ڈاکٹر عافیہ حمید کی ادبی خدمات پر ایک نظر

تحریر: ابوشحمہ انصاری

سعادت گنج، بارہ بنکی

ادب کی دنیا میں چند نام ایسے ہوتے ہیں جو اپنی تخلیقی صلاحیتوں، علمی بصیرت اور فکری جدت کی بدولت نمایاں مقام حاصل کرتے ہیں۔ اردو ادب میں ڈاکٹر عافیہ حمید، جو قلمی دنیا میں "عافی شیخ” کے نام سے معروف ہیں، ایسی ہی ایک قابلِ احترام شخصیت ہیں۔ وہ نہ صرف افسانہ نگار ہیں بلکہ نقاد، مبصر، محقق اور اردو ادب کی ترقی کے لیے سرگرم عمل ایک فعال شخصیت بھی ہیں۔

عافیہ حمید غیر معمولی ذہانت کی مالک ہیں ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے گیارہ سال تک جامعۃ الفلاح میں علمی تشنگی بجھائی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے انہوں نے لکھنؤ کا رخ کیا جہاں کرامت حسین مسلم گرلز کالج سے بی اے اور لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں، ڈاکٹر عافیہ نے پی ایچ ڈی کے لیے خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی کو منتخب کیا اور مولانا آزاد یونیورسٹی سے جرنلزم اور ماس کمیونیکیشن کا ڈپلومہ بھی مکمل کیا۔

ادب میں عافی شیخ نے تخلیقی اور تحقیقی دونوں میدانوں میں اپنی شناخت قائم کی ہے۔ ابھی حال ہی میں ان کا افسانوی مجموعہ ۔,,شيشے کے اس پار،، منظرِ عام پر آیا ہے۔ جبکہ مزید تصانیف اشاعت کے مراحل میں ہیں۔ ان کے افسانے زندگی کے مختلف رنگوں کو خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں، اور ان کی تحقیقی کتاب ,,نسوانی کرداروں کا ارتقائ سفر ،، نسوانی کرداروں پر گہری روشنی ڈالتی ہے۔

ان کی تصانیف میں "برف میں دبے شرارے” (سفرنامہ)، "مادر علمی کے گیارہ سال” (کتابچہ)، اور "مضامين و تبصرے پر مشتمل دو کتابیں، جو زیرطباعت ہیں ان کے علمی و تخلیقی مزاج کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں۔
افسانہ نگاری میں ڈاکٹر عافیہ کی تحریریں منفرد اسلوب کی حامل ہیں۔ اب تک وہ چار درجن سے زائد افسانے تخلیق کر چکی ہیں جو مختلف اخبارات اور ادبی جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے افسانوں میں زندگی کی تلخ حقیقتیں، خواتین کے مسائل، معاشرتی رویے اور انسانی نفسیات کو بڑی حساسیت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

تبصروں کی دنیا میں بھی ان کی خدمات قابلِ ستائش ہیں۔ انہوں نے تقریباً تین درجن کتابوں پر تبصرے تحریر کیے ہیں جن میں علمی معیار اور گہرائی نمایاں ہے۔ بعض تحریریں ضائع ہو چکی ہیں، مگر موجودہ تبصرے علمی تحقیق کا بہترین ثبوت ہیں۔

قومی و بین الاقوامی سیمینارز میں شرکت کے ساتھ تقریباً 14 سے 15 تحقیقی مقالات کی پیش کش ان کی اردو زبان و ادب پر گہری نظر کو ظاہر کرتی ہے۔ افسانہ نگاری، تحقیق اور تنقید کے علاوہ عافی شیخ نے شاعری میں بھی قدم رکھا ہے۔ ان کی دو غزلیں معتبر رسائل "خبرنامہ” اور "خواتین دنیا” میں شائع ہو چکی ہیں۔
سماجی و ادبی میدان میں ڈاکٹر عافیہ کا فیس بک پر چھوٹے مضامین اور تحریریں موجودہ حالات کا تجزیہ، سماجی ناانصافیوں پر تنقید اور اردو ادب کے مسائل پر گہری بصیرت پیش کرتی ہیں۔ یہ ان کی شخصیت کی حساسیت اور شعور کی عکاسی کرتی ہیں۔

ان کا افسانوی مجموعہ "شیشے کے اُس پار” ان کی فکری پختگی اور اسلوب کی تازگی کا مظہر ہے۔ اس میں نسوانی احساسات، جذبات اور عصری مسائل کو ایک نئی جہت دی گئی ہے۔ ان کے والد، پروفیسر عبدالحمید، خود شاعر اور ادیب ہیں، جن کی ادبی تربیت کا گہرا اثر ان کی تحریروں میں دکھائی دیتا ہے۔

عافی شیخ کے افسانے محض کہانیاں نہیں بلکہ ایک عورت کے جذبات، کرب، جدوجہد اور داخلی دنیا کے پرت در پرت انکشافات ہیں۔ اکیسویں صدی کی عورت ان کے افسانوں میں اپنے تمام تر المیوں، خوابوں اور کشمکش کے ساتھ سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔
اگر پروین شاکر کی شاعری میں نسوانی جذبات بھرپور اظہار پاتے ہیں تو ڈاکٹر عافیہ کے افسانے بھی اسی جذبے کو نثر کی زبان میں زندہ کرتے ہیں۔ ان کی تحریریں اردو ادب میں ایک نئی، تازہ اور اثر انگیز آواز ہیں جو ادب کے افق پر دیرپا نقوش چھوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔