ڈاکٹر عبد العزیزسلفی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
جمعیت اہل حدیث ہند کے نائب امیر، دا رالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کے ناظم اعلیٰ، سلفیہ ہائی اسکول ، سلفیہ یونانی میڈیکل کالج، ملت شفاخانہ امام باڑی دربھنگہ کے منتظم وسکریٹری، شفیع مسلم ہائی اسکول کی مجلس منتظمہ اوردار العلوم ندوۃ العلماء کی مجلس عاملہ کے رکن، انجمن نادیۃ الاصلاح کے سابق لائبریرین، مسلم انجمن تعلیم کے سابق خزانچی جناب ڈاکٹر عبد العزیز سلفی کا 12؍ ستمبر 2023ء روز منگل بوقت 10؍ بجے دن دربھنگہ میں انتقال ہو گیا، ان کی عمر تقریبا پچاسی سال تھی، جنازہ کی نمازبعد نماز مغرب قبیل عشاء مولانا خورشید مدنی سلفی کی امامت میں ادا کی گئی، تدفین چک زہرہ قبرستان میں عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ، دو فرزند انجینئر سید اسماعیل خرم، ڈاکٹر سید یوسف فیصل، ایک صاحب زادی عائشہ فرحین اور ایک بھائی ڈاکٹر سید عبد الحکیم سلفی کو چھوڑا، اس طرح ملت ایک بڑے دانشور، ملی کاموں میں سر گرم اور با فیض شخصیت سے محروم ہو گئی۔ سدا رہے نام اللہ کا۔
مولانا ڈاکٹر عبد العزیز سلفی بن ڈاکٹر عبد العزیز سلفی (م 1988) بن ڈاکٹر سید فرید رحمہم اللہ نے 10؍ جنوری 1948ء کو دانا پور پٹنہ میں آنکھیں کھولیں، چھ سال کی عمر میں دا رالعلوم احمدیہ سلفیہ میں فارسی دوم کی جماعت میں داخلہ ہوا اور 1955ء میں یہاں سے سند فراغ حاصل کیا، فارسی کی ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی، اس کے بعد جن اساتذہ کے سامنے آپ نے زانوے تلمذ تہہ کیا ان میں مولانا عبد الرحمن پرواز اصلاحی، مولانا نذیر احمد املوی، مولانا فضل الرحمن اعظمی، مولانا عبد الرحمن سلفی، مولانا ظہور رحمانی، مولانا ادریس آزاد رحمانی، مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی، مولانا عبید الرحمن عاقل رحمانی کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں، یہاں دوران تعلیم آپ کافی سر گرم رہے، بیت بازی، مختلف نوعیت کے انعامی مقابلے اور مشاعروں کا انعقاد کرایا، قلمی رسالہ ’’شگوفہ‘‘ اور ’’منادی‘‘ کے نام سے نکالا،اس طرح آپ طلبہ واساتذہ کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔
مدرسہ کی تعلیم کی تکمیل کے بعد شفیع مسلم ہائی اسکول کے دسویں کلاس میں داخلہ لیا اور 1975ء میں سائنس لے کر میٹرک کا امتحان پاس کیا، اس کے بعد سی ایم کالج دربھنگہ میں آئی ایس سی میں داخلہ لیا، لیکن 1961ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڈھ چلے گیے اور بی ایس سی تک کی تعلیم وہیں پائی، نالندہ میڈیکل کالج پٹنہ میں داخلہ 1970ء میں ہوا اور یہیں سے 1976ء میں ایم بی بی ایس کیا، اسکول کے اساتذہ میں جناب محمد محسن (بی اے) ماسٹر مطیع الرحمن صاحب جن سے ڈاکٹر صاحب نے انگریزی جغرافیہ اور حساب، ماسٹر جمیل احمد صاحب جن سے سائنس اور بشیر احمد شاداں فاروقی سے سماجیات کی تعلیم کے لیے زانوئے تلمذ تہہ کیا، ان حضرات نے ڈاکٹر صاحب کے علمی وادبی ذوق کو پروان چڑھایا، علی گڈھ کے دوران قیام ان کے استاذ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی سابق گورنر بہار اور ہریانہ رہے، میڈیکل کالج کے اساتذہ کا مجھے علم نہیں ہو سکا۔
ایم بی بی ایس سے فراغت کے ایک سال قبل 1975ء میں رخسانہ خاتون بنت قاضی سید حسن شیر گھاٹی گیا کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے ، اللہ رب العزت نے اس رشتہ میں برکت عطا فرمائی اور دو لڑکے، ایک لڑکی کے ساتھ پوتے ، پوتیاں نواسے اور نواسیوں سے بھرا پُرا گھر موجود ہے۔
ڈاکٹر صاحب سے میری ملاقات کئی تھی، لیکن گہرے مراسم نہیں تھے، ان کی بہ نسبت ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر عبد الحلیم سلفی سے میرے مراسم مضبوط تھے،ا س کی خاص وجہ یہ تھی کہ جب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ریاستی سطح پر اصلاح معاشرہ کمیٹی کی توسیع کی تو بہار کو دو حصوں میں تقسیم کرکے جنوبی بہار کا کنوینر مولانا انیس الرحمن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ اور شمالی بہار کا کنوینر ڈاکٹر عبد الحلیم سلفی کو بنایا تھا اورمجھے شمالی بہار کا جوائنٹ کنوینر بنایا گیا تھا، اس حوالہ سے میرا آنا جانا کئی بار دربھنگہ ہوا اور ڈاکٹر عبد الحلیم سلفی ؒ کے ساتھ ان کے گھر حاضری ہوتی تھی، ڈاکٹر عبد العزیز صاحب سے وہیں ملاقات ہوتی رہی، اس زمانہ میں بھی ڈاکٹر صاحب پر ضعف کا غلبہ تھا، بلکہ جسم میں رعشہ تھا، اس کے باوجود جب بھی ملے پورے اخلاق سے ملے، ضیافت کا اہتمام کیا، ان سے مل کر یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ہم کسی خاص مسک کے قائد سے مل رہے ہیں، اپنے مسلک پر مضبوطی سے قائم رہنے؛ بلکہ بڑی حد تک اس کی ترویج واشاعت کے لیے کوشاں ہونے کے باوجود دوسرے مسلک کا وہ احترام کرتے تھے اور ملت کے کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عادی تھے، مزاج میں سنجیدگی کے باوجود گفتگو مؤثر اور دلآویز کیا کرتے تھے، پہلی ملاقات میں کوئی ان سے متاثر نہیں ہوتا تھا، لیکن جیسے جیسے قربت بڑھتی ، تعلقات میں اضافہ ہوتا، آدمی ان کا گرویدہ ہوتا تھا، اسی گرویدگی کی وجہ سے ان کے گرد ایسے لوگ جمع ہو گیے تھے، جنہوں نے ان کے دادا اور والد کے قائم کردہ اداروں کو اضمحلال اور تنازل کے اس دور میں پورے وقار ، معیار، اعتبار اور اعتماد کے ساتھ چلایا اور آج بھی وہ تمام تعلیمی ادارے تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ہیں، ڈاکٹر صاحب کی ایک بڑی خصوصیت عہدوں سے اجتناب تھا، کئی موقعوں پر انہوں نے عہدوں کے قبول کرنے سے انکار کیا،حالاں کہ وہ بغیر طلب آ رہے تھے اور بغیر طلب عہدوں پر اللہ کی نصرت بھی آیا کرتی ہے، اس کے باوجود عہدے ان کی طرف کھینچے آرہے تھے، نوجوانوں کو جمعیت اہل حدیث بہار سے جوڑنے کے لیے جمعیت شبان اہل حدیث کا قیام 1973ء میں مظفر پور اجلاس میں ہوا تو اس کی دستور سازی کے لیے جو سہ رکنی کمیٹی بنائی گئی اس میں جعفر زید سلفی ، بدر عظیم آبادی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب بھی شریک تھے، وہ ایک زمانہ تک جمعیت اہل حدیث بہار کے خازن بھی رہے۔ 1998ء میں دار العلوم احمدیہ سلفیہ کے ناظم منتخب ہوئے اور آخری سانس تک اس ذمہ داری کو نبھایا، ان کی تحریریں کتابی شکل میں میرے سامنے نہیں ہیں، لیکن بعض موقعوں سے ان کے مضامین دار العلوم احمدیہ سلفیہ کے ترجمان الھدیٰ میں شائع ہوا کرتے تھے، بعض شمارے میں اداریے بھی ان کے قلم سے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کو اسٹیج سے تقریر کرتے ہوئے بھی میں نے نہ کبھی دیکھا ،نہ سنا ، میں نے جس دور میں دیکھا، اس میں وہ ضعف قویٰ کے شکار تھے اور گفتگو بھی کم کیا کرتے تھے، ان کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ حکیم عبد الحمید مرحوم کی قبر کا وہ کتبہ یاد آتا تھا جس میں ان کے ملفوظ نقل کیے گیے ہیں، وہ کہا کرتے تھے کہ ابو الکلام ، ابو اللسان، ابو البیان تو بہت لوگ ہیں، میں تو ابو العمل بننا چاہتا ہوں، چنانچہ ہمدرد یونیورسٹی اورہمدرد کی دوائیاں ان کے اسی ابو العمل ہونے کی گواہ ہیں، ڈاکٹر عبد العزیز صاحب بھی ابو العمل تھے، انہوں نے اپنی زندگی گفتار کے غازی کے بجائے عملی مجاہد کے طور پر گذارا، تبھی وہ اتنے بڑے بڑے تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ادا کرنے میں کامیاب ہوئے، بلا شبہ ان کی پوری زندگی، دعوتی، ملی اور تعلیمی تھی اور انہوںنے ہر محاذ پر کام کو آگے بڑھا کر ہم سب کو کام کرنیکا سلیقہ بتانے گیے، اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی خدمات کو قبول فرمائے اور زندگی بھر کی جد وجہد کا بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم