از:- ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد
وقف ایک مہذب اور پر امن قوم کی اجتماعی روح، ایک مومن کے دل کی صدائے خیر، اور ایک اسلامی تمدن کا روشن مینار ہے، جس کی بنیاد اخلاص پر رکھی گئی، اور جس کی چھاؤں میں علم، عبادت، فلاح اور روحانیت کی صدیاں پلتی رہیں، یہ محض جائیدادوں کا مجموعہ نہیں بلکہ امت کی فکری، اخلاقی اور روحانی میراث ہے، مدارس، مساجد، عید گاہیں، خانقاہیں، یتیم خانے، کتاب خانے، مسافر خانے، شفا خانے، دوسرے تعلیمی ادارے، یہ سب اس عطیۂ پر خلوص کی ثمر دار شاخیں ہیں جنہیں ’’وقف‘‘ کہتے ہیں، وہ شاخیں جن پر نہ کسی حکومت کا حق ہے، نہ کسی اقتدار کا تسلط، نہ کسی فرد واحد کا اختیار، اور نہ ہی اکثریتی زعم رکھنے والے افراد کا سچا دعویٰ، بلکہ یہ اللہ کی ملکیت ہے، جس کا نظام متولیوں کو مخصوص ضابطوں کے تحت چلانا ہوتا ہے۔
ہندوستان میں وقف نہ صرف اقلیتوں کے آئینی حقوق (Minority Rights) کا مظہر رہا ہے بلکہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب کا حصہ بھی، لیکن حالیہ دنوں میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ وقف ترمیمی قانون 2025ء نے اس تاریخی، دینی اور قانونی ادارے کو شدید خطرہ میں ڈال دیا ہے، نئے قانون کے چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1. وقف بالاستعمال (Waqf by User) کا خاتمہ: 1995ء کے قانون میں یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ جو جائیدادیں طویل عرصہ سے مسجد، درگاہ یا قبرستان کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں، وہ خود بخود وقف مانی جائیں گی، لیکن نئے قانون میں اس اصول کو محدود کر دیا گیا ہے۔
2. لمیٹیشن ایکٹ کے استثنا کی منسوخی: پہلے وقف املاک لمیٹیشن ایکٹ سے مستثنیٰ تھیں، جس کا مطلب تھا کہ پرانے ناجائز قبضوں کو ختم کیا جا سکتا تھا، اب یہ استثنا ختم کر دیا گیا ہے، یعنی پرانے قابضین کے قبضوں کو قانونی تحفظ دے دیا گیا ہے۔
3. غیر مسلم عطیات کی بے دخلی: جو جائیدادیں غیر مسلموں نے وقف کی تھیں یا بطور مسجد، قبرستان استعمال ہو رہی تھیں، وہ نئے قانون کے تحت وقف تصور نہیں کی جائیں گی، جس سے ان پر بھی حکومت قبضہ کر سکتی ہے۔
4. قانون کا امتیازی پہلو: وقف بالاستعمال اور لمیٹیشن ایکٹ کی سہولتیں ہندو، سکھ، بودھ اور عیسائی اوقاف کے لیے برقرار ہیں، لیکن مسلمانوں سے چھین لی گئی ہیں، ہندو اینڈومینٹ اور گر دوارہ پربندھک کمیٹی جیسے اداروں میں صرف مذہبی طبقہ کی نمائندگی ہے، لیکن وقف بورڈ میں دو غیر مسلم ارکان کی موجودگی لازمی قرار دی گئی ہے، اور چیف ایگزیکٹیو کی تقرری کا اختیار حکومت کو دے دیا گیا ہے۔
5. نئے اوقاف پر قدغن: اب صرف وہ شخص وقف کر سکتا ہے جو کم از کم گزشتہ پانچ برسوں سے عملی مسلمان ہو، یہ شریعت اور آئینی حق کے خلاف ہے، اور نئے مسلمانوں کے حقِ وقف کو سلب کرتا ہے۔
6. وقف علی الاولاد پر پابندی: شریعت میں اولاد کے لیے وقف جائز ہے، مگر نئے قانون میں اس پر قانونی حقوق کے تلف کئے جانے کا اعتراض جوڑ دیا گیا ہے، جو اسلامی اصولِ وقف میں کھلی مداخلت ہے، اور قانونی حق کا لفظ ایسا وسیع ہے کہ اس بنیاد پر اولاد سے ان کا حق چھینا جاسکتا ہے۔
7. اوور رائیڈنگ شق کی تنسیخ: پہلے وقف ایکٹ کو دوسرے قوانین پر ترجیح حاصل تھی، یعنی اگر وقف قانون کا کسی دوسرے قانون سے ٹکراؤ ہوجائے تو پہلے وقف قانون کو فوقیت دی جاتی تھی، اب یہ حیثیت ختم کر دی گئی ہے، جس سے وقف کمزور ہو گیا ہے۔
8. جھوٹے پروپیگنڈے کا سہارا: حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ وقف بورڈ کسی بھی زمین پر دعویٰ کر سکتا ہے اور کہ وقف جائیدادوں کا رقبہ بہت بڑا ہے، حقیقت یہ ہے کہ وقف کے اندراج کا ایک شفاف قانونی عمل ہوتا ہے، اور وقف بورڈ کے فیصلہ کو چیلنج کرنے کے لیے ٹربیونل، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دروازے کھلے ہوتے ہیں، نیز، سچر کمیٹی کے مطابق ملک میں وقف کا رقبہ چھ لاکھ ایکڑ ہے، جب کہ جنوبی ہند کی صرف دو ریاستوں میں ہندو انڈومینٹ کی زمین نو لاکھ ایکڑ سے زیادہ ہے۔
اسلامی اوقاف جو کبھی امت کے سر کا تاج اور ان کے لیے وجہ افتخار تھیں، ایک ایسے سرکاری فرمان کی زد میں ہیں جو ان کے مقدس وقار کو نوکر شاہی کے بوٹوں تلے روند دینا چاہتا ہے، پارلیمنٹ میں منظور کی جانے والی یکطرفہ ترمیمات محض قانون کی سطریں نہیں، بلکہ اس تہذیبی شجر پر تیشہ زن منصوبوں کا وہ اعلان ہیں جو ہندوستان کی آئینی روح، اقلیتوں کے مذہبی وقار، اور مسلمانوں کے خود اختیار اداروں کو دفن کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
یہ ترمیمات اُس مہلک رجحان کی غمازی کرتی ہیں جس میں حکومت مذہبی آزادی (Religious Freedom) جیسے مہذب تصورات کو طاقت کے بل پر روندتی چلی آ رہی ہے، دفعہ 25 اور 26 جو ہر مذہبی برادری کو اپنی عبادتوں، اپنے عقائد اور اپنے اداروں کے قیام وانتظام کا حق دیتی ہے، آج انہی دفعات کو پامال کر کے مسلمانوں کے وقف بورڈز کو محض کٹھ پتلی اداروں میں پوری طرح تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اور کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ان ترامیم کا اصل نشانہ صرف مسلمان ہیں، اور باقی اقلیتی برادریوں کے اوقاف ان سے محفوظ رکھے گئے ہیں؟
یہ سوال فقط قانونی نہیں، ایک قومی ضمیر کا سوال ہے، جس کا جواب ہر انصاف پسند شہری کو دینا ہوگا، کیا دستور اس لیے بنایا گیا تھا کہ وہ صرف طاقتوروں کے حق میں ڈھال بنے؟ کیا اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانتیں صرف دستاویزاتی خوبصورتی کے لیے تھیں؟ اور کیا یہ ملک اکثریت پسندی کی وحشیانہ تعبیر میں بدل دیا جائے گا؟
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت میں جو تحریک شروع کی گئی ہے، وہ ایک آئینی، تہذیبی اور ایمانی بیداری کی تحریک ہے، یہ صرف پر امن احتجاج (Peaceful Protest) نہیں، بلکہ اپنی نسلوں کو خودی، آزادی اور وقار کے تحفظ کی تعلیم دینے کی تحریک ہے، اس میں صرف دھرنے اور میمورنڈم نہیں، بلکہ ایک فکری جدوجہد شامل ہے جو دلیل، حکمت اور صبر سے مزین ہے، یہ تحریک ان نوجوانوں کو آواز دے رہی ہے جو میڈیا پروپیگنڈے (Media Propaganda) کے شور میں سچائی کی شمع جلانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے حقوق کے لیے ان تمام جمہوری ذرائع (Democratic Channels) کو استعمال کریں جن کا آئین نے ہمیں اختیار دیا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ ہم متحد ہوں، منظم ہوں، اور قیادت کی رہنمائی میں چلیں، اور قیادت بھی ایک رائے پر آجائے، الگ الگ اعلانات نہ ہوں، انتشار، جذباتیت، اور خود ساختہ فیصلے اس جدوجہد کو کمزور کریں گے، اور یہی وہ کمزوری ہے جس کی دشمنوں کو تلاش ہے، ہمیں جذبات کی رو میں بہنے کی بجائے عقل کی کشتی میں سوار ہوکر چلنا ہوگا۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وقف پر حملہ دراصل امت مسلمہ کی اجتماعی خودی پر حملہ ہے، یہ حملہ صرف زمین کے قطعات پر نہیں، ہمارے ایمان، تہذیب، اور دینی خود مختاری پر ہے، ہمیں اس حملہ کا جواب حکمت، قانون، اور مزاحمت کی مشترکہ قوت سے دینا ہوگا، اس کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی (Strategic Framework) کی ضرورت ہے جو عدالتوں سے لے کر عالمی فورمز تک، میڈیا سے لے کر بین المذاہب مکالمے (Interfaith Dialogue) تک، ہر محاذ پر سرگرم ہو۔
اور دنیا کو بھی خبردار کرنا ہوگا، اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں (Human Rights Organizations) اور عالمی میڈیا کو بتانا ہوگا کہ بھارت میں اقلیتوں کے حقوق محض تقریری نعروں میں قید کر دیے گئے ہیں، اگر ہم اپنی آواز کو دنیا کے کانوں تک نہ پہنچا سکے تو ہمارا مقدمہ ہمارے کمروں کی خاموشیوں میں دفن ہو جائے گا، اور اگر ہم دنیا سے سنجیدگی چاہتے ہیں، تو ہمیں خود بھی سنجیدہ ہونا ہوگا۔
افسوس، وہ سیاسی پارٹیاں جو کبھی خود کو ’’سیکولر‘‘ کہتی تھیں، وہ بھی اب خاموش تماشائی بن گئی ہیں یا اس مہم میں برابر کی شریک، وہ جنہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے ووٹ لیے، آج مسلمانوں کی توقیر پر ہونے والے حملہ پر یا تو بے زبان ہیں، یا سازش میں شریک۔ اس موقع پر مسلمانوں کو خود اپنی صفیں درست کرنی ہوں گی، ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہماری کمزور ترجیحات، ہمارے منتشر رد عمل، اور ہماری قیادت سے بے نیازی یا بیزاری ہی نے ہمیں اس انجام تک پہنچایا ہے، اور کئی بار ارباب حل وعقد کی طویل ترین "معاملہ فہمی” اور پھیکے رد عمل نے بھی نقصان پہنچایا ہے۔
اب وقت ہے کہ ہم تاریخ کا دھارا موڑنے کا عزم کریں، اگر ہم نے اس مرحلہ پر غفلت کی، تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی، وہ ہم سے سوال کریں گی کہ جب وقف پر حملہ ہوا، جب تہذیب لُٹ رہی تھی، جب شناخت روندی جا رہی تھی، تو آپ کہاں تھے؟ اور ہمارے پاس اس سوال کا جواب صرف ایک ہوگا: یا تو ہم مزاحمت کی صف میں تھے، یا غفلت کی گہری نیند میں۔
اللہ رب العزت سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمیں بصیرت، ہمت اور اتحاد عطا فرمائے، اور ہماری اس پر امن مگر پر عزم تحریک کو کامیابی سے ہمکنار فرمائے کہ یہ تحریک ہمارے ایمان کا مظہر ہے، یہی ہماری تاریخ کا تقاضا، اور یہی ہماری آئندہ نسلوں کے تحفظ کی ضمانت ہے۔
اور یاد رکھیے، ظلم کی رات جتنی بھی طویل ہو، اگر دلوں میں اخلاص کی روشنی ہو تو صبح ضرور طلوع ہوتی ہے:
دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے