از:- محمد ناصر ندوی
آج خلیجی ممالک میں یکم رمضان المبارک 1446ھ ہے، اور مارچ 2025ء کی بھی پہلی تاریخ ہے،یہ اتفاق کم ہی پیش آتا ہے کہ ہجری اور عیسوی تاریخ یکساں ہو۔
ہجری تقویم کی خوبی یہ ہے کہ اس کے مہینے بدلتے رہتے ہیں اور ہر موسم میں آتے رہتے ہیں،اسی لئے رمضان المبارک بھی کبھی سردیوں میں آتا ہے ،تو کبھی گرمیوں میں آتا ہے،کبھی برسات میں آتا ہے تو کبھی موسم بہار میں سایہ فگن ہوتا ہے،انسانی صحت کےلئے یہی مفید ہے کہ مختلف موسموں میں روزے کے ایام بدلتے رہیں، روزے جہاں انسان کی روحانی ترقی کا باعث ہیں وہیں ذہنی اور جسمانی صحت کیلئے بھی انتہائی مفید ہیں۔ بظاہر کم کھانا پینا جسمانی کمزوری پیدا کرتا ہے لیکن ایک معین وقت(صبح سے شام تک) اور ایام معدودات(ماہ رمضان) میں کھانے پینے پر قابو رکھنے سے انسانی صحت پر غیر معمولی مثبت اثرات پیدا کرتا ہے،اور اللہ نے ایک مہینہ کی مدت کی تحدید فرماکر انسان کے ساتھ بڑا احسان فرمایا کہ اس سےکم مدت میں صحت انسانی اور روح کو پورا فائدہ نہیں مل سکتا ،اور مدت کی بے جا طوالت سے صحت انسانی کے حقوق متاثر ہونے سے محفوظ فرمایا۔(لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا)
یہ موسم بہار کا پہلا دن ہے، اسلام کا دوسرا رکن روزہ 2 ہجری میں فرض کیا گیا ہے۔
قرآن کریم میں اس کی فرضیت اور مقصد کا ذکر ہے موجود ہے،ارشاد باری تعالی ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ .
یعنی: اے ایمان والو! تم پر روزے کا حکم لکھ دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھ دیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
(سورہ بقرہ آیت 183)
اسلام کی ایک خوبی یہ بھی ہے تمام لوگوں کو ایک رنگ میں دیکھناجاہتا ہے،دنیا کے کسی کونے میں جائیں، سب کےلئے روزے کا مہینہ یکساں ہے، یہ اجتماعت کا حسین مظہر ہے،اور اس سے انتظامی امور میں بھی آسانی ہوتی ہے۔
تقویٰ کی حقیقت یہ ہے کہ دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اس کی عظمت کی وجہ سے پیدا ہوجائے ، اور اس کے مؤاخذہ کی ایسی فکر ہو جس کے اثر سے زندگی میں دینی امور کو ترجیح دینے اور شریعت اسلامی کے مطابق زندگی گزارنے کی عادت بن جائے، تاکہ اللہ تعالیٰ سے غافل کرنے والی ہر چیز سے آدمی بچ سکے ۔
تقویٰ کی تعریف میں علماء امت نے مختلف تعبیرات استعمال فرمائی ہیں، اور کتاب و سنت سے مختلف انداز میں اس کی وضاحت کی ہیں ، مگر ان میں حضراتِ محققین نے جسے سب سے زیادہ راجح اور پسندیدہ قرار دیا ہے وہ ہے حضرت ابی ابن کعب ؓ کی تعریف وتحقیق، جب آپؓ سے سیدنا فاروق اعظم ؓنے تقویٰ کی حقیقت معلوم کی، تو آپؓ نے آسان اور بہترین مثال سے تقویٰ کی حقیقت سمجھائی، فرمایا: ’’اے امیر المومنین !کیا کبھی کسی خار دار راستہ سے آپ کا گزر ہوا ہے ؟ فرمایا: جی ہاں ! متعدد بار گزرا ہوں، اچھا !تو اس وقت آپ نے کیا طرزِ عمل اختیار کیا تھا ؟ حضرت ابی ابن کعب ؓ نے سوال کیا،جواباً حضرت عمر ؓ نے ارشاد فرمایا: اس موقع پر خود کو اور اپنے کپڑوں کو نہایت سمیٹ کر بڑی احتیاط سے چلا ہوں کہ کہیں دامن کانٹوں سے الجھ نہ جائے، تب حضرت ابی ابن کعب ؓ نے کہا : یہی تو تقویٰ ہے ( ابن کثیر )
یہ دنیا ایک خار دار وادی ہے ، اس خارستان میں ہر طرف گناہوں کے کانٹے موجود ہیں، اس لئے دنیا میں اس طرح زندگی بسر کرنی کہ ہمارا ایمانی دامن گناہوں کے کانٹوں سے الجھنے نہ پائے، اسی کا نام تقویٰ ہے ، اور جو اس صفت سے متصف ہو جائے وہ متقی ہے۔
تقویٰ کے تین درجات ہیں ،پہلا درجہ تو یہ ہے کہ بندہ کفر اور شرک سے بچ جائے ،یہ سب سے کم اور ادنیٰ درجہ ہے ،جو ہر مسلمان کو حاصل ہونا چاہئے ، بندہ کم ازکم اتنا کر لے کہ کفر وشرک سے خود کو بچالے ، تب بھی وہ آخرت کے دائمی عذاب سے محفوظ رہے گا، اسی لئے تقویٰ کا یہ درجہ فرض ولازم قرار دیاگیا، ارشاد ربانی ہے : وَالزَمَھُم کَلِمَةَ التَّقویٰ(الفتح)آیت کریمہ میں تقویٰ سے یہی مراد ہے۔
حدیث قدسی میں ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے آیت کریمہ تلاوت فرمائی :ھُوَ اھلُ التَّقوٰی وَ اھلُ المَغفِرَةِ(المدثر )یعنی وہ اللہ ہی اس لائق ہے کہ اس سے ڈراجائے اور وہی معافی اور مغفرت کے اختیارات بھی رکھتاہے ۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ کا ارشادہے میں تقویٰ اختیار کرنے والوں کے ساتھ ہوں، اور جس نے تقویٰ اختیار کیا، یعنی میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا،تو میری شان یہی ہے کہ میں اس کی مغفرت کردوں۔(ترمذی )
تقویٰ کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ ایک انسان جیسے کفرو شرک سے بچتا ہے ،تمام صغیرہ وکبیرہ گناہوں سے بھی بچ جائے ،یہ درمیانی درجہ کا تقویٰ ہے ، جو ہر مسلمان پر واجب ہے ، اور محاورہ میں اسی کا نام تقویٰ ہے ، ارشادِ باری :وَلَو أنَّ اهلَ القُریٰ آمَنُوا واتَّقَوا(الاعراف) ۔
اب جو شخص جتنا زیادہ گناہوں سے بچے گا اور بچنا چاہے گا وہ اتنا ہی زیادہ متقی ہوگا۔
تقویٰ کا تیسرا اورسب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے اللہ اور انجام کے خوف سے جملہ معاصی اور محرمات سے تو بچتا ہی ہو، اسی کے ساتھ مکروہات اورمشتبہات سے بھی بچ جائے ، اور اپنے باطن کو غیر اللہ میں مشغول ہونے سے محفوظ کرلے، یہ حق تقویٰ ہے اور یہی حقیقی تقویٰ ہے ، جس کا حکم رب العالمین نے اس طرح فرمایا: اے ایمان والو دل میں اللہ کا ویسا ہی خوف رکھو جیسا خوف رکھنا اس کا حق ہے (آل عمران) اورحدیث میں ہے کہ بندہ اس وقت تک حقیقی متقی نہیں ہوسکتا جب تک کہ ان چیزوں کو ترک نہ کر دے جن میں حرج نہیں،اس خوف سے کہ کہیں حرج میں نہ پڑجائے (ترمذی) سلفِ صالحین اور ان میں بھی خصوصاً متقدمین کا تقویٰ یہی تھا،اس سلسلہ میں متقدمین کے تو بڑے ہی عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات ملتے ہیں،چناںچہ امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمة اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپؒ نے تجارت میں اپنے ایک شریک حضرت حفص بن عبد الرحمن کے پاس کچھ کپڑا بھیجا، کپڑے کا ایک تھان ذرا سا عیب دار تھا،تو حضرتؒ نے بتایا کہ خریدار کو اس سے ضرور آگاہ کر دینا اتفاق سے وہ خریدار کو بتلانا بھول گئے اور یہ بھی یاد نہ رہا کہ وہ عیب دار تھان کس کے ہاتھ فروخت کیا،امام صاحب ؒ کو جب معلوم ہوا توبہت افسوس کا اظہار فرمایا،پھر اسی پر اکتفا نہ کیا،بلکہ سارے تھانوں سے حاصل ہونے والی قیمت صدقہ کر دی،جس کی رقم تیس ہزار درہم تھی،تاکہ مشتبہ مال سے مکمل اجتناب ہو ۔(الخیرات الحسان فی مناقب أبی حنیفة النعمان) یہ تقویٰ کا اعلیٰ معیار ہے ،جو فرض تو نہیں، البتہ افضل ضرور ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ کفر وشرک سے بچنا ادنیٰ درجہ کا تقویٰ ہے ،فسق و فجور سے بچنا اوسط درجہ کا تقویٰ ہے ،اور غیر اللہ سے بچنا،اسی طرح ہر اس چیز سے بھی بچنا جس سے اللہ تعالیٰ کی محبت میں رکاوٹ پیدا ہو، جیسے شکوک و شبہات، تو یہ اعلیٰ درجہ کا تقویٰ ہے۔
اس جہان کا نظام درست سمت اسی وقت چلے گا جب انسان میں اللہ کاخوف اور تقوی پیدا ہوگا،یہ ایسی کنجی ہے جس سے ہر قفل کھل جائے گا،دنیا میں امن وسکون ،اخلاقی اقدار وروایات ، باہمی محبت و رواداری ،اخلاص وللہیت بلکہ حقوق اللہ وحقوق العباد بھی بغیر تقوی کے ممکن نہیں ، اللہ بھی اسی بندے کو عزیز رکھتا ہے جو متقی ہو،اور اسی کی تکریم فرماتا ہے جو زیادہ تقوی اپناتا ہے،فرمان باری ہے: إن أكرمكم عند الله أتقاكم”۔
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں صحت وتندرستی کی حالت میں ماہ مبارک ملا ہے،اس ماہ مقدس کی دل وجان سے قدر کرنی چاہئے،اور ہر لمحہ قیمتی بنانے کی حتی المقدور کوشش ہونی چاہئے ،کتنے لوگ گزشتہ رمضان المبارک میں اس جہاں میں موجود تھے،اس رمضان میں دنیا چھوڑ گئے،کتنے موجود ہیں ،مگر صحت سے محروم ہیں،ہمیں اس مبارک مہینہ سے خوف فائدہ اٹھانا چاہئے،اور زندگی کے دوسرے کاموں سے وقت فارغ کرلینا چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ خالق دوجہاں کی عبادت کا حق ادا ہوسکے، اس کی مرضی پر چلنے کی توفیق مانگنی چاہئے، اور اس کی خوشنودی حاصل کرنےکی ہر ممکن فکر کرنی چاہئے ،اس ماہ مبارک میں اپنے چھوٹے بڑے ہر گناہ سے پاک و صاف ہوجانا چاہئے،جو شخص اس موسم بہار(رمضان المبارک) میں بھی مغفرت الہی سے محروم سے رہ گیا ،اس سے بڑھ کر کون محروم ہوگا،رمضان المبارک کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ انسان جس گناہ سے دل وجان سے سچی پکی توبہ کرلے وہ گناہ معاف ہوجاتا ہے،اور جس نیکی کو انجام دینے کی نیت پختہ کرلے وہ نیکی بھی آسان ہوجاتی ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ حکیم اور علیم ہے، ہر چیز کو اس نے کسی حکمت اور مقصد کےلئے پیدا کیا ہے، آگ کو اللہ تعالیٰ نے روشنی کےلئے بنایا ہے، پانی کو پیاس بجھانے کے لئے پیدا کیا ہے، نباتات اور حیوانات کو انسانی خدمت کےلئے بنایا، جنات اور انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے محض اپنی عبادت کے لئے برپا کیا، ہر چیز جب تک اپنا مقصد اور وظیفہ ادا کرتی رہتی ہے، تب تک تو وہ محترم ومکرم اور محبوب ہوتی ہے، مالک کے یہاں اس کی قدر وقیمت اور عزت ہوتی ہے، جب وہ اپنا مقصد چھوڑدے یا اپنے عمل کو معطل کردے تو اس کی قدروقیمت کم ہوجاتی ہے،اور بسا اوقات وہ بے قیمت ہوجاتا ہے،اور مالک اس سے کنارہ کشی اختیار کرلیتا ہے۔اسی طرح انسان ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی عبادت کےلئے پیدا کیا اور اسے ایمان اور تقویٰ کا حکم دیا، جب انسان نے اپنا مقصد بھلادیا تو دنیا وآخرت میں اس کی کوئی قیمت نہیں رہی، بلکہ اس سے بڑھ کر قیامت کے دن اس سے محاسبہ بھی ہوگا۔
اس ماہِ رمضان میں روزوں کی برکت سے اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو تقویٰ اختیار کرنے اور دنیا وآخرت میں اس کے فوائد وثمرات اور فضائل حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ رب العالمین ہم سب کو دنیا میں اپنے مقصدِ حیات پر عمل کرنے کی سعادت مرحمت فرمائے،آخرت میں مواخذہ اور محاسبہ سے محفوظ ومامون فرمائے۔