حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحبؒ
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
از:- مولانا سید احمد ومیض ندوی نقشبندی
استاذ حدیث دارالعلوم حیدرآباد
آہ! جس بات کا دھڑکا لگا تھا آخر وہ ہو کر رہا، کئی دنوں کی علالت کے بعد آخر حضرت مولانا غلام محمد وستانوی بھی سفر آخرت پر روانہ ہو گئے، دین کا یہ مخلص خادم دینی خدمات سے بھرپور زندگی گزار کر 75 سال کی عمر میں ٤/ مئی٢٠٢٥ کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملا، حضرت مولانا غلام محمد وستانوی کا انتقال ایک فرد کا انتقال نہیں بلکہ ایک تحریک تھی جو ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی، یہ سانحہ محض ایک شخصیت کا نہیں بلکہ ملت کے ایک ایسے مخلص قائد کا سانحہ ہے جس نے اپنی ساری زندگی قوم و ملت کے لیے کھپا دی تھی، مولانا کی وفات سے ہندوستان کی دینی و عصری تعلیم اور ملی خدمات کا ایک روشن باب اختتام کو پہنچ گیا، جب بھی مؤرخ ہندوستان کی معاصر تاریخ لکھنے کے لیے قلم اٹھائے گا وہ مولانا غلام محمد وستانوی اور ان کے قائم کردہ دینی و عصری تعلیمی اداروں کا تذکرہ سنہری حروف سے لکھے گا، غلام محمد وستانوی ایک شخص نہیں بلکہ ایک انقلاب، ایک ولولہ، ایک تحریک اور ایک مشن کا نام ہے، جو تا قیام قیامت روشن رہے گا، مولانا وستانوی تو خالق کائنات کی جانب سے طے شدہ اپنی زندگی مکمل کر کے رخصت ہو گئے، لیکن انہوں ںے امت میں دینی و عصری تعلیم کی جو روح پھونکی ہے وہ صبح قیامت تک نہ صرف قائم و دائم رہے گی بلکہ ملی میدانوں میں کام کرنے والوں کو ہر لمحہ تازگی بخشتی رہے گی،مولانا وستانوی کو اللہ تعالی نے اگرچہ بے شمار کمالات سے سرفراز فرمایا تھا لیکن اس تحریر میں ان چند خصوصیات و امتیازات کا تذکرہ مقصود ہے جنہوں نے ان کو دیگر علماء سے ممتاز کر دیا تھا اور وہ
درج ذیل ہیں:
١-دینی خدمات میں تنوع: اکثر و بیشتر علماء کرام اپنی خدمات کا ایک دائرہ کھینچ لیتے ہیں اور خود کو اسی دائرے تک محدود رکھتے ہیں،اور ان کا یہ عمل درست بھی ہے، کوئی کسی دینی ادارے میں تدریسی خدمت انجام دے رہا ہے تو وہ اسی دائرے تک محدود ہے، کسی نے عوامی سرگرمیوں کو اپنے لیے منتخب کیا ہے تو وہ عوام کے لیے وقف ہے، تدریسی خدمات اور خواص کی تربیت سے اسے کوئی سروکار نہیں، اسی طرح بعض علماء کسی خاص تنظیم یا دعوتی تحریک سے وابستہ ہو کر خود کو اس مخصوص تنظیم یا تحریک تک محدود کر لیتے ہیں، مگر مولانا غلام محمد وستانوی امتیاز یہ تھا کہ انہوں نے خود کو کسی ایک دائرے میں محدود نہیں کیا ان کی دینی و ملی خدمات میں بڑا تنوع ہے ان کی خدمات کا کوئی ایک دائرہ مقرر نہیں ہے انہوں نے ملت کے لیے ضروری اور خدمت دین کا تقاضا سمجھے جانے والے ہر کام سے خود کو وابستہ رکھا، عملی میدان میں قدم رکھنے کے بعد ابتدائی سالوں میں خود کو درس و تدریس کے لیے وقف کر دیا اور گجرات کے جن مدارس میں انہیں تدریس کا موقع ملا طلبہ کی افراد سازی کا موقع سمجھ کر اس سے خوب کام لیا اور ایک کامیاب مدرس کے طور پر تدریسی خدمت کا حق ادا کر دیا، ابتدا میں آپ نے سورت کے ایک گاؤں بوڈھان سے تدریس کا آغاز کیا، پھر 1973 میں دارالعلوم کنتھاریہ میں باقاعدہ تدریس کا سلسلہ شروع فرمایا، پھر ایک مرحلہ وہ آیا جب انہوں نے مہاراشٹر کے ایک ایسے علاقے کا دورہ کیا جہاں دینی بدحالی عروج پر تھی وہاں اشاعت العلوم جیسا ادارہ قائم کر کے اسے خوب پروان چڑھایا اس کا آغاز ایک استاذ اور چھ طلبہ سے کیا، ابتدائی دور میں اپنے بڑے بھائی حافظ اسحاق صاحب مرحوم کو اہتمام کی ذمہ داری سونپی، اور خود کنتھاریہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، بالآخر 1980 میں آپ مستقل جامعہ اشاعت العلوم منتقل ہو گئے، اور خود کو مکمل طور پر اس کے لیے اس طرح وقف کر دیا کہ چھ طلبہ سے شروع ہونے والا ایک چھوٹا سا مدرسہ اس وقت ایک عظیم اسلامی یونیورسٹی کی شکل اختیار کر چکا ہے، جس میں شعبہ دینیات حفظ عالمیت اور دور حدیث سے لے کر تخصصات تک کے شعبے قائم ہیں اور جہاں ہزاروں طلباء علم دین حاصل کر رہے ہیں، اتنا ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی دین سے دوری اور ان کی نئی نسل کو علم دین سے آراستہ کرنے کے لیے وستانوی صاحب نے مہاراشٹر اور دیگر ریاستوں میں دینی مدارس اور مکاتب کی ایک پوری جال بچھا دی، اس وقت جامعہ اکل کوا کے زیر اہتمام تین ہزار پانچ سو مکاتب قرآنیہ چل رہے ہیں اور یہ ملک کے 16 صوبوں میں پھیلے ہوئے ہیں، اور جامعہ کی شاخوں کے طور پر کام کرنے والے اقامتی مدارس کی تعداد ایک سو سے زائد ہے جن میں ٨٠٠ سے زائد عملہ تدریسی خدمات پر مامور ہے، جامعہ اشاعت العلو م اور اس کی شاخوں میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کی تعداد ہزاروں میں ہے، صرف جامعہ اشاعت العلوم کے شعبہ حفظ میں ایک سودرسگاہیں چلتی ہیں۔
٢-
ملک میں دینی مدارس چلانے والے علماء کرام کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن ایسے علماء شاید انگلیوں پر شمار ہوں گے جنہوں نے دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم پر بھی توجہ مرکوز کی ہو، مولانا وستانوی واحد عالم دین ہیں جنہوں نے ایک مذہبی پس منظر رکھنے کے باوجود دینی مدارس کے ساتھ عصری اسکولز اور کالجز نہ صرف قائم کیا بلکہ کامیاب طریقے سے ان کا نظام چلایا، چنانچہ انہوں نے میڈیکل کالج، ہومیو کالج، آیر ویدک کالج، لا کالج، فارمیسی کالج جیسے متعدد کالج قائم کئے، اس طرح 292 عصری تعلیمی مراکز (اسکول اور کالجز) قائم کر کے ٧٢٧٥٠ طلبہ و طالبات کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کا انتظام فرمایا، یہ مولانا وستانوی کا ایک ایسا کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔مولانا کے میڈیکل کالج سے اب تک 5 س سے زائد طلباء نے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور 100 سے زائد نے ایم ڈی مکمل کی۔
٣-علماء کرام کی جماعت میں بہت کم ایسے علماء ہیں جنہوں نے رفاہی خدمات کو مقصود بنا کر ان کے لیے مستقل کام کیا ہو، مولانا وستانوی نے رفاہی خدمات کو منصوبہ بند طریقے سے انجام دیا، بیوہ خواتین کے لیے وظائف کا معاملہ ہو یا دیہاتوں میں بورویل کی تنصیب، واٹر پروگرام کے تحت 6570 پروجیکٹس کے ذریعے ١٦٤٢٥٠٠٠ افراد کو صاف پانی مہیا کرنے کا معاملہ ہو یا عصری تعلیم کے بچوں کے لیے وظائف کی اجرائی، یتیم بچوں کی کفالت ہو یا معمر افراد کے لیے پنشن اسکیم ، ماہ رمضان کے موقع پر اجتماعی افطار کا نظم ہو یا قربانی کے گوشت کی تقسیم، الغرض مولانا کی رفاہی خدمات کا دائرہ کافی پھیلا ہوا ہے۔
٤-طب اور علاج و معالجے کا میدان ہمیشہ سے توجہ طلب رہا ہے، دانشوران قوم میں ایسے افراد کی خاصی تعداد ہے جنہوں نے طبی میدان میں قابل قدر خدمت انجام دی ہے، لیکن علماء کرام کی صف میں بہت کم ایسی شخصیات نظر آتی ہیں جنہوں نے طبی لائن سے ملت اور انسانیت کی خدمت کی ہو، مولانا وستانوی نے اس حوالے سے بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، ہزاروں افراد کو صحت مند زندگی عطا کرنے کے لیے جہاں ہسپتالوں کا قیام عمل میں لایا وہیں ڈائلیسس سینٹر بھی قائم کیے، مولانا کے تحت کام کرنے والے ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے کم سے کم اخراجات میں مہنگا علاج فراہم کیا جاتا ہے، ریاست مہاراشٹر کے مختلف علاقوں میں ٣٣ ہسپتال قائم ہیں جن میں ١١٤٩٣٨٠ افراد کو طبی سہولیات فراہم کی گئی. مدرسے کی چٹائیوں پہ بیٹھ کر پڑھ کر نکلنے والے کسی مولوی کا طبی میدان میں اتنی عظیم خدمات انجام دینا کسی کرامت سے کم نہیں۔
٥-مولانا وستانوی کی ایک اہم خصوصیت اور ان کا ایک عظیم کارنامہ تعمیری میدان سے تعلق رکھتا ہے، جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا قریب 80 ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا ہے روڈ کی ایک جانب دینی تعلیم کے طلبہ کے لیے ہمہ منزلہ عمارتوں کا طویل سلسلہ ہے، اور روڈ کے اس پار مختلف عصری تعلیمی اداروں کی عمارتیں قائم ہیں، عمارتوں کے اس طویل سلسلے کو دیکھ کر آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔
٦-مولانا کی خدمات کا ایک روشن باب تصوف و سلوک اور تزکیہ و احسان سے تعلق رکھتا ہے آپ نے اپنی روحانی اصلاح کے لئے حضرت قاری صدیق احمد باندوی علیہ الرحمہ سے اصلاحی تعلق جوڑا قاری صاحب نے آپ کو خلافت و اجازت سے نوازا ، مولانا وستانوی نے عوام اور علماء کے درمیان ذکر و سلوک کا سلسلہ اہتمام کے ساتھ تا دم میں واپسیں جاری و ساری رکھا۔
٦-اتنے سارے علمی و عملی کمالات کے باوجود آپ کے اندر حد درجے سادگی تھی، ہر شخص آسانی سے آپ تک رسائی حاصل کر سکتا تھا، طلباء کے درمیان گھل مل جاتے تھے آپ کا، لباس اور پوشاک انتہائی سادہ ہوا کرتا تھا، مولانا کو دیکھ کر کوئی سمجھ نہیں سکتا تھا کہ یہ ایک عظیم انسان ہے ہر کسی کے ساتھ تواضع بے تکلفی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے، جو ایک مرتبہ آپ سے شرف ملاقات حاصل کرتا اپ کا گرویدہ ہو جاتا.