از:- محمد سالم سَرَیَّانوی
ماہ رمضان بس شروع ہوا چاہتا ہے، سال کے بارہ مہینوں میں سب سے عظمت والا، سب سے زیادہ برکت والا اور سب سے زیادہ خدا کے فضل وکرم سے مالا مال ہے، یہ مہینہ نیکیوں کا پر بہار موسم ہے، روح کی تازگی کا وقت ہے، دلوں کی صفائی کا موقع ہے، رب کی خوشنودی کی لمحات کا زمانہ ہے، اور بہت کچھ ہے! اتنے زیادہ احسانات ہیں جن کے شمار سے انساں گراں بار ہوجائے۔
ذرا تصور کیجئے! ایک شخص ہے، جو سال بھر گناہوں کا عادی ہے، سیئات کا پجاری ہے، خدا کی نافرمانیوں میں وقت گزارنے والا ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے بیزار ہے، لیکن اچانک اس کے ذہن میں تبدیلی ہوتی ہے، اس کی دل کی سیاہی میں کچھ سفیدی نمودار ہوتی ہے، پیدا کرنے والی ذات سے کچھ انس ہوتا ہے، اب ایسے شخص کویہ فکر سوار ہوتی ہے کہ اسے کچھ ایسا موقع ہاتھ لگے جس میں وہ اپنے خالق کو منا سکے، اس کی نافرمانیوں سے اپنے کو روک سکے، اس کے احکامات کی بجاآوری کرسکے، رسول کی سنتوں پر چل سکے اور اپنی ماضی کی نافرمانی والی زندگی کو فرماں داری والی زنددی میں بدل سکے، اسی دوران اسے اطلاع ملتی ہے کہ رمضان کا مہینہ شروع ہونے والا ہے، اب اس شخص کی خوشی کا کیا ٹھکانہ ہوگا، کیوں کہ اب وہ آسانی کے ساتھ اپنے افکار وخیالات کو عمل میں ڈھال سکتا ہے، اپنی سوچوں کو حقیقت کی شکل دے سکتا، اپنے روٹھے ہوئے رب کو منا سکتا ہے اور رسول کی رضامندی کو حاصل کرسکتا ہے۔
ہم بھی ایسے ہی شخص کی زندگی کی طرح جی رہے ہیں، خدا کی نافرمانیوں میں لت پت ہیں، اس کی بغاوت زندگی کا لازمی حصہ ہے، اس کی اطاعت سے روگردانی کرتے کرتے تھک گئے ہیں، رسول کی سنت سے اعراض کرکے ہار گئے ہیں، لیکن پھر بھی وہ موقع دے رہا ہے، توجہ فرما رہا ہے، انعام سے سرفراز کررہا ہے، وہ ہم جیسوں کو آواز دے رہا ہے، اس کی طرف سے ندا آرہی ہے کہ میری طرف پلٹ آؤ، ابھی موقع ہے سنبھل جاؤ، فرصت ہے غنیمت جان لو، اس لیے اب ہماری ذإہ داری بنتی ہے کہ اس کی آواز پر لبیک کہیں، اس کی ندا پر خود کو تسلیم کردیں اور اس موقع کو غنیمت جان لیں، جس میں ہم اپنے کو اس کا فرمانبردار بنا سکتے ہیں، اپنے کو اس کی اطاعت پر خم کرسکتے ہیں، اس کی کہی ہوئی چیزوں پر عمل کرسکتے ہیں، رسول کی سنتوں کی عملی عاشق بن سکتے ہیں، جنت کے حقدار بن سکتے ہیں، جہنم سے اپنی حفاظت کرسکتے ہیں، حوروں سے منگنی کرسکتے ہیں اور سب سے بڑی چیز اپنے رب کو منا سکتے ہیں، جس کا مان جانا اور راضی ہوجانا سب سے بڑی نعمت ہے۔
رمضان کی سب سے بڑی عبادت روزہ ہے، جو کہ خالص اللہ ہی کے لیےب ہے، جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے، اس لیے اس کی رضا وخوشنودی کی طرف لپکا جائے، اس کی لازوال نعمتوں کو حاصل کرنے کے اپنی تیاری کی جائے اور اپنے کو اتنا کھپا دیا جائے جس سے ہماری سب سے قیمتی چیز خدا کی خوشنودی حاصل ہوجائے۔
لیکن! دکھاوا نہ ہو، بل کہ حقیقت سے تعلق ہو، روزہ کے مقاصد سے جو چیزیں ٹکراتی ہیں ان سے ہم دور رہیں۔ زبان، آنکھ، کان، دل، ہاتھ اور پیر کے وہ تمام غلط کام جن سے روزہ کا مقصد فوت ہو جاتا ہو ان سے علاحدہ رہیں، روزہ کا مقصد ’’تقوی اور خشیت الٰہی‘‘ ہے، اس لیے روزہ، تراویح، نوافل، تلاوت قرآن، ذکر اور دیگر اعمال صالحہ کے ساتھ اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں، اس مقصد کے خلاف جو بھی کام ہو، چاہے وہ کسی بھی جنس کا ہو اس اپنے کا بچائیں۔
تو آئیں! ہم سب مل کر عہد کریں اور روزہ وغیرہ جیسی عبادت صرف اپنے مالک وخالق کو راضی کرنے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرنے کا عزم کریں، اور رمضان شروع ہوتے ہی اس کی اتنی عبادت کریں کہ وہ ہماری چاہتی چیز عطا فرماہی دے۔