یوم التغابن کیا ہے ؟
از:- محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ
قرآن مجید کی ایک سورت کا نام التغابن ہے ، جس کے معنی (دھوکہ کھانے یا خسارے کا دن) کے ہیں ۔
ترتیب: قرآن میں یہ سورت 64 ویں سورت ہے ۔
نزول کے اعتبار سے مدنی سورت ہے ،اس سورہ میں
آیات کی تعداد: 18ہیں ،جبکہ
رکوع دو ہیں ۔ قرآن مجید میں ہے:
يَوۡمَ يَجۡمَعُكُمۡ لِيَوۡمِ الۡجَمۡعِ ذلِكَ يَوۡمُ التَّغَابُنِ وَمَنۡ يُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰهِ وَيَعۡمَلۡ صَالِحًـا يُّكَفِّرۡ عَنۡهُ سَيِّاٰتِهٖ وَيُدۡخِلۡهُ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰ لِكَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیْمُ ۞
ترجمہ:
(یہ دوسری زندگی) اس دن (ہوگی) جب اللہ تمہیں روز حشر میں اکٹھا کرے گا۔ وہ ایسا دن ہوگا، جس میں کچھ لوگ دوسروں کو حسرت میں ڈال دیں گے۔ اور جو شخص اللہ پر ایمان لایا ہوگا، اور اس نے نیک عمل کئے ہوں گے، اللہ اس کے گناہوں کو معاف کردے گا، اور اس کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔
مولانا ابو الأعلى مودودی رح اس آیت کی تفسیر کچھ یوں کرتے ہیں:
اجتماع کے دن سے مراد قیامت، اور سب کو اکٹھا کرنے سے مراد ہے، تمام ان انسانوں کو بیک وقت زندہ کرکے جمع کرنا جو ابتدائے آفرینش سے قیامت تک دنیا میں پیدا ہوئے ہوں۔ یہ مضمون قرآن مجید میں جگہ جگہ کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورة ہود میں فرمایا ذٰلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ لَّہُ النَّاسْ وَذٰلِکَ یَوْمٌ مَّشْہُوْدٌ، ” وہ ایک ایسا دن ہوگا جس میں سب انسان جمع ہوں گے اور پھر جو کچھ بھی اس روز ہوگا سب کی آنکھوں کے سامنے ہوگا ” (آیت 103)۔ اور سورة واقعہ میں فرمایا قُلْ اِنَّ الْاَ وَّ لِیْنَ وَ الْاٰخِرِیْنَ لَمَجْمُوْعُوْنَ الیٰ مِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ ، ” ان سے کہو کہ تمام پہلے گزرے ہوئے اور بعد میں آنے والے لوگ یقیناً ایک مقرر دن کے وقت جمع کیے جانے والے ہیں ” (آیت 50)۔
سورة التَّغَابُن 20
اصل میں لفظ یَوْمُ التَّغابُنِ استعمال ہوا ہے، جس کے معنی میں اتنی وسعت ہے کہ اردو زبان تو کیا، کسی دوسرے زبان کے بھی ایک لفظ، بلکہ ایک فقرے میں اس کا مفہوم ادا نہیں کیا جاسکتا۔ خود قرآن مجید میں بھی قیامت کے جتنے نام آئے ہیں، ان میں غالباً سب سے زیادہ پُر معنی نام یہی ہے۔ اس لیے اس کا مفہوم سمجھنے کے لیے تھوڑی سی تشریح ناگزیر ہے۔
تغابُن غبن سے ہے جس کا تلفظ غَبُن بھی ہے اور غَبَن بھی۔ غَبُن زیادہ تر خریدو فروخت اور لین دین کے معاملہ میں بولا جاتا ہے اور غَبَن رائے کے معاملہ میں۔ لیکن کبھی کبھی اس کے بر عکس بھی استعمال ہوتا ہے۔ لغت میں اس کے متعدد معنی بیان کیے ہیں غَبَنُوا خَبَرالنَّاقَۃ، ” ان لوگوں کو پتہ نہیں چلا کہ ان کی اونٹنی کہاں گئی "۔ غَبَنَ فُلَاناً فِی الْبَیْعِ ، ” اس نے فلاں شخص کو خریدو فروخت میں دھوکا دے دیا "۔ اس نے فلاں شخص کو گھاٹا دے دیا "۔ غَبِنْتُ مِنْ حَقِّ عِنْدِ فلانٍ ، ” فلاں شخص سے اپنا حق وصول کرنے میں مجھ سے بھول ہوگئی ” غَبِیْن، ” وہ شخص جس میں ذہانت کی کمی ہو اور جس کی رائے کمزور ہو ” مَغْبُوْن، ” وہ شخص جو دھوکا کھا جائے "۔ لاغبن، الغفلۃ، النسیان، فوت الحظ، ان یبخس صاحبک فی معاملۃ بینک و بینہ لضرب من الاخفاء، ” غبن کے معنی ہیں غفلت، بھول، اپنے حصے سے محروم رہ جانا، ایک شخص کا کسی غیر محسوس طریقے سے کاروبار یا باہمی معاملہ میں دوسرے کو نقصان دینا "۔ امام حسن بصری نے دیکھا کہ ایک شخص دوسرے کو بیع میں دھوکا دے رہا ہے تو فرمایا ھٰذٰا یغبن عقلک ” یہ شخص تجھے بیوقوف بنا رہا ہے "۔
اس سے جب لفظ تغابن بنایا جائے تو اس میں دو یا زائد آدمیوں کے درمیان غبن واقع ہونے کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے۔ تَغَابَنَ الْقَوْمُ کے معنی ہیں بعض لوگوں کا بعض لوگوں کے ساتھ غبن کا معاملہ کرنا۔ یا ایک شخص کا دوسرے کو نقصان پہنچانا اور دوسرے کا اس کے ہاتھوں نقصان اٹھا جانا۔ یا ایک کا حصہ دوسرے کو مل جانا اور اس کا اپنے حصے سے محروم رہ جانا۔ یا تجارت میں ایک فریق کا خسارہ اٹھانا اور دوسرے فریق کا نفع اٹھا لے جانا۔ یا کچھ لوگوں کا کچھ دوسرے لوگوں کے مقالہ میں غافل یا ضعیف الرائے ثابت ہونا۔
اب اس بات پر غور کیجیے کہ آیت میں قیامت کے متعلق فرمایا گیا ہے ذٰلِکَ یَوْ مُ التَّغَابُنِ ، ” وہ دن ہوگا تغابن کا "۔ ان الفاظ سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ دنیا میں تو شب و روز تغابن ہوتا ہی رہتا ہے، لیکن یہ تغابن ظاہری اور نظر فریب ہے، اصل اور حیقی تغابن نہیں ہے۔ اصل تغابن قیامت کے روز ہوگا۔ وہاں جاکر پتہ چلے گا کہ اصل میں خسارہ کس نے اٹھایا اور کون نفع کما لے گیا۔ اصل میں کس کا حصہ کسے مل گیا اور کون اپنے حصے سے محروم رہ گیا۔ اصل میں دھوکا کس نے کھایا اور کون ہوشیار نکلا۔ اصل میں کس نے اپنا تمام سرمایۂ حیات ایک غلط کاروبار میں کھپا کر اپنا دیوالہ نکال دیا، اور کس نے اپنی قوتوں اور قابلیتوں اور مساعی اور اموال اور اوقات کو نفع کے سودے پر لگا کر وہ سارے فائدے لوٹ لیے جو پہلے شخص کو بھی حاصل ہو سکتے تھے اگر وہ دنیا کی حقیقت سمجھنے میں دھوکا نہ کھاتا۔
مفسرین نے یوم التغابن کی تفسیر کرتے ہوئے اس کے متعدد مطلب بیان کیے ہیں جو سب کے سب صحیح ہیں اور اس کے معنی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس روز اہل جنت اہل دوزخ جنتیوں کا وہ حصہ لوٹ لیں گے جو انہیں دوزخ میں ملتا اگر انہوں نے دنیا میں دوزخیوں کے سے کام کیے ہوتے۔ اس مضمون کی تائید بخاری کی وہ حدیث کرتی ہے جو انہوں نے کتاب الرقاق میں حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ” جو شخص بھی جنت میں جائے گا اسے وہ مقام دیا جائے گا جو اسے دوزخ میں ملتا اگر وہ برا عمل کرتا، تاکہ وہ اور زیادہ شکر گزار ہو۔ اور جو شخص بھی دوزخ میں جائے گا اسے وہ مقام دکھا دیا جائے گا جو اسے جنت میں ملتا اگر اس نے نیک عمل کیا ہوتا، تاکہ اسے اور زیادہ حسرت ہو ”
بعض اور مفسرین کہتے ہیں کہ اس روز ظالم کی اتنی نیکیاں مظلوم لوٹ لے جائے گا جو اس کے ظلم کا بدلہ ہو سکیں، یا مظلوم کے اتنے گناہ ظالم پر ڈال دیئے جائیں گے جو اس کے حق کے برابر وزن رکھتے ہوں۔ اس لیے کہ قیامت کے روز آدمی کے پاس کوئی مال و زر تو ہوگا نہیں کہ وہ مظلوم کا حق ادا کرنے کے لیے کوئی ہر جانہ یا تاوان دے سکے۔ وہاں تو بس آدمی کے اعمال ہی ایک زر مبادلہ ہوں گے۔ لہٰذا جس شخص نے دنیا میں کسی پر ظلم کیا ہو وہ مظلوم کا حق اسی طرح ادا کرسکتے گا کہ اپنے پلے میں جو کچھ بھی نیکیاں رکھتا ہو ان میں سے اس کا تاوان ادا کرے، یا مظلوم کے گناہوں میں سے کچھ اپنے اوپر لے کر اس کا جرمانہ بھگتے۔ یہ مضمون بھی متعدد احادیث میں رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے۔ بخاری، کتاب الرقاق میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا، ” جس شخص کے ذمہ اپنے کسی بھائی پر کسی قسم کے ظلم کا بار ہو اسے چاہیے کہ یہیں اس سے سبکدوش ہولے، کیونکہ آخرت میں دینار و درہم تو ہونگے ہی نہیں۔ وہاں اس کی نیکیوں میں سے کچھ لے کر مظلوم کو دلوائی جائیں گی، یا اگر اس کے پاس نیکیاں کافی نہ ہوں تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے "۔ اسی طرح مسند احمد میں حضرت جابر بن عبداللہ بن انیس کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا ” کوئی جنتی جنت میں اور کوئی دوزخی دوزخ میں اس وقت تک نہ جاسکے گا جب تک کہ اس ظلم کا بدلہ نہ چکا دیا جائے جو اس نے کسی پر کیا ہو، حتیٰ کہ ایک تھپڑ کا بدلہ بھی دینا ہوگا "۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ بدلہ کیسے دیا جائے گا جبکہ قیامت میں ہم ننگے بُچّے ہوں گے ؟ فرمایا ” اپنے اعمال کی نیکیوں اور بدیوں سے بدلہ چکانا ہوگا "۔ مسلم اور مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ایک مرتبہ اپنی مجلس میں لوگوں سے پوچھا، ” جانتے ہو مفلس کون ہوتا ہے ؟ ” لوگوں نے عرض کیا ہم میں سے مفلس وہ ہوتا ہے جس کے پاس مال متاع کچھ نہ ہو۔ فرمایا ” میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز نماز اور روزہ اور زکوٰۃ ادا کر کے حاضر ہوا ہو، مگر اس حال میں آیا ہو کہ کسی کو اس نے گالی دی تھی اور کسی پر بہتان لگایا تھا اور کسی کا مال مار کھایا تھا اور کسی کا خون بہایا تھا اور کسی کو مارا پیٹا تھا۔ پھر ان سب مظلوموں میں سے ہر ایک پر اس کی نیکیاں لے لے کر بانٹ دی گئیں۔ اور جب نیکیوں میں سے کچھ نہ بچا جس سے ان کا بدلہ چکا یا جاسکے تو ان میں سے ہر ایک کے کچھ کچھ گناہ لے کر اس پر ڈال دیئے گئے، اور وہ شخص دوزخ میں پھینک دیا گیا "۔ ایک اور حدیث میں، جسے مسلم اور ابو داؤد نے حضرت بریدہ سے نقل کیا ہے، حضور ﷺ نے فرمایا کہ ” کسی مجاہد کے پیچھے اگر کسی شخص نے اس کی بیوی اور اس کے گھر والوں کے معاملہ میں خیانت کی تو قیامت کے روز وہ اس مجاہد کے سامنے کھڑا کردیا جائے گا اور اس کو کہا جائے گا کہ اس کی نیکیوں میں سے جو کچھ تو چاہے لے لے ” پھر حضور ﷺ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا ” پھر تمہارا کیا خیال ہے ” ؟ یعنی تم کیا اندازہ کرتے ہو کہ وہ اس کے پاس کیا چھوڑ دے گا ؟ ۔
بعض اور مفسرین نے کہا ہے کہ تغابن کا لفظ زیادہ تر تجارت کے معاملہ میں بولا جاتا ہے۔ اور قرآن مجید میں جگہ جگہ اس رویے کو جو کافر اور مومن اپنی دنیا کی زندگی میں اختیار کرتے ہیں، تجارت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مومن اگر نافرمانی کا راستہ چھوڑ کر اطاعت اختیار کرتا ہے اور اپنی جان، مال اور محنتیں خدا کے راستے میں کھپا دیتا ہے تو گویا وہ گھاٹے کا سودا چھوڑ کر ایک ایسی تجارت میں اپنا سرمایہ لگا رہا ہے جو آخر کار نفع دینے والی ہے۔ اور ایک کافر اگر اطاعت کی راہ چھوڑ کر خدا کی نافرمانی اور بغاوت کی راہ میں اپنا سب کچھ لگا دیتا ہے تو گویا وہ ایک ایسا تاجر ہے جس نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی ہے اور آخر کار وہ اس کا خسارہ اٹھانے والا ہے۔ دونوں کا نفع اور نقصان قیامت کے روز ہی کھلے گا۔ دنیا میں یہ ہوسکتا ہے کہ مومن سراسر گھاٹے میں رہے اور کافر بڑے فائدے حاصل کرتا ہے۔ مگر آخرت میں جا کر معلوم ہوجائے گا کہ اصل میں نفع کا سودا کس نے کیا ہے اور نقصان کا سودا کس نے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر بیان ہوا ہے۔ مثال کے طور پر آیات ذیل ملاحظہ ہوں البقرہ، آیات 16۔ 175۔ 207۔ آل عمران 77۔ 177۔ النساء 74۔ التوبہ 111۔ النحل 95۔ فاطر 29۔ الصف 10۔
ایک اور سورت تغابن کی یہ بھی ہے کہ دنیا میں لوگ کفر و فسق اور ظلم و عصیان پر بڑے اطمینان سے آپس میں تعاون کرتے رہتے ہیں اور یہ اعتماد رکھتے ہیں کہ ہمارے درمیان بڑی گہری محبت اور دوستی ہے۔ بد کردار خاندانوں کے افراد، ضلالت پھیلانے والے پیشوا اور ان کے پیرو، چوروں اور ڈاکوؤں کے جتھے، رشوت خور اور ظالم افسروں اور ملازمین کے گٹھ جوڑ، بےایمان تاجروں، صنعت کاروں اور زمینداروں کے گروہ، گمراہی اور شرارت و خباثت برپا کرنے والی پارٹیاں اور بڑے پیمانے پر ساری دنیا میں ظلم و فساد کی علمبردار حکومتیں اور قومیں، سب کا باہمی ساز باز اسی اعتماد پر قائم ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ تعلق رکھنے والے افراد اس گمان میں ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے بڑے اچھے رفیق ہیں اور ہمارے درمیان بڑا کامیاب تعاون چل رہا ہے۔ مگر جب یہ لوگ آخرت میں پہنچیں گے تو ان پر یکایک یہ بات کھلے گی کہ ہم سب نے بہت بڑا دھوکا کھایا ہے۔ ہر ایک یہ محسوس کرے گا کہ جسے میں اپنا بہترین باپ بھائی، بیوی، شوہر، اولاد، دوست، رفیق، لیڈر، پیر، مرید، یا حامی و مددگار سمجھ رہا تھا وہ در اصل میرا بد ترین دشمن تھا۔ ہر رشتہ داری اور دوستی اور عقیدت و محنت، عداوت میں تبدیل ہوجائے گی۔ سب ایک دوسرے کو گالیاں دین گے، ایک دوسرے پر لعنت کریں گے، اور ہر ایک یہ چاہے گا کہ اپنے جرائم کی زیادہ سے زیادہ ذمہ داری دوسرے پر ڈال کر اسے سخت سے سخت سزا دلوائے۔ یہ مضمون بھی قرآن میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے جس کے چند مثالیں حسب ذیل آیات میں دیکھی جاسکتی ہیں البقرہ 167۔ الاعراف 37 تا 39۔ ابراہیم 21۔ 22۔ المومنون 101۔ العنکبوت 12۔ 13۔ 25۔ لقمٰن 33۔ الاحزاب 67۔ 68۔ سبا 31 تا 33۔ فاطر 18۔ الصّٰفّٰت 27 تا 33۔ صٓ 59 تا 61۔ حٰم السجدہ 29۔ الذخرف 67۔ الدخان 41۔ المعارج 10 تا 14۔ عبس 34 تا 37۔
سورة التَّغَابُن 21
اللہ پر ایمان لانے سے مراد محض یہ مان لینا نہیں ہے کہ اللہ موجود ہے، بلکہ اس طریقے سے ایمان لانا مراد ہے جس طرح اللہ نے خود اپنے رسول اور اپنی کتاب کے ذریعہ سے بتایا ہے۔ اس ایمان میں ایمان بالرسالت اور ایمان بالکتاب آپ سے آپ شامل ہے۔ اسی طرح نیک عمل سے مراد بھی ہر وہ عمل نہیں ہے جسے آدمی نے خود نیکی سمجھ کر یا انسانوں کے کسی خود ساختہ معیار اخلاق کی پیروی کرتے ہوئے اختیار کرلیا ہو، بلکہ اس سے مراد وہ عمل صلح ہے جو خدا کے بھیجے ہوئے قانون کے مطابق ہو۔ لہٰذا کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ رسول اور کتاب کے واسطے کے بغیر اللہ کو ماننے اور نیک عمل کرنے کے وہ نتائج ہیں جو آگے بیان ہو رہے ہیں۔ قرآن مجید کا جو شخص بھی سوچ سمجھ کر مطالعہ کرے گا اس سے یہ بات پوشیدہ نہ رہے گی کہ قرآن کی رو سے اس طرح کے کسی ایمان کا نام ایمان باللہ اور کسی عمل کا نام عمل صالح سرے سے ہے ہی نہیں۔
مولانا امین احسن اصلاحی اپنی تفسیر "تدبر قرآن” میں لکھتے ہیں :
(ہار جیت کا دن)۔ (ذلک یوم التغابن یوم التغابن) کا ترجمہ شاہ عبد القادر (رح) نے ہار جیت کا دن کیا ہے۔ یہ ترجمہ ہمارے نزدیک لفظ کی صحیح روح کے مطابق ہے۔ اس ہار جیت کی وضاحت آگے قرآن نے خود کردی ہے۔ فرمایا ہے کہ جو ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے اللہ تعالیٰ ان کو لغزشوں کے اثرات سے پاک کرکے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہتی ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور جن کو یہ چیز حاصل ہوئی ان کو بہت بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے بالکل برعکس ان لوگوں کا حال ہوگا جنہوں نے اللہ کا کفر اور اس کی آیتوں کی تکذیب کی ہوگی۔ یہ لوگ دوزخ میں پڑیں گے اور اسی میں ہمیشہ رہیں گے اور نہایت ہی برا ٹھکانہ ہوگا۔
مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کے منکر ہیں انہوں نے تو اسی دنیا کو ہار جیت کا میدان سمجھ رکھا ہے۔ جن کو دنیا کی رفاہیتیں حاصل ہوگئیں وہ سمجھ بیٹھے کہ انہوں نے بازی جیت لی اور جن کو نہیں حاصل ہوئیں ان کو نام و نامراد سمجھ لیا، حالانکہ یہ دنیا دار الانعام نہیں بلکہ دارالامتحان ہے۔ دار الانعام آخرت ہے جس میں بازی وہ لوگ جیتیں گے جو اس دنیا میں ایمان و عمل صالح کی زندگی گزاریں گے اگرچہ اس دنیا کی متاع میں سے انہیں کوئی چیز بھی حاصل نہ ہوئی ہو اور وہ لوگ وہاں بالکل محروم و نامراد ہوں گے جو ایمان و عمل صالح سے محروم اٹھیں گے اگرچہ دنیا میں انہیں قارون کے خزانے حاصل رہے ہوں۔
یہ امر یہاں واضح رہے کہ جو لوگ اسی دنیا کو ہار جیت کا میدان سمجھ بیٹھیں گے ان کے لیے یہ بالکل ناممکن ہے کہ وہ اپنے عیش و آرام کو قربان کر کے دوسروں کی خدمت و اعانت کی راہ میں اپنے مال صرف کریں۔ اگر کبھی وہ حوصلہ کرنا بھی چاہیں تو فوراً یہ اندیشہ ان کا حوصلہ پست کر دے گا کہ اگر کل کو کوئی ناگہانی آفت یا مشکل پیش آگئی تو کیا بنے گا ! البتہ جو شخص ہار جیت کا اصل میدان آخرت کو سمجھے گا اس کو اس طرح کا کوئی اندیشہ پست حوصلہ نہیں کرسکتا۔ اگر کبھی کوئی دغدغہ دل میں پیدا ہوگا بھی تو وہ اس کو شیطانی دغدغہ سمجھے گا اور بےدھڑک اپنی آخرت کی کامیابی کے لیے اپنے رب کے بھروسہ پر باری کھیل جائے گی۔
سید قطب شہید رح لکھتے ہیں:
جب اجتماع کے دن وہ تم سب کو اکٹھا کرے گا۔ وہ دن ہوگا ایک دوسرے کے مقابلے میں لوگوں کی ہار جیت کا“۔ یوم الجمع تو اس لئے ہوگا کہ تمام اگلے پچھلے انسانوں کو جمع کیا جائے گا۔ اور تمام ملائکہ کو بھی اس دن حاضر کیا جائے گا۔ اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہوگی۔ انسانی تصور کے قریب کرنے کے لئے حدیث میں آتا ہے۔ حضرت ابوذر سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو کچھ تم نہیں دیکھ رہے۔ اور میں وہ کچھ سن رہا ہوں جو تم نہیں سن سکتے۔ آسمان بوجھ کی وجہ سے چڑ چڑایا اور اس کا حق ہے کہ وہ چڑچڑائے۔ کیونکہ آسمان میں چار انگلیوں کی جگہ بھی نہ ہوگی جہاں ایک فرشتہ اللہ کے سامنے سجدہ ریز نہ ہو۔ خدا کی قسم اگر تم وہ کچھ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور روتے ہی رہتے۔ اور تم اپنے بستروں پر اپنی بیویوں سے لذت اندوز نہ ہوتے اور تم اونچے مقامات پر چڑھ کر ، اللہ کے سامنے روتے کہ اے اللہ ، کاش میں ایک درخت ہوتا جسے کاٹ لیا جاتا“۔ (ترمذی)
آسمان جہاں چار انگلیوں کی جگہ پر بھی ایک فرشتہ سجدہ ریز ہوگا ، کس قدر وسیع ہے ؟ یہ ناقابل تصور وسیع فضا ہے۔ انسان نے ابھی تک اس کی حدود کو معلوم نہیں کیا ؟ اور اس میں ہمارے سورج جیسے کئی سورج اس طرح ہیں جس طرح ایک ذرہ فضا میں اڑ رہا ہے۔ تو کیا اس سے یہ بات انسانی تصور کے قریب ہوگئی کہ یوم الجمع یعنی قیامت کے دن کس قدر فرشتے جمع ہوں گے ؟
اس عظیم اجتماع میں تغابن ہوگا۔ یہ غبن سے باب مفاعلہ سے ہے۔ یہ ایک تصویر ہے کہ مومنین کس قدر کامیاب ہوں گے اور کافرین کس قدر محوم ہوں گے۔ یہ جہنم میں جاکر ہر چیز سے محروم ہوجائیں گے اور مومنین جنت میں جاکر سب کچھ پالیں گے۔ دونوں کا نصیب بہت ہی مختلف ہے۔ یوں کہ گویا کامیابی کا ایک مقابلہ منعقد ہے اور ایک طرف ہر قسم کی کامیابی ہے اور دوسری طرف ہر قسم کی ناکامی ہے اہر ہر فریق اپنے مقابل کو غبن کررہا ہے۔ اس مقابلے میں مومن کامیاب ہوئے اور انہوں نے سب کچھ جیت لیا کافر ہار گئے اور سب کچھ ہار گئے۔ اس معنی میں یہ یوم التغابن ہے اور اس کی تفسیر یہ آیات کررہی ہیں :
ومن یومن ………………………. المصیر (01) (46 : 9۔ 01) ”جو اللہ پر ایمان لایا ہے اور نیک عمل کرتا ہے ، اللہ اس کے گناہ جھاڑ دے گا اور اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے اور ہماری آیات کو جھٹلایا ہے۔ وہ دوزخ کے باشندے ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گی اور وہ بدترین ٹھکانا ہے“۔
اس سے قبل کہ ان کا ایمان کو طرف بلایاجائے۔ ایمان کا ایک بنیادی قاعدہ یہاں متعین کردیا جاتا ہے یعنی ایمان باللہ اور لابرسالت کے بعد۔
مولانا اشرف علی تھانوی* نے "بیان القرآن "
میں لکھا ہے :
یعنی سود و زیان کے ظاہر ہونے کا مطلب یہ کہ مسلمانوں کا نفع اور کافروں کا نقصان اس روز عملا ظاہر ہوجاوے گا۔
عبدالماجد دریابادی اس آیت کی تفسیر کچھ یوں کرتے ہیں :
(جس کے سامنے دنیا کی بڑی سی بڑی ممکن کامیابی بھی ہیچ محض ہے) ”ذلک یوم التغابن“۔ یعنی وہ دن کافر ومنکر کی حسرت و زیاں کا ہوگا، اور مومن کی راحت ومسرت کا۔ ”ومن ….. سیاتہ“۔ آیت ان خارجی اور نیم خارجی گروہوں کے مزید رد میں ہے، جو معصیت کو ایمان کے منافی سمجھتے ہیں، مومن سے اگر گناہ سرزد ہی نہ ہوں، تو یہ کفارہ کا ہے کا ہوگا ؟ اور قرآن مجید مومنین کے کفارہ معاصی کا بار بار اثبات ہی کیوں کررہا ہے ؟ ”ویعمل ….. سیاتہ“۔ قرآن مجید کی یہ بار بار بشارت کہ نیکیاں گناہوں کے محو کرنے میں وہ کام دیں گی، جو پنسل کی تحریر کے حق میں ربڑ کرتی ہے۔ ہم عاصیاں امت کے لئے کتنی بڑی بشارت ہے !
قاضی ثناء اللہ پانی پتی اپنی تفسیر "تفسیر مظہری” میں اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں:
یوم یجمعکم لیوم الجمع ذلک یوم التغابن .
”یاد کرو اس دن کو جب اللہ تم کو قیامت کے دن جمع کرے گا ‘ وہ دن گھاٹا دینے کا ہے۔“
یَوْمَ یَجْمَعُکُمْ : یعنی یاد کرو اس دن کو جب اللہ تم کو جمع کریگا یا یہ مطلب ہے کہ اللہ تم کو بدلہ دیگا ‘ اس روز جب کہ تم کو جمع کریگا۔
لِیَوْمِ الْجَمْعِ : یوم الجمع سے مراد ہے روز قیامت ‘ جب ملائکہ اور سارے جن و انس اگلے پچھلے سب اس روز جمع ہوں گے۔ لیوم الجمع میں لام تعلیل کے لیے ہے یعنی یوم الجمع میں ‘ جو حساب فہمی اور سزا و جزا ہوگی ‘ اس میں سب کو جمع کیا جائے گا۔
ذٰلِکَ : وُہ دن۔
التَّغَابُنِ : یہ بات تفاعل کا مصدر ہے لفظی ترجمہ ہے باہم ایک کا دوسرے کو گھاٹا دینا ‘ نقصان پہنچانا) خوش نصیب (مؤمن) ان مکانوں میں فروکش ہوں گے جو جنت میں بدبختوں کے لیے (بشرط ایمان وصلاح) مقرر کیے گئے تھے۔ جس شخص نے کسی کی حق تلفی کی ہوگی اس کی نیکیاں (بقدر ظلم) مظلوم کو دے دی جاے گی۔ (یوم التغابن) تغا بن ‘ تجار سے مستعار ہے (یعنی تاجر باہم تجارت میں جس طرح نفع و نقصان سے دو چار ہوتے ہیں ‘ اسی طرح قیامت کے دن خوش نصیب و بدنصیب اور ظالم و مظلوم باہم نفع و نقصان پہنچائیں گے۔
التغابن میں الف لام عہدی ہے یعنی حقیقی تغابن کا دن ‘ دنیوی تغابن کا نہیں۔
عبدالرزاق ‘ عبد بن حمید ‘ ابن جریر اور حاکم نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روا یت سے بیان کیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے کہ مؤمن (جنت کے اندر) اپنے مکانوں کے بھی مالک ہوں گے اور بدنصیب کافروں کے مکانوں کے بھی وارث ہوں گے ‘ کافروں کے یہ مکان جنت کے اندر وہی ہوں گے کہ اگر وہ بدنصیب اللہ کی اطاعت کرتے تو یہ مکان ان کو عطا کیے جاتے۔
سعید بن منصور ‘ ابن ماجہ ‘ ابن جریر ‘ ابن المنذر ‘ ابن ابی حاتم ‘ ابن مردویہ اور بیہقی نے (البعث میں صحیح سند سے) حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے ہر ایک کے (آخرت میں) دو گھر ہوں گے۔ ایک جنت میں ‘ دوسرا دوزخ میں۔ جب کوئی مر کر دوزخ میں چلا جائے گا تو اس کے جنت والے مکان کے مالک اہل جنت ہوں جائیں گے۔ آیت : اُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْوٰرِثُوْنَ کا یہی مطلب ہے۔
صحیحین میں حضرت انس ؓ کی روایت سے آیا ہے کہ جب بندہ کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور کہتے ہیں تو اس شخص یعنی محمد ﷺ کی بابت کیا کہتا تھا ؟ مؤمن جواب دیتا ہے ‘ میں شہادت دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ‘ اس سے کہا جاتا ہے دوزخ کے اندر اپنا مقام دیکھ ‘ اللہ نے اس مقام کے بجائے جنت کے اندر تجھے مقام عنایت فرما دیا۔
(الحدیث)
ابن ماجہ نے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص وارث کی میراث سے بھاگتا ہے (یعنی وارث کو اس کا میراثی حصہ نہیں دیتا ‘ اللہ جنت والی میراث اس کی کاٹ دیتا ہے۔
مسلم اور ترمذی نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے (صحابہ ؓ سے) فرمایا : کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہوتا ہے ؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا : ہمارے اندر تو مفلس وہی ہوتا ہے جس کے پاس روپیہ بھی نہ ہو اور سامان بھی نہ ہو ‘ فرمایا : میری امت میں مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے روز نماز ‘ روزہ ‘ زکوٰۃ (یعنی ساری نیکیاں) لے کر آئے گا ‘ لیکن (دنیا میں) کسی کو گالی دی ہوگی ‘ کسی پر زنا کی تہمت لگائی ہوگی ‘ کسی کا مال (ناجائز طور پر) کھایا ہوگا ‘ کسی کا خون بہایا ہوگا ‘ کسی کو مارا ہوگا ‘ چناچہ کسی کو اس کی یہ نیکیاں (ظلم کے بدلہ میں) دلوائی جائیں گی ‘ کسی کو وہ نیکیاں ‘ پھر اگر اداء حقوق سے اس کی نیکیاں کم پڑیں گی تو حق دار کے گناہ لے کر اس (حق تلفی کرنے والے) پر ڈال دیئے جائیں گے ‘ پھر اس (ظالم) کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔
بخاری نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ جس کسی پر اس کے بھائی کا کوئی حق ہو تو اس کو چاہیے کہ دنیا میں ہی اپنے آپ کو اس حق سے آزاد کرلے کیونکہ وہاں (آخرت میں) نہ درہم ہوں گے نہ دینار۔ اگر اس کے نیک اعمال ہوں گے تو بقدر حق (یعنی جتنا اس پر کسی کا حق ہوگا اتنی مقدار میں) اس کے نیک عمل لے لیے جائیں گے (اور حق دار کو دے دیئے جائیں گے) اور اگر اس کی نیکیاں نہ ہوں گی تو طالب حق کے کچھ گناہ لے کر اس پر ڈال دیئے جائیں گے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کی مرفوع حدیث میں طبرانی کے نزدیک یہ الفاظ آئے ہیں ‘ وہاں نہ دانگ ملیں گے نہ قیراط بلکہ اس کی (یعنی ظالم کی) نیکیاں لے کر اس کو جس پر ظلم کیا ہوگا ‘ دے دی جائیں گی اور مظلوم کے گناہ ظالم پر لاد دیئے جائیں گے۔
ومن یومن باللہ و یعمل صالحا یکفر عنہ سیاتہ و یدخلہ جنت تجری من تحتھا الانھر خالدین فیھا ابدا ذلک الفوز العظیم .
”اور جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہوگا اور نیک کام کرتا ہوگا ‘ اللہ اس کے گناہ دور کر دے گا اور اسے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی (اور) جن کے اندر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رہیں گے ‘ یہ بڑی ہی کامیابی ہے۔“
ذٰلِکَ : یعنی یہ ایمان اور عمل صالح کا مجموعہ بڑی کامیابی ہے کیونکہ اسی سے دفع مضرت اور حصول منفعت وابستہ ہے (گناہوں کا معاف ہونا اور جنت میں ہمیشہ کے لیے داخل ہونا ایمان و عمل صالح کے مجموعہ پر موقوف ہے)۔