فیشن پرستی:اورہمارے نوجوان لڑکے ولڑکیاں
ہر وہ چیز جو مغرب ویورپ سے آتی ہے ہمارا نوجوان طبقہ جدید فیشن کے نام پر اسے لپکنا اپنی خوش قسمتی تصور کرتا ہے اور وہ مقبولِ خاص وعام اس لیے ہوجاتا ہے کہ اس کے پیچھے باضابطہ پلاننگ ومنصوبہ بندی ہوتی ہے۔ فیشن پرستی در اصل مرعوبیت کا دوسرا نام ہے۔کیونکہ ہم مغرب سے درآمد ہر چیز کو بلا ردوکد کے اپنی زندگی کا حصہ بنالیتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ اس سے ہمارا کیا نقصان ہے، شریعت اس کی اجازت دیتی بھی ہے یا نہیں۔ چاہے وہ مرد کا زنانہ لباس استعمال کرنا ہو یا عورتوں کا مردانہ لباس استعمال کرنا، کھڑے ہو کر پیشاب کرنا ہو یا گھوم پھر کر کھانا کھانا، سگریٹ پینا ہو یا شراب پیناوغیرہ۔ہربرائی فیشن کے نام پر گوارہ ہے۔
دراصل یہ تمام چیزیں ٹی وی اور سنیما کی دین ہیں ،جہاں پر شیطانی تعلیمات کو سونے کے پانی سے مزین کیا جاتا ہے اور پھر اس کی تشہیر وتبلیغ کی جاتی ہے اور فیشن کے دلدادوں میں یہ زہر بڑی تیزی سے سرایت کرتاجاتا ہے اور ہم اپنی ذات سے انجان شیطانی چالوں میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔کیا یہ حقیقت نہیں ہیکہ اگر سنیما کا کوئی بہروپیہ ننگا رول ادا کرتا ہے تو ہم بھی ننگے بدن ہوجانا پسند کرتے ہیں۔ اگر کوئی سر کا دوحصہ کرکے ایک حصہ میں بال اور دوسرے کو بنا بال کے رکھتا ہے تو ہم بھی اسی کے نقش قدم پر چل کر ایسا ہی اپناسر بنالیتے ہیں۔ اگر کوئی شرابی کا رول اداکرتا ہے تو ہم بھی شراب کا گلاس اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیتے ہیں۔ اگر کوئی کسی لڑکی کو چھیڑتا ہے تو ہم بھی اسی طریقے پر لڑکیوں کو چھیڑنا شروع کردیتے ہیں۔ اگر کوئی بہروپیہ فلموں میں داڑھی رکھ کر آتا ہے تو ہم بھی داڑھی رکھ لیتے ہیں اور جونہی اس کے چہرے سے داڑھی صاف ہوتی ہے ہم بھی استرا چلا لیتے ہیں۔یہی ہمارے نوجوان نسل کی زندگی ہے جن کا نہ تو اپنی کوئی لائف اسٹائل ہے اور نہ ہی کوئی ایک رول ماڈل بلکہ اس کی زندگی ایک فلمی ہیرویا ہیروئن کی غلام ہے کہ اس کی زندگی ویسی ہی ہوگی جیسی ان کے پسندیدہ ہیرو یا ہیروئن کی زندگی ہوگی جبکہ ایک مسلمان کے نزدیک قابل اتباع شخصیت صرف اور صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت ہے اور یہ کیوں کر ممکن ہے کہ ایک مسلمان بیوقوفوں کی زندگی کو ماڈل بنانے کے لیے اپنے نبی کے طریقوں کا خون کرے۔ صحابی رسول حضرت حذیفہ ابن الیمانؓ کی زندگی کاایک ہی واقعہ ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے:
حضرت حذیفہ ابن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہنشاہ ِکسری کے دربار میں مذاکرات کے لیے تشریف لے گئے، کسریٰ نے کھانا پیش کیا۔ آپؓ کھانے لگے ، اتفاق سے ایک لقمہ زمین پرگرگیا۔آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یاد آگئی کہ’’اگرکوئی لقمہ زمین پرگرجائے تواس کی ناقدری نہ کروبلکہ اس کواٹھا کر کھالو، اگر اس میں کچھ مٹی وغیرہ لگ گئی ہوتواس کو صاف کرلوپھرکھالو‘‘ فوراً گرا ہوا لقمہ اٹھانے کے لیے زمین کی طرف ہاتھ بڑھایا، ایک قریبی شخص نے کہنی ماری اور کہا:یہ کیاکررہے ہو؟۔آپ دربارشاہی میں ہیں،گراہوالقمہ اٹھانااس دربار کی شان کے خلاف ہے،لہٰذا گرا ہوا لقمہ اٹھا کر نہ کھائیے ۔حضرت حذیفہ ابن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا:’’ أ اترک سنۃ حبیبی لہؤلاء الحمقاء‘‘کیا میں اپنے محبوب کا طریقہ ان احمقو ں کی وجہ سے چھوڑ دوں۔
صحابی رسولؐ کا یہ واقعہ ان لوگوں کے لیے درس عبرت ہے جو فیشن پرستی کے نام پر اپنے نبی کی ہر سنت کا گلا گھونٹتے ہیں بلکہ اسوۂ نبوی اپنانے میں اپنی تحقیر وتذلیل سمجھتے ہیں جبکہ سچا مؤمن شہنشاہوں کے دربار میں بھی نبی کی سنتوں سے روگردانی کرنا گوارا نہیں کرتا۔
دورِ حاضر میں لوگ اپنی پسند وناپسند کا خیال نہیں کرتے ، ان کے یہاں پسند کا معیار فلمی بہروپیے ہوتے ہیں، خواتین تو ان کے نقش قدم پر چلنا اپنے لیے معراج سمجھتی ہیں۔ لباس کا عالم یہ ہیکہ ان کا پہننا اور نہ پہننا برابر ہے، لہراتی زلفیں ،اور فیشن ایبل ادائیں یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں کہ فلاں ہیروئن ان کی آئیڈیل ہیں۔ فیشن پرست خواتین کا حال یہ ہیکہ وہ اپنے شوہروں کے سامنے میلی کچیلی رہیں گی لیکن جب گھروں سے باہر نکلیں گی تو میک اپ کے ساتھ، خوشبو اور پرفیوم لگاکر ، زلفوں کو لہراتی ہوئیں اور نازونخرے دکھاتی ہوئیں اور لباس تو بالکل نیا اور جدید انداز کا ہوناچاہیے تاکہ لوگوں کی نگاہیں زیادہ سے اپنی جانب متوجہ کراسکیں۔
کھڑے ہوکر پیشاب کرنا بھی فیشن پرستی کا حصہ ہے،جو لوگ بیٹھ کر پیشاب کرتے ہیں وہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے والوں کی نظر میں (out dated)ہیں۔ گویا پرانے قسم کے لوگ یا قدامت پسند لوگ بیٹھ کر پیشاب کرتے ہیں۔سگریٹ نوشی ،سگار نوشی، شراب نوشی، اور چل پھل کر کھانا پینا بھی فیشن پرستی میں شامل ہے۔ نام نہاد مہذب سوسائٹی میں شراب کا جام انڈیلنے کو اعلیٰ درجہ کا عمل سمجھاجاتا ہے ،اور شراب بھی اتنی قسموں کی کہ یاد رکھنا دشوار ۔کوئی ولایتی شراب پیتا ہے تو کوئی دیسی، کوئی وسکی پیتا ہے تو کوئی برانڈی اور کوئی ہلکی بیئر پیتا ہے تو کوئی کچھ اور۔ اس سے قطعِ نظر کے اس کے دنیاوی ودینی اثرات کیا ہوںگے۔ لیکن چونکہ شراب پینا جدید دور کا فیشن ہے اس لیے یہ بھی فیشن پرستی کے نام پر گوارا ہے۔
کہاں تک گناؤں اور کیا کیا شمار کراؤں۔ ہماری تو پوری زندگی ہی فیشن پرستی کی نذر ہوکر رہ گئی ہے۔جس نے ہمیں دنیا کی خرافات میں مبتلا کرکے آخرت کی تباہی وخسران میں ڈھکیل دیا ہے اور ہم نے اسی کو اپنی معراج سمجھ لیا ہے۔افسوس!ہم اپنی ترقی دوسروں کی نقالی میں سمجھتے ہیں، خوشحالی غیروں کی پیروکاری میں اور عزت ورفعت فاسقوں اور فاجروں کے طریقوں پرچل کر حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ قرآن وحدیث کا راستہ ہی کامیابی وکامرانی کا راستہ ہے، اسی میں دنیاوآخرت کی سعادت ہے۔
درج ذیل واقعہ ہمارے لیے درس عبرت ہے:
امیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب فلسطین کے دورے پر تھے،سادہ لباس میں ملبوس تھے، ساتھیوں نے کہا: امیرالمؤمنین! لباس تبدیل کرلیجیے،چونکہ مذاکرہ عیسائی سرداروں سے ہونا ہے ، اگر آپ اس لباس میں ان کے ہاں جائیں گے تو وہ آپ کو حقیر سمجھیں گے۔ قربان جائیے امیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایمان افروز جواب پر کہ آپؓ نے فرمایا:
ہم دنیامیں سب سے ذلیل اورپست قوم تھے، اسلام کے ذریعہ اللہ نے ہم کوعزت بخشی، جب بھی ہم اسلام کے علاوہ کسی دوسری چیزکے ذریعہ عزت چاہیں گے اللہ تعالیٰ ہم کو ذلیل کردے گا۔
حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ناصحانہ جملوں کو اپنے سامنے رکھ کر مسلمانوں کی موجودہ پستی کا تجزیہ کیجیے تو سبب بھی معلوم ہوگا اور اس میں علاج بھی موجود پائیں گے کہ مسلمانوں نے جب تک نبی کریم کی زندگی کو اپنانمونہ وماڈل بنایا دنیاکی سربراہی کرتے رہے اور جب نبوی طریقے سے اپنا منہ موڑ لیاپستی وادبارگی کے عمیق غار میں جاگرے۔آج مسلمان پوری دنیا میں کثرتِ تعداد کے باوجودجھاگ سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے، ہرجگہ دھتکارے جارہے ہیں،جگہ جگہ تحقیر وتذلیل ہورہی ہے، کف افسوس ملنے اور عظمتِ رفتہ پر آنسوبہانے کے علاوہ کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔سچ ہے:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر