اے شیرِ دکن، تیری للکار زندہ ہے

تحریر: محمد فداء المصطفیٰ قادری

دارالہدیٰ اسلامک یونیورسٹی 

 

اے شیرِ دکن، تیری للکار زندہ ہے

نہ جھکا، نہ رکا، نہ بکا،

ظلم کے آگے کبھی نہ جھکا

ہندوستان اس وقت سیاسی، سماجی اور معاشی اعتبار سے نازک دور سے گزر رہا ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو شدید خطرات لاحق ہیں، اقلیتیں خصوصاً مسلمان احساسِ عدمِ تحفظ کا شکار ہیں۔ حکومت کی بعض پالیسیوں سے غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ عدلیہ و میڈیا پر جانبداری کے الزامات لگ رہے ہیں۔ تعلیمی و مذہبی اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کسان، طلبہ اور محنت کش طبقات احتجاج کی راہ اختیار کر چکے ہیں۔ مذہب کے نام پر نفرت انگیزی کا بازار گرم ہے۔ ان حالات میں قومی اتحاد، عدل و مساوات، اور جمہوری اقدار کا تحفظ نہایت ضروری ہو گیا ہے۔

آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب ملک میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) جیسا امتیازی قانون پاس کیا گیا، تو بہت سے سیاستدان خاموش تماشائی بنے رہے، کچھ نے دبی دبی زبان میں اختلاف کیا، مگر جس شخصیت نے کھلے عام، بے باکی سے، پارلیمنٹ کے ایوان میں کھڑے ہوکر اس قانون کی مخالفت کی، وہ تھے جناب اسد الدین اویسی۔ ان کی جرأت مندی اور بہادری اس وقت کھل کر سامنے آئی جب انہوں نے دستورِ ہند کی عظمت کا دفاع کرتے ہوئے سی اے اے کو مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ قرار دیا۔ اسد الدین اویسی نے نہ صرف ایوان میں آواز بلند کی بلکہ عوامی جلسوں میں بھی اس قانون کو آئین کے بنیادی اصولوں کے خلاف قرار دیا۔ ان کی دلیری کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ "ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے”، جو ایک عام مسلمان کے دل کی آواز تھی۔ اس ایک جملے میں اویسی صاحب کی شجاعت اور نڈرپن کی جھلک تھی، جو کسی دباؤ، خوف یا سیاسی مفاد کو خاطر میں لائے بغیر کہی گئی تھی۔

اویسی صاحب نے اپنی ہمت سے نوجوانوں کو حوصلہ دیا، بوڑھوں کو زبان دی، اور خواتین کو میدان میں آنے کی طاقت بخشی۔ انہوں نے ہر اس سازش کا پردہ فاش کیا جو مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی ناپاک کوشش کر رہی تھی۔ ان کے عزم میں وہ پختگی تھی جو صرف ان لوگوں میں پائی جاتی ہے جو حق پر ہوں اور یقین رکھتے ہوں کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا عین عبادت ہے۔ جب پارلیمنٹ میں سی اے اے پیش کیا گیا، تو اویسی صاحب نے نہایت پراثر انداز میں اس کی مخالفت کرتے ہوئے دستورِ ہند کی کاپی پھاڑ کر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ یہ قانون آئین کی روح کے خلاف ہے۔ ان کی استقامت نے ملک کے کروڑوں مسلمانوں کو ہمت دی کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں۔ اویسی صاحب کی پامردی نے مسلم نوجوانوں کو اس بات کا شعور دیا کہ احتجاج، قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے، ان کا آئینی حق ہے۔ انہوں نے ہر جگہ یہی پیغام دیا کہ ہم اس ملک کے برابر کے شہری ہیں، اور کسی کو یہ اختیار نہیں کہ ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھے۔ ان کی حوصلہ مندی کو سلام ہے، جو نہ دبتی ہے، نہ بکتی ہے، نہ جھکتی ہے۔ ایسے وقت میں جب سچ بولنا سب سے مشکل ہو، اویسی صاحب جیسی آوازیں امید کی کرن بن جاتی ہیں۔

اسی طرح اسدالدین اویسی نے این آر سی جیسے متنازع اور عوام دشمن قانون کے خلاف اپنی آواز کو نہ صرف بلند کیا بلکہ جرأت مندی اور بہادری کے ساتھ ہر پلیٹ فارم پر سچ کو بیان کیا۔ ان کی زبان میں جو دلیری ہے، وہ اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکی ہے، خاص طور پران مظلوموں کے لیے جو خوف و ہراس کے سائے میں جینے پر مجبور ہیں۔ اویسی صاحب نے واضح الفاظ میں کہا کہ این آر سی اور سی اے اے کا مقصد ملک کے مسلمانوں کو حاشیے پر لانا ہے، اور انہیں شہریت سے محروم کر کے ایک مخصوص ذہنیت کی تسکین حاصل کرنا ہے۔ ان کے بیانات میں جو شجاعت جھلکتی ہے وہ عام سیاست دانوں میں نہیں پائی جاتی۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں، جلسوں میں، اور میڈیا کے سامنے کھڑے ہو کر ان قوانین کو آئین کے خلاف قرار دیا، اور ہر موقع پر مظلوم قوم کے ساتھ کھڑے ہونے کا ثبوت دیا۔ ایسے ماحول میں جب این آر سی کی فہرست میں نام نہ آنے والے افراد کو غیر قانونی مہاجر کہا جانے لگا، اویسی صاحب نے نڈرپن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ:

"ہم اس ملک کے برابر کے شہری ہیں، ہم اپنی شناخت کاغذوں سے نہیں، اپنے خون، پسینے اور قربانیوں سے ثابت کریں گے۔” یہ الفاظ صرف نعرہ نہیں، بلکہ ایک بے باک دل کی پکار تھی ۔ ان کے اندر کی ہمت نے قوم کو بھی حوصلہ دیا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے کھڑی ہو۔ انہوں نے مسلمانوں کو خوف سے نکل کر قانون اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے آواز اٹھانے کی تلقین کی، اور کہا کہ جو قانون آئین کی روح کے خلاف ہو، اس کا پرامن احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے۔

اسدالدین اویسی کا عزم ہے کہ وہ ملک کے ہر پچھڑے طبقے، خاص طور پر مسلمانوں، دلتوں اور قبائلیوں کی آواز بنیں ہیں۔ ان کی استقامت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسلسل دھمکیوں، تنقیدوں اور میڈیا کی جانب سے نفرت آمیز مہم کے باوجود وہ اپنے موقف پر قائم ہیں۔ ان کی پامردی نے نہ صرف مسلم عوام بلکہ ہر انصاف پسند شہری کو ہمت دی۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ اگر نیت صاف ہو، اور مقصد حق ہو، تو ایک شخص بھی لاکھوں کے ضمیر کو جگا سکتا ہے۔  اسدالدین اویسی کی حوصلہ مندی اس وقت عیاں ہوئی جب انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا:

"ہم ان قوانین کو کبھی قبول نہیں کریں گے جو ہمارے وجود، ہمارے وقار، اور ہمارے آئینی حقوق کو چیلنج کرتے ہوں۔” یہی صفات آج کے ہر مسلمان، ہر شہری، اور ہر حق پرست کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔

اسدالدین اویسی ہندوستانی مسلمانوں کی وہ آواز ہیں جو جرأت مندی، دلیری اور شجاعت کا مظہر ہے۔ جب حکومتِ ہند نے طلاقِ ثلاثہ کو جرم قرار دینے والا قانون پاس کیا، تو بیشتر مسلم رہنما خاموشی اختیار کر گئے، مگر اویسی صاحب نے نہ صرف زبان کھولی بلکہ دلائل، دستاویزات اور آئینی شواہد کے ساتھ اس قانون کی مخالفت کی۔ ان کی نڈرپن اور استقامت نے ثابت کر دیا کہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے وہ ہر میدان میں سینہ سپر ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ اویسی صاحب نے واضح طور پر کہا کہ طلاقِ ثلاثہ ایک سماجی مسئلہ ہے، نہ کہ فوجداری (کریمنل) جرم۔ ان کا موقف تھا کہ اگر کسی ہندو شوہر کے چھوڑنے پر اسے جیل نہیں بھیجا جاتا، تو صرف مسلمان مرد کے لیے اس قانون کو لاگو کرنا کھلی ناانصافی اور آئین کی روح کے خلاف ہے۔ ان کے دلائل نہ صرف فقہی اعتبار سے مضبوط تھے، بلکہ آئینی اور قانونی بنیادوں پر بھی مبنی تھے۔ ان کی باتوں میں وہ عزم جھلکتا تھا جو ایک حقیقی قائد کی پہچان ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کا اصل مقصد مسلم مرد کو نشانہ بنانا ہے، نہ کہ مسلم خواتین کی فلاح و بہبود۔ اگر حکومت واقعی مسلم خواتین کی فکر مند ہوتی تو انہیں تعلیم، روزگار اور سکیورٹی کے مواقع فراہم کرتی۔ ان کے مطابق یہ قانون مسلمانوں کے ذاتی قانون میں مداخلت کی ایک کوشش ہے، جسے کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی یہ بات ان کی پامردی اور ہمت کی گواہ ہے۔

اسدالدین اویسی نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر واضح الفاظ میں کہا تھا: "یہ قانون مسلمانوں کے ساتھ تعصب پر مبنی ہے، اور یہ ہمارے پرسنل لا میں حکومتی مداخلت ہے۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔” یہ لہجہ، یہ آواز، جرأت مندی کی وہ مثال ہے جو آج کے دور میں کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ اویسی صاحب کی قیادت میں مسلمان نوجوانوں کو حوصلہ ملا، ان میں عزم اور ہمت پیدا ہوئی، اور انہوں نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے کھل کر آواز بلند کی۔ ان کی دلیری نے حکومت کو آئینہ دکھایا اور یہ باور کرایا کہ مسلمان قوم بیدار ہے اور اپنی شریعت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ اسدالدین اویسی کی شخصیت ان تمام اوصاف جرأت مندی، بہادری، دلیری، شجاعت، نڈرپن، ہمت، عزم، استقامت، پامردی، اور حوصلہ مندی کا مکمل نمونہ ہے، اور طلاقِ ثلاثہ جیسے حساس مسئلے پر ان کا مؤقف ایک تاریخی جُرات کا نمونہ بن کر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

 اسدالدین اویسی صاحب ان چند سیاسی رہنماؤں میں سے ایک ہیں جو ہر محاذ پر مسلمانوں اور دیگر کمزور طبقات کی آواز بنے کھڑے رہتے ہیں۔ ان کی گفتگو نہ صرف شجاعت سے بھرپور ہوتی ہے بلکہ وہ دلائل اور آئینِ ہند کی روشنی میں بات کرتے ہیں۔ اویسی صاحب نے بارہا "لو جہاد” جیسے متنازع قوانین پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "لو جہاد” ایک فرضی اصطلاح ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو بدنام کرنا اور بین المذاہب تعلقات پر قدغن لگانا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر دو بالغ افراد اپنی مرضی سے شادی کرتے ہیں تو ریاست کو اس میں مداخلت کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اویسی صاحب کی یہ بات عزم کی مظہر ہے کہ وہ تمام تر مخالفت کے باوجود سچ کہنے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ اسی طرح یونیفارم سول کوڈ (UCC) پر بھی ان کا موقف بالکل واضح اور دوٹوک ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ UCC کا مقصد ملک کے مذہبی تنوع کو ختم کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان ایک کثیر مذہبی ملک ہے، اور ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے ذاتی قوانین پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔ ایسے میں تمام شہریوں پر ایک ہی قانون تھوپنا، آئین کی روح کے خلاف ہے۔ ان کی یہ استقامت اور پامردی واقعی قابلِ تعریف ہے۔ اسدالدین اویسی نے نہ صرف پارلیمنٹ کے ایوان میں بلکہ عوامی جلسوں میں بھی اپنی حوصلہ مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان قوانین کی مخالفت کی ہے۔ وہ جب بولتے ہیں تو ایک ایسا لہجہ ہوتا ہے جو سننے والوں کے دلوں میں اتھل پتھل مچا دیتا ہے۔ وہ کسی دباؤ، خوف یا مصلحت کا شکار نہیں ہوتے، بلکہ پوری ہمت کے ساتھ وہ بات کہتے ہیں جو دوسروں کے لیے کہنا ممکن نہیں ہوتا۔ ان کی سیاست صرف نعرے بازی نہیں بلکہ ایک نڈرپن پر مبنی حقیقت پسندانہ جدوجہد ہے۔ وہ آئین کے دائرے میں رہ کر ہر ظالمانہ قانون کے خلاف کھڑے ہیں۔ ان کے لیے یہ صرف سیاسی جنگ نہیں بلکہ اپنے مذہب، قوم، اور آئینی حقوق کا دفاع ہے۔ یہی وہ صفات ہیں جنہوں نے اویسی کو عوام کی نظروں میں ایک سچے اور دلیر رہنما بنا دیا ہے۔

اور ہم تمام مسلمانوں کو اور بالخصوص ہند واسیوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وقف املاک مسلمانوں کی مذہبی، تعلیمی اور فلاحی ضروریات کے لیے مخصوص وہ جائیدادیں ہیں جنہیں مسلمانوں نے اللہ کی رضا کے لیے ہمیشہ کے لیے وقف کر دیا ہوتا ہے۔ ان املاک پر اصل حق صرف اور صرف مسلمانوں کا ہوتا ہے، کیونکہ یہ نہ تو کسی فردِ واحد کی ملکیت ہوتی ہے اور نہ ہی اسے فروخت یا منتقل کیا جا سکتا ہے۔ مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے وقف کی روح اور قانون کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے ان املاک کو ہندو اداروں کے حوالہ کرنے کی سازش کی ہے۔ اسی سلسلے میں پارلیمنٹ میں پیش کردہ ایک متنازع بل نے مسلمانوں کے دلوں میں بے چینی پیدا کر دی، جس کے تحت کئی وقف املاک کو غیر مسلم اداروں کو دینے کا دروازہ کھولا جا رہا ہے۔ اس موقع پر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر، ممبر پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے جس جرأت مندی، بہادری اور دلیری کے ساتھ آواز بلند کی، وہ قابلِ تحسین ہے۔ انہوں نے نہ صرف اس بل کی شدید مخالفت کی، بلکہ پارلیمنٹ میں اس بل کی کاپی کو پھاڑ کر حکومت کو یہ پیغام دیا کہ مسلمان اب مزید ظلم اور زیادتی برداشت نہیں کریں گے۔

اویسی صاحب کا یہ اقدام صرف ایک احتجاج نہیں تھا، بلکہ شجاعت اور نڈرپن کی علامت تھی ۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ یہ بل نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ مسلمانوں کے مذہبی حقوق پر ایک سنگین حملہ ہے۔ ان کے مطابق، وقف املاک کسی بھی مذہب یا حکومت کی مداخلت سے بالاتر ہیں، اور ان پر مسلمانوں کا شرعی، قانونی اور تاریخی حق ہے۔ اویسی صاحب نے جس ہمت کے ساتھ حکومت کے سامنے کھڑے ہو کر مسلمانوں کی نمائندگی کی، وہ قابلِ تقلید ہے۔ ان کا عزم تھا کہ مسلمانوں کے وقفی اداروں کو ہر قیمت پر بچایا جائے گا، چاہے اس کے لیے کتنی ہی بڑی سیاسی طاقت کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔ انہوں نے جو استقامت دکھائی، وہ اُن تمام مسلمانوں کے لیے ایک پیغام ہے جو خاموشی اختیار کیے بیٹھے ہیں۔ اویسی صاحب کی پامردی اور حوصلہ مندی نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ صرف ایک سیاستدان نہیں بلکہ مسلمانوں کے حقوق کے سچے محافظ ہیں۔ وقف املاک کا تحفظ نہ صرف شرعی فریضہ ہے بلکہ یہ مسلمانوں کی شناخت، خودداری اور خدمتِ خلق کے جذبے کا حصہ بھی ہے۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری ملت اسلامیہ ان کے ساتھ کھڑے ہو اور وقف املاک کے تحفظ کے لیے متحد ہو۔ یہ صرف زمین کا مسئلہ نہیں، بلکہ ہمارے دین، وقار اور وقفی خدمت کے نظام کا سوال ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔