ایڈجسٹمنٹ: زندگی کی بڑی ضرورت

ایڈجسٹمنٹ: زندگی کی بڑی ضرورت

از:- مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ


ہم جس سماج اور خاندان میں رہتے ہیں، جس ادارے، تنظیموں، جماعتوں اور جمعیتوں سے جڑے ہوئے ہیں، ان میں سب کچھ ہماری مرضی کے مطابق نہ ہوتا ہے، اور نہ ہی ہو سکتا، کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی موقع سے ہمیں ان سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے اپنے خیالات کو کچل دینا پڑتا ہے، کچلنے کا یہ عمل انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے، اس کے لیے عقل وشعور جذبات واحساسات سے اندر کی لڑائی لڑنی پڑتی ہے، کبھی کبھی اس جاں گسل مرحلے کو طے کرنے میں ہفتے اور مہینے لگ جاتے ہیں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ذہن ودماغ اقبال کے اس مشورے پر عمل کرنے کو چاہتا ہے کہ ”زمانہ باتو نہ سازد، تو بازمانہ ستیز“، اگر زمانہ تیرا ساتھ نہ دے سکے تو تو زمانہ سے لڑ۔ یہ ایک سوچ اور طریقہ کار ہے، دوسرا طریقہ کار آج کے جدید دور میں لوگوں نے اپنا رکھا ہے کہ”چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی“ ان دونوں کے بیچ میں تیسرا طریقہ کار یہ ہے کہ حالات سے لڑنے اور پتوار کو ہوا کے رخ پر ڈالنے کے بجائے ایڈجسٹ منٹ کی راہ اپنائی جائے، یہ بیچ بیچ کی راہ ہے، اس سے نہ تو ایڈجسٹ کرنے والے کا نقصان ہوتا ہے اور نہ جس سے ایڈجسٹ کیا گیا، اس کو کوئی گزند پہونچتی ہے، اسی لیے میں ایڈجسٹ منٹ کو زندگی کی بڑی ضرورت کہتا ہوں، ایڈجسٹمنٹ کا مطلب سجدہ سہو، سارے امور کو من وعن مان لینا نہیں، حسب ضرورت ہم آہنگی پیدا کرنا ہے، اتنی اور ایسی ہم آہنگی جس سے سماج،خاندان اور اداروں کا کام چلتا رہے، شریعت بھی اس بات کی متقاضی نہیں ہے کہ تمام امور کو بلا کم وکاست قبول کر لیاجائے۔


ہم اسے چند مثالوں سے بآسانی سمجھ سکتے ہیں، بات فرد سے شروع کرتے ہیں، بچپن میں بچہ کی خواہش گُلی ڈنڈا کھیلنے کی ہوتی ہے، جیسے ہی وہ بڑا ہوتا ہے اسے اپنی اس ہابی اور عادت کو چھوڑ دینا پڑتا ہے، اب اس کی توجہ بال اور بیٹ کی طرف ہوجاتی ہے، اس بدلاؤ کو ہم ایڈجسٹ منٹ کہہ سکتے ہیں، گُلی ڈنڈا چھوڑ کر بیٹ بلا پکڑنے کا یہ عمل اس کی نفسیاتی ضرورت ہے، حالاں کہ اس بدلاؤ کے لیے اسے جس ذہنی کشمکش سے گذرنا پڑا خود اس کا دل ہی اسے جانتا ہے، زندگی کے مختلف ادوار میں اسے اپنے طور طریقوں کو بدل کر حالات کے مطابق ایڈجسٹ کرنا ہوتا ہے، یہ کوئی آسان عمل نہیں ہوتا۔اسی طرح بچہ جوان ہو کر شادی کے لائق ہو گیا، اتفاق سے بیوی ہم مزاج نہیں ملی، پہلے گھر میں خاموشی رہا کرتی تھی، اب صبح وشام کے جھگڑے ہیں، اس سے نمٹنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ لڑ جھگڑ کر بیوی کو خود سے جدا کر دیا جائے، اسے راہ راست پر لانے کے لیے ذہنی اور جسمانی اذیت دی جائے، یہ طریقہ بربادی، پریشانی اور گھریلو انتشار پر جا کر ختم ہوگا، لیکن اگر شوہر یہ مان کر کے ہماری قسمت میں ہی اجڈ لڑکی لکھی ہوئی تھی، اس کی خرابیوں کے ساتھ اور اسے حقیقی مان کر زندگی کی گاڑی کھینچنے لگے تو اسے ایڈجسٹمنٹ کہیں گے،اس ایڈ جسٹمنٹ کے نتیجے میں گھر بچ جائے گا، صبح وشام کے جھگڑوں میں کمی آئے گی اور زندگی ایک خاص انداز میں گذرنے لگے گی،یہی معاملہ الٹ بھی ہو سکتا ہے، بیوی کو شوہر ہم مزاج نہیں ملا، ساس سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں، دیور اور نندوں سے دانت کاٹی دوستی کے بجائے دشمنی ہو گئی ہے، ایسے میں ایک طریقہ تو یہی ہے کہ عورت لڑ بھڑ کر اپنے میکے جا کر بیٹھ جائے، ایسے میں گھر اجڑ جائے گا دوسری صورت یہ ہے کہ وہ ایڈجسٹمنٹ کے چند ایسے نکات پر غور کرلے جس سے وہ شوہر کی منظور نظر بن سکتی ہے اور ساس، دیوراور نندوں کے غیر ضروری ایذارسانی سے خود کو بچا سکتی ہے تو ایڈجسٹمنٹ کے اس عمل کے ذریعہ دیر سویر وہ خوش گوار زندگی گذارنے کی اپنی خواہش کی تکمیل کر سکتی ہے۔


سماج میں آپ کا پڑوسی آپ سے خار کھائے بیٹھا ہے، ہر وقت وہ آپ کو پریشان کرتا ہے، آپ ایسی کوئی راہ نکال لیں جس سے اس کی مخالفت میں کمی آئے، اور وہ آپ کے حسن سلوک کی وجہ سے آپ سے قریب ہوجائے تو آپ اچھی زندگی گذار سکیں گے، اور اس کی مخالفت کی وجہ سے جو آپ کی منفی سوچ بن رہی تھی، مثبت سوچ میں بدل جائے گی، جس کا فائدہ آپ کی ذات کونقد پہونچے گا۔


یہی حال اداروں کا ہے، وہاں آپ کی خواہش کے مطابق کوئی کام نہیں ہو سکا تو آپ ایڈجسٹ کی کوشش کیجئے، ایڈجسٹمنٹ کے عمل سے آپ کا بھی بھلا ہوگا اور ادارے کا بھی بھلا ہوگا، اس ایڈجسٹمنٹ کے لئے ضروری ہوگا کہ ماضی کی باتوں کو ذہن سے نکال دیں، جو ہو گیا وہ اچھا ہی ہوگا، مان کر چلیں، ضروری نہیں کہ آپ کے مان لینے سے وہ واقعتاً اچھا ہوجائے، یہ ایک طریقہ ہے اور بس۔


شخصی احوال سے آگے بڑھیں تو ملکوں کا معاملہ بھی اسی ایڈجسٹمنٹ پر ٹکا ہوا ہے، آپ کو معلوم ہے کہ برطانیہ کی نو آبادیات اس قدر پھیلی ہوئی تھیں کہ کہا جاتا ہے کہ اس کی حکومت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، پھر حالات ایسے پیدا ہوئے کہ اسے تمام نو آبادیات کو دھیرے دھیرے آزاد کردینا پڑا، ہندوستان بھی انہیں میں سے ایک ہے، پہلے مرحلہ میں برطانیہ نے لڑنے بھڑنے کا طریقہ اپنایا، چنانچہ اس کے نتیجے میں بہت لوگ ملک کی آزادی کے لیے شہید ہوئے، برطانیہ کا تاج ملوکیت دوسرے ملکوں کی حد تک غروب ہو گیا، لیکن برطانیہ اس ہزیمت کو اپنی بر تری میں بدلنے کے لیے دولت مشترکہ(کا من ویلتھ) کی تشکیل کرکے اس کا سر براہ بن بیٹھا، اس نے ایڈجسٹمنٹ کی یہ راہ نکالی کر اپنی نفسیاتی بر تری کا سامان بہم پہونچالیا۔


جنوبی افریقہ میں کالے گوروں کی لڑائیاں برسوں چلیں، نیلسن منڈیلا نے اپنی زندگی کا چوتھائی حصہ جیلوں میں گذارا گوروں کی حکومت میں کالوں کو ان کے ساتھ رہنے، چلنے، اسکول میں پڑھنے، ٹرین میں بیٹھنے وغیرہ کی بھی اجازت نہیں تھی، لیکن بڑی جد وجہد کے بعد گوروں کی دسترس سے جنوبی افریقہ آزاد ہوا، گوروں کے لیے یہ بہت پریشان کن وقت تھا، انہوں نے ایڈجسٹمنٹ کی یہ شکل نکالی کہ دھیرے دھیرے کالوں سے راہ ورسم بڑھانی شروع کی اور دوسری طرف بڑی بڑی کالونیاں بنائیں، جس میں صرف گوروں کو جگہ دی گئی، روز مرہ کی ساری ضرورتیں پوری کرنے کے سامان ان کا لونیوں میں بہم پہونچالیے، ایڈجسٹمنٹ کے اس طریقے سے وہ نفسیاتی طور پر بھی مطمئن ہو گئے اور کالوں سے جودوری بنی ہوئی تھی اس میں یک گونہ کمی آئی، اب بھی یہ گورے جنوبی افریقہ میں اچھی زندگی گذار رہے ہیں، بڑے مشکل حالات میں بھی انہوں نے نقل مکانی نہیں کیا، ایڈجسٹمنٹ کے فارمولے پر زندگی گذارنے کا ارادہ کیا، اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب ہیں، ملکوں کے ایڈجسٹمنٹ کے طریقے کیا ہوتے ہیں اس پر بات کروں تو بات دور تک جائے گی، جس کی یہاں گنجائش نہیں، البتہ فرد اور سماج کی سطح پر ایڈجسٹمنٹ کی کیا صورت ہو سکتی ہے،اس پر مختصر میں روشنی ڈالنا چاہوں گا۔


سب سے پہلی بات ایڈجسٹمنٹ کے لیے یہ ضروری ہے کہ پریشان ہو کر متعلقہ لوگوں سے لڑائی جھگڑا کرنا مت شروع کر لیجئے، آپ کی جورائے ہے اسے کسی تیسرے کے واسطے سے اگلے تک منتقل نہیں کیجئے، بلکہ جو کہنا ہو آمنے سامنے کہئے، آپ کے اندراتنا حوصلہ ہونا چاہیے کہ ”کَن پُھسکی“ نہ کریں اس سے خواہ مخواہ بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں، جو پریشانیاں ہیں اس سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے، اس پر مشورہ بھی کیا جا سکتا ہے،ایڈجسٹمنٹ اور ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے کہ دل میں اٹھنے والے طوفان، اپنے جذبات اور غصہ پر پوری طرح قابو رکھیں، زبان سے سخت الفاظ نہ نکالیں، کیوں کہ غصہ اور بدزبانی انسان کے داخلی دشمن ہیں، اس سے آپ کی پکڑ آپ کی ذات پر باقی نہیں رہتی اور آپ اپنا آپا کھو دیتے ہیں، اسی لیے پہلوان پچھاڑنے والے کو نہیں بلکہ اسے کہا گیا ہے جو غصہ پر قابو پالے، اس لیے سمجھ داری غصے پر قابو رکھنے میں ہیں، فرانسی سپہ سالار نپولین بونا پارٹ کا قول ہے کہ با صلاحیت انسان وہ ہے جو اس وقت بھی اپنے اوپر قابو رکھے جب چاروں طرف لوگ بے قابو ہو رہے ہوں، اس لیے ایڈجسٹ کرنے کے لیے ہمیشہ دھیمی آواز میں بولیں، کم بولیں اور میٹھا بولیں، اس سے آپ کو اپنے غصہ اور بدزبانی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ ایڈجسٹمنٹ میں پُر امید ہونے کا بھی بڑادخل ہے، غلطیاں ہو سکتی ہیں، لیکن آپ کو پر امید رہنا چاہیے کہ حالات بدلیں گے اور شاید آپ جیسا سوچ رہے ہیں، ویسا نہیں ہوگا، زندگی میں کئی لوگ آپ کی خوشامد اور غیر ضروری تعریف کرکے آپ کو آسمان تک پہونچانے کی کوشش کریں گے؛ تاکہ وہ اس طرح سامنے والے کو کم تر ثابت کرنے اور آپ کو ان کے خلاف کھڑا کرنے میں کامیاب ہوجائیں، یہ بڑا نازک موڑ ہوتا ہے، تعریف سب کو پسند ہے اور سوجام کا نشہ ایک واہ واہ میں ہوتا ہے، اس واہ واہی کے چکر میں آپ سے غلطیاں ہو سکتی ہیں، ایسا زندگی کے اس موڑ پر عموماً ہوتا ہے جب آپ اپنی زندگی کی سب سے بڑی پاری کھیل رہے ہوتے ہیں، آپ کو یقین دلایا جاتا ہے کہ آپ اس مقام ومنصب پر ہیں کہ آپ سے غلطی نہیں ہو سکتی یہ ایک دھوکہ ہے، آدمی سے سب سے زیادہ غلطیاں اسی وقت ہوتی ہیں، جب وہ بام عروج پر پہونچ چکا ہوتا ہے، اس کی وجہ سے مزید ایڈجسٹمنٹ میں رکاوٹیں کھڑی ہو سکتی ہیں۔


ایڈجسٹمنٹ کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اپنا نقطہ نظر (وزن) وسیع رکھیے اس سے چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھنے سے آپ بچ جائیں گے اور اس سے آگے بڑھنے میں آپ کو مدد ملے گی۔
ایڈجسٹمنٹ کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ ذہنی اور نفسیاتی طور پر تناؤ کے شکار ہونے سے بچ جائیں گے، تناؤ کوئی معمولی چیز نہیں ہے، یہ ایک دھیما زہر ہے جس سے آپ کو ہارٹ اٹیک بھی ہو سکتا ہے، شوگر اور بلڈ پریشر پڑھنے کا بھی یہ سبب بن سکتا ہے، اس کے علاوہ آپ کے کام کرنے کی صلاحیت کو بھی یہ متأثر کرتا ہے اس لیے ایڈجسٹمنٹ کو اپنا ئیے اور راحت پائیے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔