از قلم:عین الحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرائے
کہا جاتا ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے ،بالیقین حضرت مولانا عبد الجلیل صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ بھلائے نہیں جاسکتے ،وہ بافیض عالم دین تھے ،وہ شجر سایہ دار اور نفع رساں خلق میں سے تھے،ہونہار باکردار شاگردوں اور فیض یافتہ اہل علم دوستوں سے ان کی گہری شناخت قائم رہے گی ،انہوں نے سادگی اور خاموشی کے ساتھ نئی نسل کی تربیت میں جس طرح سے خود کو چھپانے کا جگر پایا تھا ،تاریخ انہیں یاد رکھے گی ،علم وفضل اور سماجی و فلاحی خدمات سے جڑے ان کے شاگردان رشید ،انہیں مرنے نہیں دیں گے ،بلکہ زندہ رکھیں گے۔حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے مرکر بھی خود کو زندہ رکھنے کا سامان کیا ،یہ ان کی بہت بڑی خوبی اور اللہ کی اپنے محبوب ومقبول بندے پر بہت بڑی مہربانی ہے ۔
حضرت مولانا رحمہ اللہ کے تعلق سے مجھے تب پتہ چلا تھا جب دارالعلوم دیوبند میں ان کے ہونہار ،صالح اور اپنے والد بزرگوار کے سولہ آنہ پرتو پسران جناب مفتی جاوید اشرف قاسمی صاحب اطال اللہ عمرہ وجناب مفتی شبیر انور قاسمی صاحب زید مجدہ وہاں عربی کے علیا درجے میں ممتاز ترین طلباء کی صفوں کا حصہ تھے ،ایک مرتبہ مدنی دارالمطالعہ طلبہ دارالعلوم دیوبند کے زیر اثر تحریری مسابقے میں مفتی شبیر انور قاسمی صاحب نے اول پوزیشن حاصل کی تو مجھے ذاتی طور پر بڑا رشک آیا کہ آخر یہ بندہ کون ہے ،آخر کس مٹی سے اس کا خمیر تیار ہوا ۔دارالعلوم ،جہاں ایک سے بڑھ کر ایک سورما موجود ،وہاں پہلی پوزیشن حاصل کر ناآسان نہیں ہے ۔یہ باتیں میں نے اپنے عزیز ترین رفیق جناب مولانا ارشد فیضی قاسمی ڈائرکٹر وبانی اسلامک مشن اسکول جالے دربھنگہ سے عرض کیا ،چوں کہ مفتی شبیر انور قاسمی صاحب زید مجدہ اس زمانے میں وہیں ارشد فیضی قاسمی صاحب کے ہم حجرہ تھے،اس لئے انہوں نے مفتی جاوید اشرف قاسمی ،مفتی شبیر انور قاسمی اور مفتی عبد القادر قاسمی صاحبان کے حوالے سےتفصیلات بتلائیں ۔خاص طور پر ان بھائیوں کے والد بزرگوار حضرت مولانا عبد الجلیل قاسمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ۔اتفاق دیکھئے کہ مفتی جاوید اشرف قاسمی صاحب میرے بڑے بھائی مولانا محمد زین العابدین قاسمی صاحب سابق قاضی شریعت مظفر پور بہارکے معاصر رہے ہیں اور مفتی شبیر انور قاسمی صاحب راقم الحروف کے ہم عصر بلکہ سینیئر ہیں ،جب کہ مفتی عبد القادر قاسمی میرے چھوٹے بھائی قاری عبد القیوم شاد ناظم تعلیمات مدرسہ قاسمیہ بحر العلوم بارو بیگوسرائے ایک ساتھ دارالتعلیم والصنعت میں ہم درس رہے ہیں ،یہ وہ وقت تھا جب کہ ہم سب کے سب دیوبند میں ہی مقیم تھے ۔
بہر حال حضرت مولانا کے سلسلے میں علم وفضل اور تقوی وطہارت ،صالحیت وصلاحیت کا علم مجھے پہلی مرتبہ دیوبند میں ہوا ۔ان بھائیوں سے تحریری امتیازات، اسباق کی پابندی اور دارالعلوم کے امتحانات ومختلف مسابقوں میں پوزیشن حاصل کرنے کی وجہ سے میں پہلے سے ہی متآثر تھا ،مگر جب یہ علم ہوا کہ یہ حضرات مولانا مرحوم کے لڑکے ہیں ،جن کا خمیر ہی علم وعمل اور تفوق و امتیازات اور خصوصیات سے تیار ہوا ہے تو میں پہلے سے زیادہ قدرداں ہوگیا ۔اللہ تعالیٰ کم لوگوں کا نصیب اس درجہ روشن بناتے ہیں ، حضرت مولانا اپنے حصے کی شمع روشن کرگئے ہیں ،ان کے بعد بھی ان کے لائق و فائق ،قابل ، علم وعمل سے مالا مال اولاد ،شاگرد اوراخلاف کے ذریعے سدا چراغ سے چراغ جلتا رہے گا اور ان سب کا اجر عظیم بے ارادہ بھی حضرت کے لئے رفع درجات کا سب ہوگا ان شاء اللہ ۔امید ہےنصف صدی پر محیط دنیا بھر میں پھیلے ان کے باکردار شاگردوں اور ہونہارفیض یافتوں کے روشن عمل سے تاصبح قیامت دنیا والے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے انفاس کی خوشبو محسوس کرتے رہیں گے۔ جنازے میں خلق خدا کا اژدہام دیکھ کر اپنی علالت کی وجہ سے جنازے میں شریک نہ رہنے کا غم کم ہو ہوگیا ۔ اللہ پاک نے حضرت کو غیر معمولی مقبولیت سے نوازا تھا ،جس کا اندازہ ایک جھلک جنازے کی جماعت سے ہوتا ہے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پسماندگان کو صبر وحوصلہ بخشے ،اور سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے ۔آمین یارب العالمین