حرم سرد ہے آہ پر آہ ہے
از:- شاہد عادل قاسمی ارریہ
ملک سراپا احتجاج ہے، اذہان وافکار ماضی اور مستقبل پر سرگرداں ہیں،سوشل میڈیائ دور میں آنکھیں اور انگلیاں حرکت میں مگن ہیں کہ دوران اسکرول یکایک ایک خبر سے میڈیائ دنیا پٹ جاتی ہے ،جس سے دل زخم زخم اور آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں،گردش خبر سے ایک شور اٹھتا ہے جو دریا کی روانی کو مات دیتا ہوا اپنی صداقت کا مہر ثبت کرجاتا ہے، یوں تو دو سطری خبر ہے مگر خرمن جاناں کوایسے خاکستر کرگئیں جس سے ایک طبقہ کراہ اٹھا،جس سے ایک گروہ چینخ اٹھا،جس سے ہزاروں دلوں کی بستیاں سسک اٹھیں،نظر میری بھی تھم سی گئ مگر کچھ چھن میں مجھے کل من علیہا فان کی صداۓ ربانی اپنے طرف متوجہ کر گئی اور بے ساختہ زبان پر انا للہ وانا الیہ راجعون کا ورد شروع ہوگیا،بائیس چوبیس سال قبل کا نقشہ ذہن پر ایسا مرتسم ہونے لگا جیسے ڈیجیٹل بورڈ پر آموختہ پسر گیا ہو، زمانۂ طالب علمی سے فرصت ملی معا اصلی میدان میں ڈائریکٹ کھڑا کیاگیا ،ایک سالہ تدریسی میعاد کی بھر پائ کے لیے ایک صاحب خیر کے ساتھ مالی فراہمی یا زکوہ حصول یابی کے لیے سردار مدرسہ نے روانہ کیا،زندگی کا پہلا سفر تھا جہاں کی مشقت اور مضحکہ خیزی سے میں بالکل نابلد تھا، قاسمیت کا ٹائٹل ضرور مستند تھا مگر مونچھ اور داڑھی کی عدم موجودگی سے جنسیت پر بہتوں کو شک وشبہ بھی تھا، وہ تو سر پر ٹوپی اور بدن پر لمبا کرتا تھا جو صنف نازک سے موسوم تو نہیں کیا جاتا تھا مگر کچھ ناہنجار امرود سے امرو ضرور کہنا پسند کرتے تھے ،بھری مسجد اور بھرے مجمع سے سائیڈ کردیا جاتا تھا، کوئ نابالغ تو کوئ مراہق کا ٹائٹل چپکا دیا کرتا تھا جب کہ اندر سے میں مکمل بالغ اٹھارہ سالہ نوجوان فاضل دیوبند تھا، موسم کا یاد نہیں وقت ضرور یاد ہے۔ تقریبا گیارہ بجے کا وقت ہوگا کہ ہم چند لحیم شہیم اور ضعیف ونحیف بزرگان کی معیت میں ایک نہایت وسیع وعریض اور لق ودق میدان میں حاضر ہوۓ، عمارتوں اور بلڈنگوں کی بناوٹوں سے کچھ دیر کے لیے ماتھا ٹھنکا یا اللہ ہمارا ورود مسعود کس دیار اور کس خیابان میں ہوا ہے،جس کی فصیل کا اتہ پتہ اور نہ حد بندی کی کوئ حد بندی،سر اٹھاؤں تو کلاہ ترچھی ،نگاہ نیچے کروں تو آزار کی عذر بندی،ڈگ بڑھاؤں تو فاصلے کا سلام قدم روکوں تو فیصلے پر کلام ،راہ بر آگے آگے اور میں پیچھے پیچھے قرینے اور سلیقے سے بچھے شاہ راہ اور برگ وسبز پر ریسرچ کرتا ہوا ہم رکاب رہا،چھوٹے جھوٹے عربی اور اردو کوٹیشنز نظر آتے ،اچک کر نگاہیں دیدار کرتیں من اندر اندر آنندت ہوتا ،کبھی مسکراتا اور کبھی درس عبرت سمجھ کر پشیماں یا پریشان ہوتا،سفر کے سرپرست سخت تھے،تفتیش پر کبھی تضحیک ہوتی ،کبھی تاکید ملتی اور کبھی تلمیحاتی انداز سے سبکی بھی میسر ہوتی اس لیے قدم سے قدم تو نہیں لیکن اتباع قدم میں عافیت محسوس ہوتی،دو سو میٹر کی دوری پر ایک بریک لگا جس پر بزرگ لیڈر گویا ہوۓ ،عزیزم آپ کا پہلا سفر ہے،اس لیے یہ گانٹھ باندھ لیں جو اور جتنا پوچھا جاۓ اتنا ہی بولنا،درسیات کے علاوہ گوشوارہ کی شکل میں جو کتاب ہمراہ ہے اسی کی عبارت کو پڑھنا،جن کی جو تعداد ہو وہی زبان سے نکالنا، مجھے آج کا یہ سبق بڑا مہنگا محسوس ہوا اکابر کی بات تھی،اطاعت امیر ضروری ہے ہاں میں ہاں ملاتا رہا اور بالآخر خراماں خراماں ایک دروازے پر جا پہنچا،ہٹو بچو والی کوئ بات نہیں تھی بیک وقت سبھوں کو اندروں باب داخلے کی اجازت ملی، ڈر، خوف، بھئے اور خدشہ تو نہیں لیکن احترام میں سبھی بچھے گدے پر بیٹھ گئے،علیک سلیک،خیر گوئ اور خیر جوئ طرفین سے رہی پھر ایک آواز نکلی آپ اپنی کلاس میں جائیں ،سبھی سٹ پٹا گئے لیکن میرے ساتھ یہ روز مرہ کا معمول تھا اور میں خاموشی کو باۓ باۓ کرتا بول گیا کہ حضور میں بھی انھیں اکابرین کی رفاقت میں یہاں تک پہنچا ہوں، کچھ دیر کے لیے سناٹا پسر گیا،سبھی زبان گنگ اور سبھی نگاہیں مجھ پر مرکوز ہوگئیں،قربان جاؤن اس مسکی اور اس خوب صورت اخلاق پر جنھوں نے برجستہ مجھے اپنے نورانی سینے سے چمٹا لیا اور بے پناہ لاڈوپیار سے نوازا،کیا نام ہے؟کہاں کے رہنے والے ہو؟کہاں کی فراغت ہے؟کیا پڑھاتے ہو؟وغیرہ وغیرہ
اسی دور کی میری دو کتابیں اناونسری سیکھئے اور اثر انگیز تقریریں تھیں، میں نے آں محترم کی نذر کی ،کافی دعائیں ملیں اور دعوت بھی ملی کہُ تراویح بعد آپ سے ملاقات ہوگی۔
اکابرین سے آپ مخاطب ہوۓ،مقصد سفر سے آپ واقف تھے،سیزن بھی مخصوص تھا کچھ ضروری معائنہ اور مشاہدہ کے بعد آپ سبھوں سے فارغ ہوۓ اور مجھے بعد تراویح کہہ کر مسجد کی جانب بڑھ گئے،صداۓ حی علی الصلوٰۃ کی سماعت سے ہم سب محظوظ ہوچکے تھے ،اس لیے فریضے کی ادائیگی کے لیے چلتے بنے،لمبی چوڑی مسجد،لمبا چوڑا حوض اور وضوخانہ ،قطار در قطار استنجاء خانہ ہم کسی جامعہ میں ہیں یا کسی شاہی محل میں فیصلہ کرنا مشکل ہورہا تھا،معبود حقیقی کی پرستش سے فرصت ملی سیدھے ہم مہمان خانہ آگئے، کچھ ہی دیر میں ایک باریش اور بااخلاق انسان نمودار ہوا اور ہمیں (افطار)عشائیہ کے لیے ایک ہال میں لے گیا جہاں سینکڑوں مندوبین اور طلباء ماحضر پر ہاتھ صاف کررہے تھے ہم سب بھی دہن وکام کو رام کئے اور پھر قیام گاہ کی جانب لوٹ آۓ
مانو وقت ٹھہر سا گیا تھا،کب ٹائم ہوگا؟کیا کیا سوالات ہوں گے؟کیا کیا پوچھے جائیں گے ؟کی جھلاہٹ سے میرا دماغ پھٹا جارہا تھا،میرا سفر پہلا ہے یا اللہ ہر قسم کی آسانی کرنا یہی دعا میری زبان زد تھی۔
آخرکار بعد تراویح میری حاضری ہوئ پہلا سوال کھانا کھا ۓ؟جی مختصر سا جواب دے کر سر نیچے کرلیا، چاۓ آئ اور معتقدین اور متوسلین جو ارد گرد تھے آپ نے کچھ دیر کے لیے ان سے تخلیہ کی گنجائش نکالی دو یا تین لوگ جو آپ کے پہلوؤں میں ہمہ وقت رہتے تھے ان کو رہنے دیا گیا ،پھر مجھ سے مخاطب ہوۓ، ملا ہوں یا نیم ملا اس لئے کچھ علمی اور فنی باتیں بھی ہوئیں،حالات حاضرہ اور معلومات جدیدہ پر بھی گفت وشنید ہوئ ،تسلی بخش گفتگو سے میں نے ان کا دل جیتا اور آپ کافی مطمئن ہوۓ،جامعہ میں رہوگے جیسے نوازشات سے بھی نوازا میں نے نفی اثبات کی جگہ خاموشی اختیار کی آپ مخصوص لہجہ میں مسکرانے لگے اور پھر دعائیں دینے لگے۔
مصروف ترین شخصیت آپ کی تھی،تقریبا ایک گھنٹہ اس گناہ گار کو مل چکا تھا اور مقصد سفر بھی تصور سے زیادہ ہوچکا تھا،زندگی کا پہلا قلم تھا جو اتنا موٹآ تھا،انگلیوں کی گرفت میں قلم پر لرزہ طاری تھا،سلے جیب پر ایک کاغذ کا ٹکرا کافی بھاری تھا،ڈرافٹ کا زمانہ تھا یا کیش کا،آسانی سے ٹرانسفر ممکن تھا اور نہ ڈی پوزٹ ،میں عجیب کش مکش کا شکار ہوگیا،حالات بھانپ گئے اور بولے آپ کاغذ کا ٹکڑا واپس کردیں کچھ دیر کے لیے دھچکا لگا کہ آیا زر واپس جارہا ہے لیکن کل بائ ڈاک چلا جاۓ گا کہہ کر تسلی ملی اور کرم خدا کا کہ میرے پہنچنے سے قبل وہ مقام مخصوص پر پہنچ گیا
وہ میری پہلی ملاقات تھی اس کے بعد دسیوں ملاقات ہوئیں ہر ملاقات پر وہی انداز جس پر دل وجان آج بھی قربان ہے،آپ خادم قران ومساجد یا خادم مکاتب ومدارس ہی نہیں ہیں بل کہ معمار انسانیت اور رجال ساز تھے،آپ پیکر صلاحیت ہی نہیں بل کہ حلم ومتانت اور زہدوورع کے مجسمہ تھے،صالحیت و پاک دامنی کے منبع تھے،علماؤں کے سردار،غریبوں ومحتاجوں کے مسیحا،یتیموں اور مسکینوں کے مائ باپ تھے،قوم ودھرم اور ملک وملت کے لیے قیمتی اثاثہ تھے،ہزاروں مدرسوں کے زمہ دار اور سینکڑوں تنظیموں کے سرپرست تھے،خیر وبھلائ کے لیے ایک آئیڈیل تھے،افراد سازی اور نسل نو کی معماری کے لیے ایک مشعل راہ تھے،حساس طبعیت کے مالک اور بالغ فکر ونظر کے حامل تھے،مقتضاۓ حال کے مطابق قلم اور قدم اٹھانے والے تھے،باطل کے لیے موسی اور حق وصداقت کے لیے کوہ ہمالیہ تھے،گوناگوں صفات کے وہ ایسے کوہ کن تھے جنھوں نے خاموشی سے بڑے بڑے چٹانوں کو ریزہ ریزہ کیا ہے ،جنھوں نے خوش خلقی اور حسن نیتی سے بڑے بڑے طلسموں کو پاش پاش کیا ہے،جنھوں نے قرآنی خدمات سے ان گنت اور لاتعداد صاحب قساوت قلب کو عرفانییت سے جاگزیں کیا ،سچ پوچھئے تو آج انسانیت کا دیوتا اور محبوب دوجہاں کا چہیتا اور علماؤں کا دولہا حضرت مولانا غلام محمدوستانوی صاحب آج اپنے اصلی خالق اور حقیقی مالک کی پناہ میں چلے گئے اور یہ زبان پر عام ہوگیا کہ
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے