مسلم پرسنل لا بورڈ اور ملی قیادت
✍️: سمیع اللہ خان
مودی سرکار کی ہندوتوادی پالیسیوں کے خلاف خلاف ملّی قیادت کی کارکردگی ایک بار پھر مایوس کن ہے۔ تازہ معاملہ وقف ترمیمی بل کا ہے، بیانات، پریس ریلیز، اور سوشل میڈیا پر جوشیلے دعوے تو ہیں، جس سے سادہ لوح مسلمان سمجھتے ہیں کہ قیادت زندہ ہے، لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کیا یہی وہ حکمت عملی ہے جس پر ہماری ملت کو بھروسہ کرنا چاہیے؟
گذشتہ برسوں میں این آر سی، سی اے اے، تین طلاق کا قانون، بابری مسجد کے خلاف فیصلہ، اور دیگر مسلم مخالف اقدامات کے خلاف بھی قیادت کی کارکردگی ناکام رہی ہے۔ ہر بار یہی ہوا کہ جب ظلم قانون بن کر سامنے آتا ہے، تب قیادت کو ہوش آتا ہے۔ لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
وقف ترمیمی بل کے معاملے میں بھی یہی دیکھنے میں آیا ہے۔ قیادت نے عوام کو صرف یہ بتایا ہے کہ یہ قانون کتنا خطرناک ہے، لیکن اس کے خلاف کوئی منظم، طاقتور، اور ملک گیر احتجاجی مہم چلانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ کیا صرف بیانات دینے سے ظلم رک جائے گا؟ یا مسلمانوں میں کسی ظلم کے خلاف جوش بھر کر پھر انہیں اس ظلم کو برداشت کرنے پر مجبور کرنے سے بھارت کا مسلمان مضبوط ہوگا؟۔ کیا پریس کانفرنسوں سے مودی سرکار کے ارادے بدل جائیں گے؟
حقیقت یہ ہے کہ ملّی قیادت کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ بیانات کی بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ دہلی میں نمائندہ احتجاج، ملک گیر نیٹ ورکنگ، نوجوانوں کی ٹیموں کی تشکیل، اور عوامی سطح پر مہم چلانے جیسے اقدامات اگست 2024 سے ہی کرنے چاہیے تھے۔ اگر قیادت واقعی مودی سرکار کے ظلم و ستم سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے پرعزم ہے، تو اسے پہلے خود میدان میں اترنا ہوگا۔
ملت کے جذبات اور توقعات کو بار بار ٹھیس پہنچانے کی بجائے، قیادت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے۔ ہمیں بیانات کی نہیں، عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر قیادت میدان میں نہیں اترے گی، تو ملت کا مستقبل تاریک ہو جائے گا اور ظالم ہندوتوادیوں کے حوصلے مزید بلند ہوں گے اور وہ مسلمانوں کے حقوق پر مزید حملے کریں گے۔