رمضان میں اللہ سے قریب ہونے کے ذرائع

رمضان میں اللہ سے قریب ہونے کے ذرائع

از:-؛ڈاکٹر سراج الدین ندوی

ناظم جامعۃ الفیصل تاج پور،ضلع بجنور



رمضان کے مبارک مہینے میں ہمارے پاس اللہ سے قریب ہونے کا زیادہ موقع رہتا ہے۔کیوں کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک ساتھ روزہ رکھتے ہیں،گھروں سے تلاوت قرآن کی آوازیں آتی ہیں،سحری میں مساجد سے اعلان ہوتے ہیں،افطار کی تیاریاں ہوتی ہیں،بچہ بچہ عجیب سی خوشی اور فرحت محسوس کرتا ہے،ایسا لگتا ہے جیسے نیکیوں کا موسم بہار آگیا ہے۔اس موسم کا خوب فائدہ اٹھائیے اور خود کو اللہ سے اتنا قریب کیجیے کہ آپ کے اور اللہ کے درمیان کوئی فاصلہ نہ رہے۔ذیل میں چند ذرائع کی نشاندہی کی جاتی ہے جن کو اختیار کرکے آپ اللہ کا قرب حاصل کرسکتے ہیں۔


۱۔سب سے پہلا ذریعہ جو احادیث میں بیان کیا گیا ہے وہ فرائض کی ادا ئیگی ہے،اللہ نے جو چیزیں ہم پرفرض کی ہیں ان کو ادا کرنا سب سے پہلے ضروری ہے۔اللہ اس سے خوش ہوتا ہے جو اس کے احکام بجا لاتا ہے۔اس کے بعد نوافل کا نمبر ہے۔


حضرت ابو ہریرہ ؓ سے ایک روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ حدیثِ قدسی بیان فرمائی کہ
”میرا قرب حاصل کرنے کے لئے سب سے محبوب ذریعہ فرائض کی بجا آوری ہے۔ اور میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعہ میراقرب حاصل کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پس جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔ اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے۔ اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کو دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ چاہتاہے تومیں اس کو پناہ دیتا ہوں۔مجھے اسے تکلیف میں دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے“(بخاری)
۲۔دوسرا ذریعہ نماز ہے،یعنی فرائض میں بھی اہم ذریعہ نماز ہے،نماز میں بندہ رب کے حضور کھڑا ہوتا ہے،اس کے سامنے جھکتا ہے،سجدہ کرتا ہے،دوزانو بیٹھ کر اس کا ذکر کرتا ہے۔اس وقت بندہ اللہ سے ہم کلام ہوتا ہے۔ایک بزرگ کہتے ہیں کہ جب مجھے اللہ سے بات کرنا ہوتی ہے تو میں نماز پڑھنے لگتا ہوں۔نماز میں جو سورہ فاتحہ پڑھی جاتی ہے اس کے الفاظ پر آپ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ہم اللہ سے بات کرتے ہیں،اسے سامنے پاکر ہم اپنا مدعا بیان کردیتے ہیں۔اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا ”نماز اس طرح پڑھو گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو،یہ نہ ہوسکے تو یہ احساس تو ضرور رکھو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے“۔قرآن پاک میں حکم دیا گیا واسجد واقترب (العلق۹۱)”سجدہ کرو اور اللہ کا قرب حاصل کرو۔“نماز میں بندہ اپنے رب کے سامنے اپنی پیشانی زمین پر رکھ دیتا ہے،اس کیفیت میں وہ اللہ کے قدموں میں ہوتا ہے۔سجدہ کیجیے،حسب استطاعت طویل سجدہ کیجیے،بغیر نماز کے بھی حصول نعمت پر سجدہ کیجیے۔خوب نمازیں پڑھیے،دوسرے فرائض سے وقت ملے تو نفل نماز کا اہتمام کیجیے،جب ساری دنیا سورہی ہو تو اٹھ کر اللہ کے حضور کھڑے ہوجائیے اور اس کا قرب حاصل کیجیے۔


اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ نماز سے غفلت انسان کو اللہ سے دور کردیتی ہے جو انسان کے لیے تباہی کا سامان ہے۔سورہ الماعون میں فرمایا گیا:
پس ان نمازیوں کے لیے ہلاکت ہے۔جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔جو دکھلاوا کرتے ہیں اور برتنے کی چیز تک روکتے ہیں۔(الماعون۱تا۳)
۳۔تیسرا ذریعہ جو مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے وہ نوافل ہیں۔نفل میں صرف نفل نماز ہی نہیں ہے بلکہ تمام وہ کام جو فرائض ادا کرنے کے بعد بندہ اپنی مرضی سے کرتا ہے،مثال کے طور وہ فرض نماز کے بعد اشراق و چاشت اور تہجد کا اہتمام کرتا ہے،وہ رمضان کے فرض روزے کے علاوہ سال کے دیگر ایام میں بھی روزہ رکھتا ہے،زکوٰۃ کے علاوہ بھی اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرتا ہے،وہ ہر وہ نیک کام کرتا ہے جس کے کرنے پر وہ مجبور نہ تھا مگر اللہ سے قریب ہونے کی نیت و ارادے سے کرتا ہے وہ نفل عبادات میں شمار ہوتا ہے۔لوگوں سے خوش اخلاقی  سے ملنا،راستے سے تکلیف دہ چیزیں ہٹادینا،مریضوں کی عیادت کرنا یہ سب کام انسان کو اللہ سے قریب کرتے ہیں۔


۴۔اللہ سے قریب ہونے کا ایک ذریعہ دعا ہے۔یعنی اللہ سے مانگنا ہے۔اللہ ہمارا رب ہے،وہ ہماری ضرورتیں پوری کرتا ہے۔جب بندہ اللہ سے دعا کرتا ہے تو گویا اس کی چوکھٹ پر کھڑا ہوجاتا ہے اور اس سے اتنا قریب ہوجاتا ہے کہ اللہ اس کی پکار سن لیتا ہے۔اللہ پاک خود ارشاد فرماتا ہے:
”اوراے رسول یہ تم سے میرے بارے میں سوال کرتے ہیں تو ان سے بتا دو کہ میں ان کے بہت قریب ہوں جب یہ مجھ سے دعا کرتے ہیں تو میں ان کی دعائیں سنتا ہوں،انھیں چاہیے کہ صرف مجھ سے ہی دعا کریں۔“(سورۃ البقرۃ:۶۸۱)
اللہ سے خوب دعائیں کیجیے،تنہائی میں زارو قطار رورو کر اس سے مانگئے،ہاتھ پھیلا کر مانگئے،سجدے میں اپنی حاجت بیان کیجیے،اس طرح آپ اللہ سے قریب ہوجائیں گے۔انیس ؔکا شعر ہے۔
جتنا ممکن ہے کھٹکھٹاتے جاؤ
یہ دست دعا خدا کا دروازہ ہے
۵۔پانچویں چیز اللہ کا ذکر ہے جو بندے کو اللہ سے قریب کرتی ہے۔اللہ کو یاد کرنا وہ عبادت ہے جو انسان کو اللہ سے قریب کرتی ہے۔جب آپ کسی کو یاد کرتے ہیں تو اس کی وجہ ہی یہ ہوتی ہے کہ اس کو خود سے قریب محسوس کرتے ہیں،اسی طرح جب آپ اللہ کو یاد کرتے ہیں تو اللہ کو خود سے قریب محسوس کرتے ہیں اور اگر حال یہ ہو کہ آپ اللہ کو یاد کریں اور اللہ آپ کو یاد کرے معاملہ دوچند ہوجاتا ہے۔انسانی معاشرے میں تو یہ ممکن ہے کہ آپ کسی کو یاد کریں اور وہ آپ کو یاد نہ کرے لیکن اللہ کے معاملے میں یہ ممکن نہیں کہ اللہ کو کوئی یاد کرے اور اللہ اسے یاد نہ کرے۔اللہ نے ارشاد فرمایا:
فاذکرونی اذکرکم (البقرہ ۲۵۱)،پس تم مجھے یاد کرو میں میں تمہیں یاد کروں گا۔ذرا سوچیے کہ کتنا خوش نصیب ہے وہ بندہ جس کو اللہ یاد کرے،وہ اللہ سے کتنا قریب ہے جس کا اللہ ذکر فرمائے۔اللہ کو خوب یاد کیجیے،چلتے پھرتے،اٹھتے بیٹھتے اس کا ذکر کیجیے۔اس کا ذکر یہ کہ اس کا نام جپا جائے،اس کی صفات کی تسبیح پڑھی جائے،اس کا ذکر یہ ہے کہ اس کے احکام کو بجالایاجائے،اس کا ذکر یہ ہے کہ جب بھی کوئی کام کریں تو فوراً یہ بات ذہن میں آجائے کہ میرا اللہ اس معاملے میں مجھے کیا حکم دیتا ہے۔
۶۔اللہ سے قریب ہونے کا بڑا ذریعہ اللہ کے بندوں کی خدمت کرنا ہے۔اسلام کی تعلیم کے مطابق تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔اللہ اس بات سے بہت خوش ہوتا ہے کہ اس کے بندے انسانوں کے کام آئیں۔اس سلسلے میں کسی طرح کابھید بھاؤنہ کریں۔یہاں تک اللہ تعالیٰ نے کسی بھوکے کھانا کھلانے اور پیاسے کو پانی پلانے کو کہا کہ یہ ایسا ہے جیسے کہ میرے بندے نے مجھے پانی پلایا اور کھانا کھلایا۔قرب کا جو آخری درجہ ہے وہ یہ ہے کہ اللہ ہمیں مل جائے،اللہ سے ملاقات کا ایک ذریعہ نماز ہے اور دوسرا ذریعہ خدمت خلق ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ فرمائے گا: ابن آدم! میں نے تم سے کھانا طلب کیا تھا تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ فرمایا: وہ عرض کرے گا: پروردگار! تم نے کس طرح مجھ سے کھانا طلب کیا، میں نے تمہیں نہ کھلایا جبکہ تو پروردگار عالم ہے؟ فرمایا: کیا تمہیں علم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تم سے کھانا طلب کیا تھا تو تم نے اسے کھانا نہ کھلایا؟ کیا تجھے علم نہیں کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو تُو اسے میرے یہاں پاتا۔ ابن آدم! میں نے تم سے پانی طلب کیا تو تم نے مجھے پانی نہ پلایا، وہ عرض کرے گا: پروردگار! میں تجھے کس طرح پلاتا جبکہ تو رب العالمین ہے؟ فرمایا: کیا تجھے علم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا، کیا تجھے علم نہیں کہ اگر تم اسے پانی پلا دیتے تو اسے میرے یہاں پاتے؟ ابن آدم! میں بیمار ہو گیا تھا تو تُو نے میری عیادت نہیں کی؟ وہ کہے گا: رب جی! میں کس طرح تیری عیادت کرتا جبکہ تو رب العالمین ہے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تجھے علم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اگر تو اس کی عیادت کرتا تو اسے میرے یہاں پاتا۔“ یا ”مجھے اس کے یہاں پاتا۔“(مسلم)
اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی خدمت کیجیے،ضرورت مندوں کی فکر کیجیے،اس وقت لاک ڈاؤن کے حالات کی وجہ سے خوش حال لوگ بھی پریشان ہیں،کسی کے گھر دواؤں کی ضرورت ہے،کسی کے بچے کو دودھ کی ضرورت ہے،آپ اپنے آس پاس نظر رکھیے،ان کی ضرورتوں کا خیال رکھئے،اگر آپ دوسروں کی ضرورت پوری کریں گے اللہ آپ کی ضرورت پوری کرے گا۔جب تک آپ دوسروں کی ضرورت پوری کرتے رہیں گے اللہ آپ کی ضرورت کا خیال رکھے گا۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے اللہ اس کی مدد کرتا ہے۔“(بخاری)
ہمیں اللہ کے بندوں کے بارے میں سوچنا ہے۔ہمارے بارے میں اللہ سوچے گا۔جس کے بارے میں اللہ سوچے،جس کی ضرورت کا خیال اللہ رکھے بھلا اس کو کیا پریشانی ہوسکتی ہے اور جس کا خیال اللہ رکھے وہ اللہ سے کس طرح دور ہوسکتا ہے۔اس کا تجربہ مجھے بھی ہوا ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی میں نے دیکھا ہے۔ آپ بھی تجربہ کیجیے،اس ماہ مبارک میں دل کھول کر خدمت خلق کے کام کیجیے اور اللہ کے مقرب بندوں میں شامل ہوجائیے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔