✍️مفتی ناصر الدین مظاہری
__________________
ایک دفعہ میں نے پہلے پہل آملیٹ بنانے کی ٹھانی، دماغ میں یہ تھا کہ آملیٹ بنانا تو بہت آسان ہے، یہی سوچ میری غلطی تھی، میں آملیٹ بنایا لیکن جب آملیٹ کو پلیٹ میں نکالنا چاہا تو نکلنے کے لیے تیار نہیں، یقین مانیں چمچہ سے کھرچ کھرچ کر پلیٹ میں نکالا اور جیسے ہی ایک لقمہ کھایا تو غلطی کا احساس ہوا کہ کچھ کمی رہ گئی ہے، کمی کا سراغ لگایا تو مجھے بتایا گیا کہ تم نے تیل ہی نہیں ڈالا ہے جو آملیٹ کو اہم اور بنیادی جزء ہے۔
میں نے اپنے والد ماجد کو بارہا دیکھا کہ وہ گائے کے دو نوعمر بچوں کی گردن پر جوا رکھتے اور خواہ مخواہ انھیں کھیت میں ہانکتے، میں نے پوچھا کہ اس کا کیا فائدہ ہوگا؟ فرمایا کہ بغیر تربیت اور ٹریننگ کے یہ کسی بھی کام کے نہیں ہیں کتنے ہی بڑے ہوجائیں، کوئی خریدے گا بھی نہیں جب تک خریدار کو یقین نہ ہوجائے کہ ہاں یہ صحیح طورپر کام کرلیتے ہیں۔
یہی حال ہمارے مدارس دینیہ سے فارغین کا ہے، مدارس سے بڑی تعداد میں طلبہ سند فراغت حاصل کرکے کرۂ ارض پر بکھر جاتے ہیں، ان کی حالت بالکل نئی شادی شدہ کنواری دلہن جیسی ہوتی ہے، انھوں نے صرف ،نحو، فقہ، اصول ، حدیث، اصول حدیث، منطق، فلسفہ، فصاحت، بلاغت، معانی، مضامین، ہیئت، لغت، ادب، تاریخ، تفسیر، اصول تفسیر، مناظرہ، سیرت، سلوک، عقائد، اخلاق وغیرہ سب کچھ پڑھا ہے اور اپنے اساتذہ کو پڑھاتے دیکھا بھی ہےلیکن عملی دنیا بالکل الگ ہوتی ہے، یہاں آپ کو حقیقت میں جو تجربات حاصل ہوتے ہیں وہ زمانہ طالب علمی کے دوران بالکل نہیں ہوسکتے، اسی لئے کہاجاتا ہے کہ انسان صحیح معنی میں پڑھتا ہی تب ہے جب وہ پڑھانا شروع کرتا ہے۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو طلبہ تعلیم کے دوران تکرار و مذاکرہ کراتے ہیں ان کو مدراس والے بہت جلد تدریس کے لئے قبول کرلیتے ہیں کیونکہ انھیں پڑھنے کے ساتھ پڑھانے کا بھی تجربہ ہوچکاہے بھلے ہی تکرار کے ذریعہ ہوا ہو۔ میں نے تو یہ بھی دیکھا ہے کہ بعض طلبہ کا انداز تکرار اور طرز تفہیم اپنے استاذ سے بھی اچھا ہوجاتا ہے ۔
ہمارے یہ فاضلین کرام صرف مدارس میں پڑھتے ہیں انھیں پڑھانے کا موقع نہیں ملتا ہے اس لئے ان کے اندر خود اعتمادی نہیں پیدا ہوپاتی ہے، جو ہمت اور جرأت ان کے اندر ہونی چاہئے وہ بھی نہیں ہوتی ہے۔
اگر مدارس میں کم ازکم تکرار و مذاکرہ کا کوئی ایسا نظام بن جائے کہ وقتا فوقتا سب کو تکرار کرانی ضروری ہوجائے تو بھی خود اعتمادی پیدا ہوسکتی ہے۔
بعض طلبہ خود ہی دلچسپی نہیں لیتے نہ تکرار میں، نہ تقریر میں، نہ تحریر میں، نتیجہ یہ ہوتاہے کہ یہ کھیپ عوام کے درمیان جانے میں ہچکچاتی ہے، منبر سے دور بھاگتی ہے، اسٹیج سے کتراتی ہے، مسند درس سے گھبراتی ہے، کل ملاکر یہ کھیپ زمین کا بوجھ بن جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کھیپ کہیں کھپ نہیں سکتی، ہوتا یہ ہے کہ ہماری توجہ اور ہمارا دھیان دسترخوان کی معیاری چیزوں پر مرکوز ہوتی ہے تو کم تر چیزیں جوں کی توں رہ جاتی ہیں۔
اساتذہ صرف پڑھانے تک محدود ہوگئے، مدارس نے سند فراغت دینے کو اپنا فرض سمجھا تو پھر یہ بڑی تعداد تربیت اور ٹریننگ کے بغیر عضو معطل بن گئے۔
اب ہر مدرسہ ہر ادارہ تجربہ بھی مانگتا ہے تو پھر یہ بڑی تعداد بالکل شروع میں تجربہ کہاں سے لائے؟ اس کے لئے دارالعلوم دیوبند نے ایک بہت عمدہ کام شروع کیا تھا جس کانام تدریب المعلمین رکھاگیا تھا، چند سال پہلے کئی جگہوں پر تدریب المعلمین کے نام سے عمدہ پروگرام بھی ہوئے تھے جن کا بہترین فائدہ بھی ہوا تھا ضرورت ہے کہ اس سلسلہ کو بڑھایا جائے۔
قدیم فضلاء جو کسی بھی فن یا کتاب میں درک ورسوخ رکھتے ہیں انھیں چاہئے کہ جدید فضلاء کو وقت دیں، ان کو تعلیم کا طریقہ بتائیں، تدریس کے گر اور حکمتیں سجھائیں، قدیم فضلاء ایسے نئے فارغین کو نظر میں رکھیں جو تدریس وتعلیم کا مزاج اور ذوق رکھتے ہیں، فراغت سے پہلے ہی ان کا ذہن بنائیں کہ تمہیں کس طرح پڑھانا ہے کیا پڑھانا ہے۔ میرے استاذ حضرت مولانا اطہر حسین اجراڑوی جب مظاہرعلوم میں نئے نئے لگے تو ان کے استاذ حضرت مولانا محمد اسعداللہ نے پوچھا کہ کیا چاہتے ہو؟ مولانا نے عرض کیا کہ ابتدائی کتابیں پڑھانا چاہتا ہوں یہ سنتے ہی حضرت نے شاباشی فرمائی اور دعاؤں سے نوازا۔
بہرحال قدیم فضلاء جدید فارغین کی رہنمائی کو اپنا فرض سمجھیں اور جدید فضلاء قدیم فضلاء کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں تو یہ مٹی اچھی خاصی زرخیز ثابت ہوسکتی ہے۔