تراویح کا موجودہ نظام عبادت نہیں تجارت ہے

تراویح کا موجودہ نظام عبادت نہیں تجارت ہے۔ دین و مذہب کے نام پر عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے

از:- عبدالغفارصدیقی




قرآن مجید میں علمائے یہود و نصاریٰ کے متعلق یہ بات کہی گئی ہے کہ انھوں نے اپنے دین میں تحریف کرلی ہے اور اپنی خواہشات کو دین کا جز بنالیا ہے۔ان پر حق کو چھپانے اور آیات الٰہی کو تھوڑی قیمت پر بیچنے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔”اے مسلمانو! اب کیا اِن لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی۔“(البقرہ۔75)”جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اِس مقام کو (جسے قبلہ بنایا گیا ہے) ایسا پہچانتے ہیں، جیسا اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں مگر ان میں سے ایک گروہ جانتے بوجھتے حق کو چھپا رہا ہے۔“(البقرہ۔146)”اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لاؤ یہ اُس کتاب کی تائید میں ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی، لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جاؤ تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو او ر میرے غضب سے بچو۔“ (البقرہ۔41) آج ہم جب امت مسلمہ کے دینی رہنماؤں کے حالات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اکثریت علمائے یہود سے بھی دو قدم آگے نکل گئی ہے۔وہ دین کے نام پر فرضی قصے کہانیاں سنا رہے ہیں،انھوں نے بھی دین کی ترجیحات کو یکسر الٹ دیا ہے،قرآنی آیات میں تحریف نہ سہی ان کے مفاہیم کو بدل ڈالا ہے،قرآن کی تفسیر نہ خود کرتے ہیں نہ کرنے اور پڑھنے دیتے ہیں اس طرح حق کو چھپانے کا جرم وہ بھی کررہے ہیں، نبی اکرم ؐ کی نسبت سے احادیث کے نام پر عوام کو ڈرا اور گمراہ کررہے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں عوام کی زبان عربی نہ ہونے کے باعث علماء کے لیے ان کو گمراہ کرنا آسان ہوگیا ہے۔انھوں نے دین کے نام پر ایسی ایسی واہیات باتیں اور لغو قصے لکھ ڈالے ہیں جن کا دین اسلام سے دور تک واسطہ بھی نہیں ہے۔
تراویح کی نماز کو لے کر بھی اسی طرح کی صورت حال بنی ہوئی ہے۔قرآن میں تو ذکر ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔مگراحادیث میں بھی نماز تراویح کا ذکرنہیں ہے۔ اس لیے کہ نبی اکرم ؐ کی حیات مبارکہ میں اس نماز کا وجود نہیں تھا۔آپ ؐ پر تہجد کی نماز فرض تھی،جسے احادیث میں قیام اللیل کہا گیا ہے۔رمضان ہو یا غیر رمضان آپ تہجد کی نماز پڑھتے تھے۔بخاری کو صحاح ستہ میں پہلا مقام حاصل ہے اورام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ  نبی ﷺ  کے سب سے زیادہ قریب تھیں۔ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰنؓ نے  پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت (وتر) پڑھتے تھے۔(بخاری۔حدیث۔2013) انہی حضرت عائشہ سے ایک دوسری روایت یہ ہے کہ: حضرت عائشہ ؓ  فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (رمضان کی) ایک رات مسجد میں نمازتہجد پڑھی، لوگوں نے آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر دوسری رات کی نماز میں شرکاء زیادہ ہوگئے،  تیسری یا چوتھی رات آپ ﷺ نماز کے لیے مسجد میں تشریف نہ لائے اور صبح کو فرمایا کہ میں نے تمہارا شوق دیکھ لیا اور میں اس ڈر سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں فرض نہ کردی جائے۔ (مسلم)
ان دونوں احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی ﷺ رمضان ہو یا غیر رمضان صرف آٹھ رکعت تہجد اور تین رکعات وتر کل گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اپنی زندگی میں صرف ایک سال محض تین دن ماہ رمضان میں یہی نماز (قیام اللیل۔تہجد)باجماعت پڑھائی۔
اسلام کے احکامات کا ماخذ قرآن اور نبی اکرم ﷺ کا عمل ہے۔اجماع صحابہ،قیاس اور اجتہاد صرف ان معاملات میں قابل عمل ہے جن میں قرآن کا کوئی حکم یا نبی ﷺ کا کوئی عمل موجود نہ ہو۔اب جب کہ رمضان کے معمولات کے متعلق حضور اکرم ﷺ کا عمل موجود ہے۔تو پھر کسی کے عمل کو بطور ثبوت و دلیل پیش نہیں کیا جاسکتا۔حضرت عمر ؓ نے اپنی خلافت کے جس زمانے میں تراویح کو باجماعت پڑھوایا وہ ان کا اپنافیصلہ تھا۔ہم اس کی نکیر نہیں کرتے،لیکن مسلمان ہونے کے لیے ان کے فیصلوں کو ماننا ضروری بھی نہیں سمجھتے۔پر لطف بات یہ بھی ہے کہ حضرت عمرؓ نے خود باجماعت تراویح نہیں پڑھی۔بلکہ یہ بھی فرمایا:۔”یہ نیا کام بہت ہی اچھا ہے۔ اور وہ نماز جس کے وقت تم سوتے ہو(تہجد کی نماز) وہ اس سے بہتر ہے جو تم قائم کرتے ہو۔“
اس سے معلوم ہوا کہ تراویح نفل نماز ہے،اور اس سے بہتر نماز تہجد کی نماز ہے۔نفل نماز میں رکعات کی تعداد کا تعین ضروری نہیں ہے۔اس سلسلہ میں دوسری قابل توجہ بات تراویح کا جماعت سے پڑھنا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ فرض نمازوں یا ان نمازوں کے علاوہ جن میں حضور ﷺ نے جماعت سے نماز پڑھائی ہے مثلاً سورج اور چاندگرہن کی نمازکو چھوڑ کر دیگر نمازوں کو گھر پر پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔رمضان میں قیام اللیل جسے ہم آج کل تراویح کہتے ہیں اس کو بھی دوررسالت اور دور صدیقی میں بغیر جماعت کے پڑھاجاتا تھا۔حضرت عمر ؓ  نے باجماعت نماز پڑھنے کو پسند کیا تھا لیکن لازمی نہیں کیا تھا۔اس لیے آج بھی فرض نمازوں کے علاوہ دیگر نمازیں گھر پر ہی پڑھنا افضل ہے۔فقہاء نے تراویح کی جماعت کو سنت کفایہ کہا ہے۔
تراویح کے باب میں تیسری بات یہ ہے کہ اس میں پورا قرآن سننا یا پڑھنا ضروری نہیں ہے۔بلکہ جس کو جتنا یاد ہے اور جو کچھ آسانی سے پڑھا جاسکتا ہے،پڑھ سکتا ہے۔لیکن آج کل علماء کی طرف سے عوام کو اس بات کا پابند کیا جاتا ہے کہ وہ پورا قرآن سنیں۔اس چکر میں عام مسلمان بڑی الجھن کا شکار ہوتے ہیں۔اس مشکل کا حل علماء نے یہ نکالا کہ تین دن،چھ دن اور دس دن کی تراویح کا اہتمام کیاجانے لگا۔جس کا کوئی ثبوت قرآن و سنت میں نہیں ہے۔
تراویح کی نماز نفل ہونے کے باوجود ہمارے یہاں اس قدر کیوں اہمیت اختیاکرگئی؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔کیوں اس کے لیے مسجد کے علاوہ مدرسوں،گھروں کی چھتوں اور پارکوں میں اہتمام کیا جانے لگا؟کیوں ایک دن سے لے کر مختلف ایام کی تراویح کا چلن ہوا؟کیوں چھ دن اور دس دن کی تراویح کے اشتہار شائع ہونے لگے؟اس پر عقل رکھنے والوں کو غور کرنا چاہئے۔جن لوگوں کی زبان عربی ہے اور جو قرآن کو براہ راست سمجھ سکتے ہیں ان کے لیے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ پورا قرآن سن لیں تاکہ اللہ کے احکامات و ہدایات ان کے سامنے سے گزرجائیں اور ان کی تجدید ہوسکے؟لیکن جو لوگ قرآن کے ایک لفظ کے معنی بھی نہ جانتے ہوں؟ ان کے لیے پورا قرآن سننے کی شرط کیوں لگائی جارہی ہے؟ عام طور پرجس طرح تراویح میں قرآن پڑھاجاتا ہے کیا وہ کسی سننے والے کی سمجھ میں آسکتا ہے؟کیا ایکسپریس میل کی طرح قرآن کا پڑھنا اس کی توہین کرنا نہیں ہے؟آخر وہی امام جب فرض رکعات کی امامت کرتا ہے تو قرآن کو ترتیل کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا ہے اور وہی امام جب تراویح کے لیے مصلے پر کھڑا ہوجاتا ہے تو اس پر دورہ سا پڑجاتا ہے۔آخر ایسا کیوں ہے؟کیوں عام لوگ اس بات کی خواہش کرتے ہیں کہ ہمارا امام سب سے تیز اور جلد تراویح پڑھائے؟مقتدیوں کا یہ ذوق کس نے بنایا ہے؟کیا قرآن کا سننا اس کے سمجھنے سے زیادہ ضروری ہے؟قرآن محض تراویح میں سننے یا ختم کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے یا سمجھنے اور عمل کرنے کے لیے؟پھر مدارس کے سفراء حضرات جن کی اکثریت عالم دین ہوتی ہے وہ کہاں پورا قرآن سنتے ہیں؟وہ تو اکثر تراویح بھی نہیں پڑھتے۔اگر انھیں سفر کی بنا پر تراویح چھوڑنا جائز ہے تو عام انسان کو ایک ہی امام کے پیچھے پورا قرآن سننے کی نصیحت کیوں کی جاتی ہے؟
کیا اس سب کے پیچھے تحبون العاجلہ کی نفسیات کارفرما نہیں؟کیا تراویح کی امامت و سماعت کرنے کے نتیجے میں ملنے والا انعام،ہدیہ اور تحائف اس کے ذمہ دار نہیں ہیں؟کیا یہ سب کچھ کچھ مال حاصل کرنے کی نیت سے نہیں ہورہا ہے؟عام مسلمان جنھیں دین کا کوئی شعور نہیں،جو عربی تو کیا اب اردو بھی پڑھنے سے عاجز ہیں اور جن کے پاس دینی معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ صرف ائمہ مساجد اور علماء ہی رہ گئے ہیں۔وہ کیا جانیں کہ اس سلسلہ میں اللہ و رسول کا حکم کیا ہے وہ تو ملاجی کے بتائے حکم کو اللہ کا حکم سمجھتے ہیں۔محض اپنی جیب گرم کرنے اور چندہزار روپے حاصل کرنے کے نام پر عوام کا بے وقوف بنایا جارہا ہے۔موجودہ تراویح کا نظام اسلام کی روح سے خالی محض تجارت بن کر رہ گیا ہے۔زیادہ ترمساجد میں عبادت کے بجائے میلے کا سامنظر رہتا ہے۔کیا رمضان میں قیام اللیل کا مفہوم و مدعا یہی تھا۔اگر عوام کو بتادیا جاتا کہ تراویح کی نماز نفل ہے،جس کے پڑھنے پر اجر ہے اور نہ پڑھنے پر کوئی گناہ نہیں ہے اور اس کا گھر پر رات کی تنہائی میں پڑھنا افضل ہے،پورا قرآن نہ سننا ضروری ہے اور نہ سنانا،سنانے والے کو کوئی تحفہ یا انعام دینا ضروری نہیں ہے بلکہ روح دین کے منافی ہے،تو اس نماز کی روح باقی رہتی اور اس کے اثرات ظاہر ہوتے۔لیکن ہماری دنیا طلبی نے قیام اللیل کو ایک رسم بنادیا۔عوام چند دن کی نماز کا اہتمام کرکے پورے سال کے لیے مطمئن ہوجاتی ہے،حفاظ کرام کو اچھا خاصہ نذرانہ مل جاتا ہے جسے وہ اوپر کی آمدنی میں شمار کرتے ہیں۔بعض حفاظ تو ایک ماہ میں دو جگہ بھی قرآن مکمل کرکے ڈبل نذرانہ حاصل کرتے ہیں اور بعض لوگ مال دار شہروں اور بستیوں کا رخ کرتے ہیں۔کیا یہ قرآن کو بیچنا نہیں ہے؟یہ صورت حال جس کا ذکر میں نے درج بالا تحریر میں کیا ہے نوے فیصد سے زیادہ مساجد،ائمہ،حفاظ اور علماء کی ہے۔اللہ سے ڈرنے والے اور صحیح بات کہنے والے علماء و اہل علم خال خال ہیں۔
اللہ کا خوف کیجیے۔اس کے ساتھ مذاق مت کیجیے،عبادات اور اسلامی احکام کی ترجیحات کو قائم رکھیے،اس کی روح باقی رکھیے۔یہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے۔اللہ کے یہاں سب کو جانا ہے۔لوگوں کو جھوٹی تسلی و دلاسا مت دیجیے۔آج مسلمانوں کی ذلت کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ انھوں نے اسلام کی اصل تعلیمات کو فراموش کردیا ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔