Slide
Slide
Slide

کیا 2024 کا پارلیمانی انتخاب ریفرنڈم ہے ؟

حسن رضا یو ایم ایف جھارکھنڈ

ہندوستان میں 1952سے انتخاب ہورہے ہیں لیکن ایمرجنسی کے بعد 1977 کا انتخاب محض روٹین کا انتخاب عام نہ تھا ۔سب جانتے ہیں کہ  اس وقت کے  پارلیمانی انتخاب کے ذریعہ یہ فیصلہ نہیں کرنا  تھا کہ حکومت کس پارٹی کی ہو گی ۔بلکہ وہ الکشن آزاد ہندوستان کا ایک ریفرنڈم کی حیثیت اختیار کرچکا تھا یعنی اس الکشن کے ذریعے یہ طئے کرنا تھا کہ آیندہ  ہندوستان دستور ہند کے مطابق جمہوری قدروں اور آئینی اداروں  کا پابند ہوگا یا کانگریس پارٹی کے اندر ایک فرد اور اس کے ارد گرد  ایک ٹولے کے ہوس اقتدار کا شکار ہوکر  ڈکٹیٹر شپ میں بدل جایے گا۔

چنانچہ خود کانگریس کی صفوں سے ان کے بڑے لیڈران نے اس نزاکت کو سمجھا اور پارٹی کی وفاداری کے بجایے ملک کے وسیع تر مفاد میں کانگریس پارٹی کو شکست دی اور  ہندوستان میں جمہوری اقدار اور روایات  کو استحکام بخشا ۔

2024کا پارلیمانی الکشن بھی محض سیاسی پارٹیوں کے درمیان اقتدار میں شرکت اس میں  الٹ پھیر اور تبدیلی کا ایک جمہوری مقابلہ اور تماشہ نہیں ہے بلکہ یہ بھی اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ  بڑا اور اہم  نازک ریفرنڈم ہے جس کے اثرات بہت دور رس اور تاریخی ہوں گے اس الکشن کے ذریعے یہ طئے ہوگا کہ یہ ملک ائندہ  ہندوستان کے آئین کے مطابق جمہوری ،مذہبی رواداری اور تمام ہندوستانی شہریوں کی آزادی برابری اور بھائی چارگی کے اصول پر چلایا جایے گا یا ملک کے دستور کی اصل روح یعنی آزادی  مذہبی رواداری اور جمہوری اقدار و روایات کا گلا گھونٹ کر  تنگ نظر  اندھی بہری فرقہ پرستی اور ہوس اقتدار میں  راج دھرم کے تمام اصولوں  کو پامال کرنے والے ایک گروہ  کے حوالے کردیا جایے گا ۔

اس لئے تمام پارٹیوں کے  بیدار مغز باضمیر باشعور انسانیت دوست اور سچے محب وطن ہندو مسلمان سکھ  عیسائی امیر غریب کسان مزدور شیخ وبرہمن دلت وغیردلت آدی باسی ومول واسی   بودھ مذہب کے ماننے والے  اور جینی سب مرد و خواتین  کی ذمہ داری ہے کہ اس آنیوالے جنرل الیکشن کو 1977کی طرح ایک  دوسرا ریفرنڈم۔سمجھیں خود بھارتیہ جنتا پارٹی  کے اندر جو اپنے  راج دھرم کے تقدس کو سمجھتے ہیں ان کا بھی فرض ہے کہ اپنی  اس  روایت کی حفاظت کے لئے اہنکاری سیاست کو تیاگ کر اس ریفرنڈم میں  ملک سماج و انسانیت کے وسیع تر مفاد کی خاطر اپنا سچا کردار ادا کریں۔

مسلم مذہبی گروہ اور سیاسی لیڈران کا بھی  فرض ہے کہ وہ اپنی  پارٹی اور گروہی مفاد میں اتنے نادان نہ ہوجاییں کہ جو لوگ تنگ نظر تنگ دل  تنگ دماغ فرقہ پرستوں کے خلاف صف بستہ ہورہے  ہیں اور ان کو للکار رہے رہیں انہیں کو وہ اپنی روایتی سیاست کے تحت دلی اور دولت آباد سے للکارنے لگیں ۔ملی سیاست کا یہ المیہ ہوگا کہ اس وقت ہم کو جس کشادہ ذہنی وسیع قلبی اور دور اندیشی کے ساتھ سیاسی بیانیہ میں شریک ہونا چاہئے اور  اس میں ایک روحانی اور اخلاقی تب وتاب دے کر ایک نئی بلندی اور پاکیزگی عطا کرنا چاہئے نہ کہ قومی کشمکش کی عادی  عوام کو مزید قومی کشمکش کے بیانیے کو چمکاکر زندہ باد کا نعرہ  لگواکر اپنی لیڈری چمکانا چاہئے ۔مسلمانوں کے اندر جو  سیاسی لیڈران  اس وقت بے وقت کی راگنی شروع کردیتے ہیں اور اپنی اپنی سیاسی ڈفلی  بجاکر چمپین بننے کی کوشش کر رہے ہیں ان کو سمجھنا چاہیے کہ آنیوالے الیکشن میں دو چار سیٹ پر مسلمانوں کا جیتنا ہارنا زیادہ اہم نہیں ہے  اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ جو ریفرنڈم ہونے جارہا ہے اس میں ہمارا اور ان کا  وزن اس پلڑے میں جایے جو مذہبی رواداری ، اور جمہوری قدروں کا علم اپنے ہاتھ میں تھام کر میدان سیاست میں فرقہ پرستوں سے نبرد آزما ہونے  کے لئے نیی صف بندی میں مشغول ہے ۔ہم تاریخ کے اہم نازک موڑ پر کھڑے ہیں ایک معمولی سی سیاسی لغزش بھی ہمیں ساحل سے اٹھا کر  بھنور میں ڈال دے گی ۔اللہ اس ملک اور ساری انسانیت پر رحم فرمانے اور وقت کے تیور کو سمجھنے کی توفیق دے۔ والسلام

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: