آمریت کی نئی مثال
از قلم:مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
ہندوستان کی موجودہ پارلیمانی جمہوری حکومت سخت آزمائشوں کے دور سے گذر رہی ہے، بھاجپا کی مرکزی حکومت اپنی من مانی کرنے اور حزب مخالف کو بحث کا موقع دیے بغیر قانون پر قانون بناتی جا رہی ہے، حالیہ سرمائی اجلاس میں بھی بغیر بحث کے تین نئے فوجداری بل کو قانون کی شکل دی گئی، ملک سے غداری کے قانون کو بدل کر رکھ دیا گیا، ماب لنچنگ کی انتہائی سزا سزائے موت بھی ہو سکتی ہے، اس پر بھی قانون لایا گیا، لیکن اس بل کو پاس کرنے کے لیے دونوں ایوان سے حزب مخالف کے ایک سو تینتالیس (147)ارکان کو پورے سرمائی اجلاس کے لیے معطل کر دیا گیا،پارلیامنٹ نے ایک نیا فرمان جاری کرکے ان ارکان کے پارلیامنٹ عمارت میں داخلہ پر بھی روک لگادی ہے اور انہیں روزانہ ملنے والے بھتہ سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ ان کا جرم یہ تھا کہ یہ دونوں ایوانوں میں پارلیامنٹ کے تحفظ کے مسئلہ پر وزیر داخلہ سے بیان طلب کر رہے تھے، لیکن وزیر داخلہ امیت شاہ نے منی پور معاملہ میں جس طرح کا سکوت اختیار کر رکھا تھا، اس مسئلہ میں بھی وہ اپنی ضد پر اڑے ہوئے تھے کہ ہم اس پر بیان نہیں دیں گے، حزب مخالف کا شور وغوغا بڑھتا گیا اور ایوان کے اسپیکر اور صدر نشیں نے قسطوں میں 14 دسمبر کو چودہ، 18 دسمبر کو اٹھہر(78)، 19 دسمبر کو انچاس (49) اور 20 دسمبر کو دو (2) اراکین کو معطل کردیا، اس طرح سے لوک سبھا سے معطل شدہ ارکان کی تعداد سنتانوے (97)اور راجیہ سبھا کے ارکان کی تعداد چھیالیس (46) تک پہونچ گئی، رواں پارلیامنٹ کے اس آخری اجلاس میں حزب مخالف کا پتّہ صاف کر دیا گیا اور ایک تہائی ارکان،پارلیامنٹ کے اسپیکر اور راجیہ سبھا کے صدر نشیں کے عتاب کا شکار ہوئے۔
ہندوستان کی پارلیمانی تاریخ میں یہ آمریت کی بد ترین مثال ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ارکان معطل کیے گیے۔ 1989 میں راجیو گاندھی کے دور میں بھی بڑی تعداد میں ارکان معطل کیے گیے تھے، لیکن ان کی تعداد صرف ترسٹھ (63) تک پہونچی تھی، ایک اور موقع سے سارے حزب مخالف کے ارکان نے اپنا استعفیٰ اسپیکر کو پیش کر دیا تھا، اس وقت بھی پارلیامنٹ بغیر حزب مخالف کے رہ گئی تھی، لیکن خود سے استعفیٰ دینا اور بات ہے اور ارکان کو جبرا معطل کرنا بالکل دوسری بات ہے، اس فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
یقینا ایوان کو باوقار انداز میں چلانے کی غرض سے اسپیکر کو خصوصی اختیارات دیے گیے ہیں، کچھ سالوں سے دیکھا یہ جا رہا ہے کہ اسپیکر کے فیصلے جانبدارانہ ہونے لگے ہیں، اسی لیے منی پور کے ایک معاملہ میں سپریم کورٹ نے پارلیامنٹ کو اسپیکر کے اختیارات سے متعلق قانون بنانے کو کہا، سپریم کورٹ نے وزیر جنگلات ٹی شیام کمار کی نا اہلیت کے معاملہ پر فیصلہ سناتے ہوئے لکھا تھا کہ اسپیکر کے اختیارات پر غور وخوض کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ اسپیکر کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کا ہوتا ہے، اس لیے وہ غیر جانبدار فیصلہ نہیں لے سکتا ہے۔
تھوک میں معطلی کی اس کارروائی سے ایک بار پھر اسپیکر کا کردار سوالات کے گھیرے میں ہے، اور عین ممکن ہے کہ یہ معاملہ عدالت میں جائے تو کوئی نیا فیصلہ سامنے آئے، البتہ اتنی بات تو یقینی ہے کہ اسپیکر کے اس فیصلہ سے جمہوریت کمزور ہوئی ہے اور آمرانہ قیادت کو عروجِ ملاہے۔