اے رمضان! تیری آمد کا ہم استقبال کرتے ہیں

از:- ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی

سنئر سیکنڈری اسکول مظفرپور




      شعبان المعظم کا مہینہ اپنے اختتام کی طرف تیزی سے گامزن ہے اور رمضان المبارک کا مہینہ سایہ فگن ہونے ہی والا ہے۔ ہر طرف روحانی ماحول بنتا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری دنیا کے نیک و صالح مسلمانوں کو شدت سے رمضان المبارک کی آمد کا پورے سال انتظار رہتاہے اور وہ اس کے والہانہ استقبال کے لیے رجب سے ہی تیاریاں شروع کردیتے ہیں۔ جیسے جیسے یہ مقدس مہینہ قریب آتا جاتا ہے، ویسے ویسے دیندار مسلمانوں، ان کے گھروں اور محلوں میں روحانیت اور خوشی کا ماحول بننے لگتا ہے۔ ہر کوئی روزہ رکھنے ، قرآن کریم کی تلاوت کرنے ، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے لیے اپنی اپنی کمر کسنی شروع کر دیتا ہے۔ بسا اوقات بچوں کا شوق تو  بڑوں پر غالب محسوس ہوتا ہے۔ وہ رمضان کی آمد پر خوشیوں سے جھومنے لگتے ہیں کہ وہ بھی روزہ رکھیں گے۔وہ اپنی ماؤں سے سحری کے لیے  بیدار کرنے کی ضد پہلے سے ہی شروع کردیتے ہیں۔بہت سارے بچے اپنی والدہ سے کہتے سنے جاتے ہیں کہ وہ بھی رمضان المبارک کے پورے روزے رکھیں گے۔سحری کے لیے انہیں ضرور جگایا کیجیے گا۔ مجھے یقین ہے کہ ان تمام گھروں کے بچے اور بچیوں نے روزہ رکھنے کا عزم مصمم کر لیا ہوگا اور والدین سے اس کا برملا اظہار بھی کررہے ہوں گے جن کے گھروں میں دینی و اسلامی ماحول ہوگا۔ عورتیں بھی اس کے استقبال میں اپنے اپنے گھروں کی صفائیاں کرنے میں مصروف نظر آرہی ہیں۔ سامانوں کو بھی صاف ستھرا کررہی ہیں۔ کچن و روز مرہ کے ضروری لوازمات اور سحری و افطار کے سامانوں ، مثلاً کھجور اور روح افزا وغیرہ کی خریداری بھی ابھی سے ہی جم کی جانے لگی ہے۔ظاہر سی بات ہے جب ہمارے گھر کسی  مہمان کی آمد ہوتی ہے تو ان کے والہانہ استقبال کے لیے بہت ساری تیاریاں کی جاتی ہیں۔گھر کی صفائی کی جاتی ہے ، اس کو سجایا جاتا ہے، اہلِ خانہ خود بھی زیب و زینت اختیار کرتے ہیں اور بچے بچیوں کو بھی اچھے کپڑے زیب تن کرتےہیں، پورے گھر میں خوشی کا ماحول ہوتاہے، بچے خوشی سے اچھل کود کرتے ہیں۔ مہمان کی خاطرتواضع کیلئے انواع و اقسام کے پکوان تیار کئے جاتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ شایان شان ان کا استقبال کیا جائے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب اپنے جیسے انسان  کے استقبال کے لیے خود کو نچھاور کر دہتے ہیں تو رمضان المبارک جو عظیم المرتبت الٰہی و ربانی مہمان کی حیثیت رکھتا ہے، جس کے مہتم بالشان ہونے کے متعدد نصوص قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں موجود ہیں ، بھلا اس کا والہانہ استقبال کیوں نہیں کیا جائے گا ؟ ویسے بھی یہ عظیم المرتبت مہمان ہمارے درمیان سال میں ایک ہی بار  تو آتا ہے ، پھر اس کے استقبال میں ہم کیوں نہیں اپنی آنکھیں فرش راہ کریں اور کیوں نہیں تن من سے اس کا استقبال اس کے شایانِ شان کریں؟
    ہمارے پیارے رسول ﷺ  رمضان المبارک کا زوردار استقبال کرتے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان المعظم کے روزے کثرت سے رکھتے تھے جس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو رمضان المبارک میں روزے رکھنے کے لیے مکمل طور ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی طور پر تیار کرسکیں۔
     ہمارے پیارے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم ماہ شعبان المعظم میں رمضان المبارک کی اہمیت ، فضیلت اور عظمت پر پرمغز خطاب کیا کرتے تھے تاکہ صحابہ کرام کو اس کی قدر ومنزلت کا تذکیر اور بھرپور علم ہوسکے اور وہ رمضان المبارک میں فرائض و نوافل ،  تلاوت قرآن کریم ، صدقہ و خیرات اور دیگر نیک اعمال کو کما حقہ اداکرسکیں۔ ایک مرتبہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطاب  فرمایا : اے لوگو تم پر ایک ایسامہینہ سایہ فگن ہونے والاہے جوبہت ہی عظمت اور برکت والاہے۔اس میں ایک ایسی رات ہے جس کی عبادت ہزارمہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے دنوں میں روزوں کو فرض اور راتوں میں تراویح کو سنت قراردیا۔ ہمارے پیارے نبی ﷺنے اس مہینہ کو گنہ گاروں کے لئے غنیمت والا مہینہ بتایا ہے۔ پیارے نبی کا ارشاد ہے کہ اس مہینہ میں ایک فرض کاثواب ستر فرض کے برابر ملتاہے اور نفل کاثواب فرض کے برابر ہو جاتاہے۔
      رمضان المبارک کامہینہ دراصل تربیت کا مہینہ ہے جس میں بھوکا رہنے اور دوسروں کی بھوک اور تکلیف کو سمجھنے کی تربیت ہوتی ہے۔ سخت سے سخت حالات کا سامنا کرنے کی تربیت ہوتی ہے۔اللہ کی عبادت اور اس کے  ذکر کے ذریعہ اس کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ روزے اور تراویح اس تربیتی مہینہ کانصاب ہے ، اسی کو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا کہ اےلوگو! تم پر رمضان کے روزے فرض کئے گئے ہیں، جیساکہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیداہو یعنی روزہ کا مقصد نفس کی تربیت ہے،  آدمی کے اندر ضبط کی صلاحیت پیدا ہو ، تقویٰ ہو اور وہ اپنے آپ کو گناہوں سے بچاسکے۔ اس کورس پر اگر کوئی عمل کرلیتاہے تو بقیہ گیارہ مہینوں میں اس کے لئے عبادت کرنا اورگناہوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔
     ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت کرتے تھے کہ اکثر اس کے پانے کی دُعا فرماتے تھے اور رمضان المبارک کا اہتمام ماہ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ شروع کردیتے تھے ، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم اس مبارک مہینے کو خوش آمدید کہہ کر اس کا استقبال فرماتے اور صحابہ کرام سے سوالیہ انداز میں تین بار دریافت کرتے :مَاذَا يَسْتَقْبِلُکُمْ وَتَسْتَقْبِلُوْنَ؟
کہ کون تمہارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال کر رہے ہو؟ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول ﷲ ! کیا کوئی وحی اترنے والی ہے؟ فرمایا کہ نہیں، پھر عرض کیا کہ کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ، عرض کیا : پھر کیا بات ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :اِنَّ ﷲَ يَغْفِرُ فِی أَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ لِکُلِّ أَهْلِ الْقِبْلَةِ کہ بے شک ﷲ تعالیٰ ماہ رمضان کی پہلی رات ہی تمام اہلِ قبلہ کو بخش دیتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جیسے ہی ماہ رجب کا چاند طلوع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا فرماتے :اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي رَجَبٍ ، وَشَعْبَانَ ، وَبَارِکْ لَنَا فِی رَمَضَانَ کہ اے اللہ! ہمارے لئے رجب، شعبان اور ماہ رمضان کو بابرکت بنا دے۔ اے اللہ ! ہمیں رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور رمضان نصیب فرما۔شعبان کے دنوں میں رمضان کو پالینے کی تڑپ کا اظہار اس حدیث سے بھی ہوتا ہے ” عن ابي هريرة، قال: قال رسول اللّٰه: احصوا هلال شعبان لرمضان ” یعنی شعبان کے چاند رمضان کے انتظار میں گن گن کر گزارو۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے شعبان کی آخر ی تاریخ کو وعظ فرمایا اور رمضان کی آمد کی خبر دیتے ہوئے آ پ نے فر مایاکہ سنو! تم پر ایک مہینہ سایہ فگن ہونے والاہے جو بہت بڑا اور بہت مبارک مہینہ ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے اس کے روزے رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس کی رات کے قیام کو باعث ثواب ٹھہرایاہے۔ جو شخص اس مہینہ میں کوئی نفلی نیکی بجا لائے گا تو وہ ایسے ہی ہے جیسا کہ عام دنوں میں فرض کا ثواب ہو اور جو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے گا وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں ستر فرائض ادا کرے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے ، یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے۔ اس مہینہ میں مومن کارزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کراتا ہے اس کو بھی بہت ثواب ملتا ہے۔ کسی بھی مسلمان کے لیے اس زیادہ سعادت کی کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ وہ اس مہینہ کو پاکر اس والہانہ استقبال کرے ، اس کے تقاضوں کو پورا کرے اور اس کے فیوض وبرکات سے اپنا دامنِ مراد بھرلے اور اللّٰہ کو راضی کرکے اپنی دنیا و آخرت کو سنوارلے۔ اس لیے کہ آئندہ زندگی وفاکرے گی اور ماہ رمضان ملے گا یا نہیں اس سے ہم سب ناواقف ہیں۔ پتہ نہیں کب ہماری زندگی کی شام ہو جائے اور ہم جام ممات نوش کرکے ابدی نیند کی آغوش میں چلے جائیں، جہاں عملی طور پر نیا کچھ بھی نہیں کرسکیں گے ۔ اس دار فانی میں جو اعمال کریں گے انہیں کی بنیاد پر جنت یا جہنم میں دخول کا پروانہ ملے گا۔ معروف شاعر جناب مصلح الدین کاظم نے رمضان المبارک کو غنیمت سمجھ کر اس میں عبادت و ریاضت اور تلاوت کے اہتمام کی تلقین ان الفاظ میں کی ہے :
تو بھی کاظم کر عبادت رات دن
پھر میسر ہو نہ ہو ماہ صیام
     مختصر یہ کہ عنقریب ہی ہم لوگوں پر رمضان المبارک نہایت آب وتاب کے ساتھ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس کی آمد سے قبل جس طرح ہم مسلمان اس کے والہانہ استقبال کی تیاریاں کررہے ہیں اسی جذبے اور ایمانی حرارت کے ساتھ پورے مہینہ اس کی عظمت اور تقدس کا ہمیں مکمل خیال رکھنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک جیسا عظیم الشان مہینہ نصیب کرے اور یہ توفیق دے کہ اس کا مکمل احترام کریں، اس کے فیوض وبرکات سے اپنے دامن کو بھرلیں، پورے ماہ کے روزے رکھیں، جان بوجھ کر ایک بھی روزہ نہ چھوڑیں، قیام اللیل اور کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کریں ، ذکر و اذکار میں ہمہ وقت مشغول رہیں ، سرکش شیطانوں سے اللہ کی پناہ طلب کریں، جہنم سے گلو خلاصی اور بخشش کی دعا کریں ، کسی کے ساتھ ظلم ، نا انصافی ، بھید بھاؤ نہ کریں ، ہر طرح کی برائیوں سے بچیں ، صدقہ وخیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ، غریبوں ، محتاجوں ، ضرورت مندوں کا مکمل خیال رکھیں ، اس مہینہ کے ایک ایک لمحہ کو غنیمت سمجھیں کہ یہی اس عظیم الشان مہینہ کی اہمیت ، فضیلت ، عظمت اور اس کے تقدس کا تقاضا بھی ہے۔ رمضان المبارک کی آمد سے ہم بہت خوش ہیں اور اس کا صمیم قلب سے استقبال کرتے ہیں۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔