از:– سید جمشید احمد ندوی
استاذ جامعہ امام شاہ ولی اللہ اسلامیہ ،پھلت
اسلام ایک آفاقی اور کامل دین ہے جو انسانیت کو فطری وحدت، روحانی اخوت اور عملی ہم آہنگی کی طرف بلاتا ہے۔ یہ دین ہر قسم کے نسلی، علاقائی، لسانی، اور گروہی تعصبات سے بالا تر ہو کر انسان کو صرف اور صرف "اللہ کا بندہ” بننے کا درس دیتا ہے۔ لیکن صد افسوس! آج اُمت محمدیہ فرقہ واریت کی آندھیوں میں بکھر چکی ہے۔ بھائی بھائی کا دشمن ہے، ایک صف میں کھڑا ہونے والا دوسرے کی تکفیر کرتا ہے، اور اتحاد و اخوت کی بنیادیں زوال کا شکار ہیں۔
آج ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں فرقہ واریت کے اس ناسور کا علاج تلاش کرنا ہے۔
کبھی سوچا ہے…؟
کربلا کیوں برپا ہوئی؟
بغداد کا گلی کوچہ لہو لہو کیوں ہوا؟
اندلس کی مساجد کیوں ویران ہو گئیں؟
دہلی کی گلیاں کیوں اجڑ گئیں؟
شام، عراق، فلسطین اور افغانستان کا حال کیوں بگڑا…؟
یہ سب کچھ دشمن کی تلوار سے نہیں،
بلکہ امت کی فرقہ واریت، آپسی بغض، نفرت اور تفرقے کی وجہ سے ہوا۔
*1. قرآنِ مجید کا پیغام: اتحاد و اخوت*
قرآن ہمیں وحدت کی طرف بلاتا ہے، تفرقہ سے روکتا ہے:
(1) "وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا”
(آل عمران: 103)
"اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔”
مگر ہم کیا کر رہے ہیں؟
کسی کو "دیوبندی” کہہ کر نفرت،
کسی کو "بریلوی” کہہ کر طعن،
کسی کو "اہل حدیث” کہہ کر حقارت،
کسی کو "شیعہ” کہہ کر کافر کہنے لگے۔
کیا یہی امتِ محمدیہ ہے؟
کیا یہی پیغامِ مصطفیٰ ﷺ تھا؟
(2) "إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ”
(الحجرات: 10)
"مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔”
(3) "وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا”
(آل عمران: 105)
"ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے (پہلے) تفرقہ کیا اور اختلاف میں پڑے۔”
قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ دین اسلام کی اصل روح، اللہ کی رسی (قرآن و سنت) کو تھامنا اور تفرقے سے بچنا ہے۔
*2. نبی کی سنت: امتِ واحدہ کی تعمیر*
رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ امت کو اتحاد کا سبق دیا، اور فرقہ بندی سے بچنے کی تلقین فرمائی:
1- "المسلم أخو المسلم، لا يظلمه ولا يخذله ولا يحقره.”
(بخاری و مسلم)
"مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے؛ نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ رسوا کرتا ہے، نہ حقیر سمجھتا ہے۔”
نبی ﷺ نے فرمایا:
2- "وستفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة، كلها في النار إلا واحدة.”
(ترمذی)
"میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی، سب جہنم میں ہوں گے سوائے ایک کے۔”
صحابہ نے پوچھا وہ کون ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
"ما أنا عليه وأصحابي”
"جو میرے طریقے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہوں گے۔”
یعنی نجات صرف اسی کو ملے گی جو سنتِ نبوی اور منہجِ صحابہ کو اپنائے گا، نہ کہ فرقہ وارانہ تعصبات کو۔
*3. فرقہ واریت: اسباب و عوامل*
فرقہ واریت کے اسباب میں چند بنیادی عوامل نمایاں ہیں:
دین سے جہالت اور قرآن و سنت سے دوری
مسلکی تعصب اور اندھی تقلید
تکفیر و تضلیل کا عام رجحان
ذاتی مفادات پر مبنی دینی قیادت
دعوتی و اصلاحی میدانوں میں کمی
امت کے مشترکہ دشمنوں کی سازشیں
*4. فرقہ واریت کے تباہ کن نتائج*
فرقہ واریت امت مسلمہ کے لیے زہر قاتل ہے:
امت کی وحدت پارہ پارہ ہو جاتی ہے
اجتماعی طاقت کمزور ہوتی ہے
باہمی اعتماد اور احترام ختم ہو جاتا ہے
نوجوان نسل بدظن ہو جاتی ہے
اسلام کی عالمی دعوت متاثر ہوتی ہے
دشمنوں کو دین کے خلاف مواد ملتا ہے
*5. قرآن و سنت کی روشنی میں حل*
(1) قرآن و سنت کی طرف رجوع:
تمام اختلافات کو وحی الٰہی کی بنیاد پر حل کیا جائے:
"فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ”
(النساء: 59)
"اگر کسی معاملے میں اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ۔”
(2) اخوت اور رواداری کا فروغ:
اختلاف کو تصادم سبب نہ بنایا جائے۔ صحابہ میں بھی اختلاف تھا مگر ان کے دل صاف تھے۔
(3) تکفیر سے گریز:
کسی مسلمان پر کفر کا فتویٰ لگانے سے پہلے سو بار سوچنا چاہیے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
"اگر کوئی اپنے بھائی کو کافر کہے اور وہ (ایسا نہ ہو) تو یہ کلمہ خود اسی کی طرف لوٹ جاتا ہے۔” (مسلم)
(4) علماء و قائدین کا مثبت کردار:
علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ فتنہ انگیز باتوں سے گریز کریں اور امت کو جوڑنے کی کوشش کریں۔
(5) دعوت و تربیت کا احیاء:
مدارس، جامعات اور مساجد میں امتِ واحدہ کے تصور کو اجاگر کیا جائے۔ نوجوانوں کو فکری بالیدگی، برداشت، اور دلیل کے ساتھ اختلاف کا شعور دیا جائے۔
*6. ایک وجدانی پکار*
امتِ مسلمہ!
آج وقت ہے کہ ہم اپنے گریبان میں جھانکیں،
کیا ہم وہی امت ہیں جس کے بارے میں قرآن نے کہا:
"كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ”؟
آج ہم "خیر امت” سے "متفرق گروہ” کیوں بن گئے؟
آج ہم دین کے داعی کم، اور فرقے کے وکیل زیادہ کیوں ہو گئے؟
آج ہمیں نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ کو اپنانے اور صحابہ کے منہج پر چلنے کی ضرورت ہے۔
اے اُمت محمد ﷺ!
اب بھی وقت ہے…
اس تفرقے کی آگ کو بجھاؤ،
اپنے ہاتھوں سے وہ چراغ جلاؤ جو قرآن و سنت کی روشنی سے منور ہو۔
اپنے دلوں سے نفرتوں کی دھول ہٹاؤ،
اپنے بچوں کو محبت، اتحاد اور اخوت کا سبق دو،
اس دین کو صرف اپنے مسلک کا نہیں، پوری انسانیت کا پیغام سمجھو۔
فرقہ واریت ایک زہر ہے…
جو ہمارے دلوں کو، ہمارے گھروں کو، ہمارے شہروں کو،
اور ہمارے رب کے دین کو دیمک کی طرح کھا رہا ہے۔
*خاتمہ*
فرقہ واریت امت کا سب سے بڑا داخلی دشمن ہے، جس کا خاتمہ قرآن کی بصیرت اور سنتِ نبوی کی حکمت سے ہی ممکن ہے۔
ہمیں انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سطح پر ایسی کوششیں کرنی ہوں گی جو دلوں کو جوڑیں، زبانوں کو نرم کریں، اور مسالک کو فہم و احترام کے دائرے میں لائیں۔
آج اگر ہم نے اپنے مسلک کو دین پر ترجیح دینا چھوڑ دیا…
اور دین کو دین مانا…
تو اتحاد آئے گا،
رحمت نازل ہو گی،
اور امت کا بکھرا ہوا قافلہ، پھر سے قادری، چشتی، دیوبندی، سلفی کی بجائے "مسلم” بن جائے گا۔
"وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ”
(فصلت: 33)