سفر، سفرا اور چند احتیاطی پہلو

از:- مفتی ناصرالدین مظاہری

ماہ رمضان المبارک قریب سے قریب تر ہورہا ہے ، دینی مدارس کے لئے سفراء و ذمہ داران حصول یابی کے لئے نکل پڑے ہیں ، نہ دن میں چین نہ رات میں سکون ، نہ افطار کا سامان نہ سحر کا نظام ، جہاں جو کچھ مل گیا کھالیا نہیں ملا تو صبر سے کام لیا۔

مظاہرعلوم وقف سہارنپور کے لئے عرصہ تک مجھے بھی دہلی جانا ہوتا تھا مت پوچھئے اتنے بڑے ادارے کا نمائندہ ہونے کے باوجود کتنی تکلیف ہوتی تھی ، صبح سویرے نکلنا اور رات دیر تک ملنا ملانا ، معاونین سے ان کے وقت پر نہیں ملے تو دوبارہ ملاقات مشکل ، چندہ ختم ، محنت ضائع ، اب تو دہلی شہر بدل گیا ہے ، ہرا بھرا ہوچکا ہے ، گرد وغبار ختم ہوچکاہے ، بسیں اے سی کی چلنے لگی ہیں ، پالوشن برائے نام رہ گیا ہے میں جس وقت جاتا تھا اس وقت کھٹارہ بسیں تھیں دو دو روپے میں اچھی خاصی مسافت طے ہوجاتی تھی۔ لال بتی کی وجہ سے ان کا کوئی ٹائم ٹیبل ہی نہیں تھا ، کوئی تراویح کے بعد چندہ دیتا تو کوئی مغرب بعد بلاتا ، دہلی کسی چھوٹی دنیا سے کم نہیں اور جن کے پاس گاڑی وغیرہ نہ ہوتو وہ تو وقت پر پہنچنے کے لئے بہت پریشان ہوتے ہیں۔

ایک صاحب فراش خانہ کے قریب نیاریان میں رہتے تھے مجھے کسی نے وہاں کا پتہ دے دیا ، عشاء بعد وہاں پہنچنےکی تاکید کی گئی، وقت پر پہنچ گیا تو وہاں بڑی لائن تھی، میں ایک طرف کھڑا ہوگیا، صاحب خیر نے الگ کھڑا دیکھا تو پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو ؟ میں نے بتایا تو کہنے لگے اس سے پہلے بھی آئے ہو ؟ مین نے کہا نہیں پہلی بار حاضری ہوئی ہے ، کہنے لگے کہ میں نئے مدارس کو چندہ نہیں دیتا ، میں نے کہا ٹھیک ہے ،اتنا سنتے ہی کئی بہار ، بنگال اور بعض دوسرے صوبوں کے سفراء وعلماء سراپا احتجاج بن گئے ، کہنے لگے کہ مظاہرعلوم وقف نیا کیسے ہوگیا ، ڈیڑھ سو سال پہلے کا مدرسہ بھی کیا نیا ہوسکتا ہے ۔بعض نے کہا کہ میں خود اسی مدرسہ سے فارغ ہوں ، کئی نے کہا کہ میرے پاس اسی مدرسہ کی تصدیق ہے ۔ ایک نے کہاکہ اگر مظاہر علوم وقف سہارنپور کو چندہ نہیں دو گے تو ہم لوگ بھی چندہ نہیں لیں گے۔

وہ صاحب بڑا گھبرائے کہنے لگے ہماری مسجد کے امام مولانا محمد اکبر صاحب سے کہلوا دیجیے میں نے کہا ابھی کہلوائے دیتا ہوں میں مسجد گیا ، مولانا محمد اکبر صاحب (سہس پور ڈھاکی دہرہ دون والے) مسجد میں ہی تھے اور حضرت مفتی مظفرحسین سے بڑا عقیدت مندانہ تعلق رکھتے تھے ، مولانا نے ہنس کر کہا ارے ان امیروں کو کچھ بھی نہیں پتہ ہوتا ہے کہ کون مدرسہ کتنا پرانا ہے پھر فون کیا اور کہا کہ یہ مدرسہ تو ہمارا ہے ہمارے حضرت مفتی صاحب اس کے ناظم ہیں دارالعلوم دیوبند کے ساتھ ساتھ ہی قائم ہوا تھا۔خیر خطیر تعاون کیا لیکن اس واقعہ سے سبق بھی ملا کہ سفراء حضرات ایک دوسرے سے مربوط رہیں ، الدال علی الخیر کفاعلہ کا مصداق بنیں ، اپنے ساتھیوں کا خیال رکھیں ، چندہ کے لئے جھوٹ بالکل مت بولیں ، جتنا خرچہ ہو وہی بتائیں، جھوٹ کی ریت پر بلڈنگ کھڑی نہ کریں ، امیروں کی چاپلوسی علم اور دین کی توہین ہے ، اللہ پر ہی توکل رکھیں، معاونین کے سوالات کا جواب پورے اعتماد کے ساتھ دیں۔ بچوں کی تعداد بڑھاکر چندہ نہ کریں۔اخراجات اور سالانہ بجٹ میں جھوٹ نہ بولیں۔مدرسے چلانے کے لئے جھوٹ بولنے کی کسی مفتی نے اجازت نہیں دی ہے۔

نماز ،روزہ ، تراویح اور دیگر عبادات کا خاص خیال رکھیں ، بعض لوگوں کے بارے میں سنا کہ رمضان میں چندہ کے دوران روزہ نہیں رکھتے یہ بہت ہی غلط ہے ، اس زمانہ میں جب اللہ تعالی نے آسانیوں اور فراوانیوں کے دروازے کھول دئے ہیں کوئی معقول عذر روزہ چھوڑنے کا نہیں ہوسکتا۔آپ کے اس عمل سے پورا طبقہ بدنام ہوگا۔

کرایہ اور کھانے پینے میں اپنے گھر کے معمول اور معیار سے اوپر نہ جائیں، مدرسہ کے اوپر بوجھ نہ بنیں، مصارف سفر میں پوری دیانت کا مظاہرہ کریں۔

سنو سنو!!

حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری مظاہرعلوم کے اولین شیخ الحدیث ہیں، بانیان میں ان کاشمار ہوتا یے، کلکتہ شہر گئے چندہ کے لئے ، واپسی پر سفر خرچ لکھ کر پیش کیا ایک جگہ لکھا تھاکہ فلاں جگہ ایک اہل تعلق سے ملنے گیا ، چندے کی نیت نہیں تھی لیکن چندہ بھی خوب ہوا اس لئے اس سفر کا خرچ نہیں لکھا گیا ہے۔

یہ ہوتی ہے دیانٹ، اس کو کہتے ہیں خوف خدا یہی چیز اس زمانے میں عنقاہوتی جارہی ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔