Slide
Slide
Slide

عرب ممالک کی قیادت اور ہماری ملی قیادت میں مماثلت

تحریر: مسعود جاوید

عرب ممالک کی قیادت سہمی ہوئی ہے اس لئے کہ یمن، لیبیا ، عراق اور مصر کا حال ان کے سامنے ہے۔ جمہوری نظام کے قیام کی آڑ میں ان کا کیا حشر ہوا! 

دوسری بات یہ کہ عرب دنیا کی قیادت وہاں کی عوام کے جذبات کی ترجمانی نہیں کرتی ہے۔ عوام کے اپنے ملی و دینی جذبات ہیں تو دوسری طرف قیادت کے اپنے خدشات ۔ 

ہماری ملی قیادت بھی سہمی ہوئی ہے۔ عوام کی امنگوں اور آرزوؤں کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر ہے۔  سیاسی سطح پر ان کے بھی اپنے خدشات ہیں۔ 

تاہم غیر سیاسی سطح یعنی سماجی، تعلیمی اور معاشی زبوں حالی کو دور کرنے کے لئے مؤثر اقدامات کرنے میں تساہلی چہ معنی دارد!

ملی قیادت کا ذکر ہوتا ہے تو ذہن میں جمعیتہ علماء ہند، جماعت اسلامی ،مسلم پرسنل لاء بورڈ، اور ملی کونسل کے اسماء ذہن میں کیوں آتے ہیں!  

  • کیا بریلوی طبقہ اور جمعیت اہل حدیث ملی جماعتوں کے زمرہ میں نہیں آتے ! 
  • اگر آتے ہیں تو کل ہند سطح پر ان کا ایسا کوئی کارہائے نمایاں نظر کیوں نہیں آتا ! 
  • غالباً ان کی ساری توانائی مسلک کی تبلیغ اور نشرواشاعت پر صرف ہو رہی ہے۔

بریلوی مسلک والوں کے ایسے ایسے ویڈیوز سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتے ہیں جن سے تقریباََ ہر مسلمان شرمسار ہوتا ہے۔ پیری مریدی کا ایسا منظر کہ کوئی باشعور کٹر بریلوی بھی جس کی نکیر کرنے باز نہیں رہتا ہے۔ کوئی امراؤ جان جیسے پوشاک اور سنگھار  تو کوئی اسٹیج پر اچھل کود کرتا ہے اور جاہل عوام ان پر روپے برساتے ہوئے کوٹھا اور مجرا کا منظر پیش کرتی ہے ! 

بعض دیوبندی علماء بھی ہیں جو وقتاً فوقتاً بریلوی مسلک والوں سے متصادم ہوتے رہتے ہیں! تبلیغ دین کی کریں مسلک اور مشرب کی نہیں ۔‌ 

برصغیر ہند میں دیوبندی طبقہ کا مسلک واضح ہو چکا ہے اب مزید اس کی وضاحت کرنے کے نام پر مناظرہ کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی ، مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا اشرف علی تھانوی رحمہم اللّٰہ کی بعض تعبیرات پر بریلوی طبقہ کے علماء کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں تو لگانے دیں ۔ اس پر سکوت اختیار کریں۔ 

بریلوی مسلک والے لاکھوں روپے جلسے جلوس پر خرچ تو کرتے ہیں مگر اپنے ناخواندہ طبقے میں تعلیمی بیداری کی کوئی قابل ذکر مہم نہیں چلاتے ہیں! ان کے جلسوں میں سارا زور تکفیر دیوبندی اور وہابی پر ہوتا ہے جس کا حاصل کچھ نہیں ۔ 

ملت اسلامیہ ہند کس دور سے گزر رہی ہے اور گزرنے والی ہے کیا اس کا احساس بریلوی علماء کو نہیں ہے ! اگر ہے تو فرسودہ موضوعات پر اتنا زور کیوں !۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: