہے،علمی طور سے اس تصور کی مخالفت پوری قوت اور شد و مت سے کی جاتی ہے،جب برتاؤ کا معاملہ آتا ہے تو بسا اوقات تفریق ہی دکھائی دیتی ہے اور نکاح کے معاملے میں تو اس تفریق کو شرعی دلائل کے ساتھ متعلق کرنے کی بعض گوشے سے کوشش بھی کی جاتی ہے،چونکہ یہ تصور ذہنوں میں صدیوں سے جمع ہوا ہے،شاید اسی لیے عموما اسے بغیر رد و قدح کے قبول کرلیا جاتا ہے۔حالانکہ اسلام میں نسبی تفاضل یعنی کسی ایک نسب کا دوسرے نصب سے بہتر و برتر ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا،بلکہ شریعت میں اس لحاظ سے تمام بنی آدم ایک درجے کے ہیں،اس دعوے کی سب سے بڑی دلیل قرآن میں مذکور ہے،اسی طرح فقہ کی کتابوں میں مسئلہ کفائت کی جو تفریعات مذکور ہیں،ان کی رو سے کوئی ایسا شخص جو خود کپڑے بننے کا پیشہ کرتا ہو مگر عالم دین ہو تو وہ ہر عجمی قوم کا بلکہ عربی کا بھی کفو ہے،علم کا شرف پیشے کی پستی کا بدل بن جاتا ہے،بلکہ اس سے زائد ہوجاتا ہے اور عالم ہونے کی صورت میں نسبی کفائت کا کوئی اعتبار نہیں ہے،قرآن کریم میں ایک جگہ ہے جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور جن لوگوں کو علم ملا اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے گا،اس آیت کی رو سے بعض علماء نے لکھا ہے کہ عام لوگوں کے مقابلے نکاح کےلئے اہل علم کو ترجیح دینا چاہئے کیونکہ عالم کا علم اسکے نسبی کفائت کو ختم کردیتاہے،خلاصہ اس گفتگو کا یہ ہے کہ شادی اور نکاح کو آسان بنانے کےلئے وقت پر شادی کی فکر ہونی چاہئے،ہمارے سماج میں بچیوں کو عموما نکاح کے مقابلے تعلیم اور ملازمت کو ترجیح دی جاتی ہے اور اس بہانے شادی کی عمریں نکل جاتی ہیں جس سے سماج میں مختلف مسائل پیدا ہوتے ہیں،حرام کاری اور دیگر گناہوں کا ارتکاب بھی ہوتا ہے،والدین اور سرپرستوں سے قیامت کے دن اس بارے میں بھی سوال کیاجائے گا۔
(مضمون نگار،معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)