جمہوریت
✍️ ڈاکٹر محمد اکرم ندوی
آکسفورڈ
______________
جمہوريت كا نام آتے ہى بے ساخته زبانوں پر علامه اقبال كا يه شعر جارى ہو جاتا ہے:
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
يه تنقيد اس طرح دہرائى گئى كه لوگوں نے آنكهـ بند كركے اس پر يقين كر ليا، حقيقت يه ہے كه اس تنقيد ميں سچائى بہت كم ہے، جمہوريت كو نمائندگان عوام كى حكومت ضرور كہا جاتا ہے، پر اس كا مطلب يه ہرگز نہيں ہے كه اس نظام كے تحت كام كرنے والے مصالح عامه كے سارے ادارے اور كار وبار رائے شمارى سے چلتے ہيں، ان ميں بندے صرف گنے جاتے ہوں، بلكه جمہوريت كى اخص خصوصيت يہى ہے كه يہاں بندے تولے جاتے ہيں، خدمات كا تعين علمى وعملى صلاحيت وقابليت پر ہوتا ہے، تعليمى اداروں ميں اساتذه ومنتظمين كى تقررى، عدالتوں ميں وكيلوں اور ججوں كا انتخاب، طبى، معاشى وتجارتى عملوں، فوجيوں اور سپاہيوں كى تعيناتى، غرض ہر شعبه اہليت ولياقت كى بنياد پر چلتا ہے۔
جہوريت قدر نہيں:
يه بات ذہن ميں رہے كه جمہوريت بذات خود كوئى قدر (value) نہيں، تعليم، عدل ومساوات، امن وتحفظ، معاشى خوشحالى وغيره قدريں ہيں، جہوريت ان كے حصول كا وسيله ہے، جيسے خلافت، بادشاہت، وغيره وسائل ہيں، جمہوريت كا اسى طرح استحصال ہو سكتا ہے جس طرح خلافت وبادشاہت كا استحصال ہوتا رہا ہے۔
طاقت كا عدم ارتكاز:
ملوكيانه اور جاگير دارانه نظاموں كى خرابيوں سے بچنے كے لئے جمہوريت كا نظريه پيش كيا گيا، جمہورى نظام ميں بهى وه سارے مفاسد ونقائص پيدا ہو سكتے ہيں جن كے مداوا كے لئے اسے متعارف كرايا گيا تها، اس لئے شروع سے اس كى كوشش كى گئى كه كسى ايكـ شخص يا ايكـ ہيكل تنظيمى ميں طاقت كا ارتكاز نه ہو، اور طاقت كو تين شعبوں مقننه، منفذه اور عدليه ميں تقسيم كيا گيا۔
جمہورى نظام ميں اصل طاقت كس كے پاس ہوتى ہے؟ يه ايكـ راز اور "سر يخفى” ہے، طاقت كا يه عدم ارتكاز جمہوريت كا سب سے بڑا امتياز ہے۔
جمہوريت كى كمزوريوں كى اصلاح:
اوپر ذكر كيا گيا ہے كه جمہوريت ميں طاقت مقننه، منفذه اور عدليه ميں منقسم ہوتى ہے، مقننه كا انتخاب عوام كے ذريعه ہوتا ہے، اس انتخاب ميں ہر شہرى كا ووٹ يكساں اہميت كا حاصل ہوتا ہے، اس ميں شكـ نہيں كه يه ايكـ نقص ہے، اور يہى وه نقص ہے جس پر اقبال نے تنقيد كى ہے، تاہم ايسا نہيں ہے كه يه نقص اس نظام كے ماہرين پر مخفى رہا ہو، بلكه وه اس سے اچهى طرح واقف ہيں، اور اسے دور كرنے كى انہوں نے مختلف تدابير اختيار كى ہيں:
عوام كے نمائندگان قانون سازى كا عمل كرتے ہيں، ظاہر ہے كه يه نمائندگان قانون سازى كے ماہر نہيں ہوتے، اور يه ڈر ہے كه يه لوگ ايسے قوانين نه بنائيں جو ملكـ ووطن كے لئے نقصان ده ثابت ہوں، اس نقصان كى تلافى كے لئے ايكـ اور ہيكل كى تشكيل كى گئى، جسے ايوان بالا كہا جاتا ہے، جبكه نمائندگان عوام كو ايوان زيريں كہا جاتا ہے۔
ايوان بالا كے ممبران ملكـ كے تمام بنيادى اداروں كى نمائندگى كرتے ہيں، ان ميں قانون كے ماہرين، معاشيات كے ماہرين، تعليم كے ماہرين، اور ملكـ ووطن كى قدروں اور روايتوں كے محافظين ہوتے ہيں۔
ايوان زيريں ميں قانون سازى سے پہلے بل پيش ہوتا ہے، اس كے فوائد تفصيل سے پيش كئے جاتے ہيں، ايوان زيريں كے ممبران كو موقع ديا جاتا ہے كه وه ان تفصيلات كا مطالعه كريں، ان كى باريكيوں كو ماہرين سے سمجهيں، پهر اس كى موافقت يا مخالفت كريں، اس مرحله كے بعد بل پر بحث ہوتى ہے، ہر ايكـ كو اپنے اپنے دلائل پيش كرنے كا موقع ہوتا ہے، پهر اس پر ووٹنگ ہوتى ہے۔
اس كے بعد يه بل ايوان بالا ميں پيش كيا جاتا ہے، ايوان بالا چونكه ماہرين پر مشتمل ہوتا ہے اس لئے ان كى رائے كو وقعت ہوتى ہے، وه اس پر غور كرتے ہيں، اور اگر انہيں يقين ہوجاتا ہے كه وه بل ملكـ ووطن كے حق ميں مفيد ہے تو اسے منظورى ديديتے ہيں، ورنه رد كركے اسے ايوان زيريں ميں دوباره بهيج ديتے ہيں، ايوان زيريں ان اعتراضات كى روشنى ميں دو باره اس بل پر غور كرتا ہے، اگر اسے وه اعتراضات تشفى بخش معلوم ہوتے ہيں تو بل كو وہيں پر ختم كرديا جاتا ہے، ورنه اسى طرح يا كچه ترميم كے بعد اس بل پر دو باره ايوان زيريں كے ممبران كى رائے لى جاتى ہے، اگر وه اسے اكثريت سے منظور كرتے ہيں تو اسے دو باره ايوان بالا ميں پيش كيا جاتا ہے، ايوان بالا كو دو بار بل واپس كرنے كا اختيار ہوتا ہے، تيسرى بار اسے ہر حال ميں منظور كرنا ہوتا ہے، پهر بل سربراه مملكت (بادشاه يا صدر) كے دستخط سے قانون بن جاتا ہے۔
اسلام اور جمہوريت:
جمہوريت كا ايكـ پہلو اسلام كے معارض ہے، اگر اس ميں ترميم كردى جائے تو جمہوريت اسلام كے لئے قابل قبول ہو سكتى ہے، اس پہلو كى تشريح يه ہے:
اسلام ميں چونكه قانون سازى صرف الله كا حق ہے، اس لئے قانون بنانے كا مجاز نه كوئى فرد ہو سكتا ہے اور نه كوئى اداره، ايوان زيريں كو دين كے مجمع عليه اور مختلف فيه امور ميں تفريق كرنى ہوگى، مختلف فيه معاملات ميں ايوان زيريں اپنا كردار ادا كرسكتا ہے، اور وه كردار يه ہے كه ايوان زيريں كے ممبران كسى ايكـ پہلو كو ترجيح دينے پر غور كريں، اسى طرح ايوان زيريں ان انتظامى معاملات پر قانون بنا سكتا ہے جن كا تعلق مصالح عامه سے ہے۔
اگر ايوان زيريں كى صلاحيت محدود كردى جائے تو جمہورى نظام كى قباحت باقى نہيں رہے گى، ايوان زيريں كى صلاحيت كو محدود ركهنے كے لئے ضرورى ہے كه عدليه كو مكمل آزادى وخود مختارى حاصل ہو، كسى كو بهى اس ميں دخل اندازى كى اجازت نه ہو، عدليه كى خود مختارى اس كى ضامن ہوگى كه قرآن وسنت كى بالادستى قائم رہے، اور يہى اسلامى نظام كى بنياد ہے۔
ايوان بالا كے نمائندگان ميں دوسرے شعبوں كے ماہرين كے ساتهـ علماء، فقہاء اور محدثين كى ايكـ بڑى تعداد لازمى قرار ديدى جائے، اس ايوان بالا كو اگر شورى كا نام ديديا جائے تو نظام اسلامى كى ياد دہانى ہوتى رہے گى۔
مزيد برآں يه بهى كيا جا سكتا ہے كه عوامى نمائندگاں كے لئے بنيادى دينى ودنيوى تعليم كى قيد لگادى جائے، تعليم كى قيد مغرب ميں عملا موجود ہے۔
خلاصه:
حاصل يه ہے كه جمہوريت ميں صرف ايوان زيريں عوام كے انتخاب سے وجود ميں آتا ہے، ملكـ كے ديگر تمام شعبے اور ادارے عوام كے دائرۂ انتخاب سے باہر ہوتے ہيں، ان ميں ہر تقررى اہليت كى بنياد پر ہوتى ہے۔
جمہوريت بذات خود نه اسلامى ہے اور نه غير اسلامى، اس كى حيثيت وسائل كى ہے مقصد كى نہيں، اچهے مقاصد كے لئے اسے استعمال كيا جا سكتا ہے جس طرح يه برے مقاصد كے لئے استعمال ہوتى ہے۔