از: معصوم مراد آبادی
_______________
آج منفرد لب ولہجے کے شاعر ڈاکٹر کلیم عاجز کا یوم وفات ہے۔ انھوں نے 14فروری 2015 کی رات 95 برس کی عمر میں آخری سانس لی۔ کلیم عاجز کی شاعری اور شخصیت کا شہرہ دنیا کے ہر اُس گوشے میں تھا، جہاں اردو پڑھنے، لکھنے اور بولنے والے موجود ہیں۔ برصغیر ہندو پاک کے علاوہ خلیجی ممالک اور یوروپ و امریکہ کے نہ جانے کتنے شہروں میں کلیم عاجز کا والہانہ استقبال ہوا اور انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ انتہائی نرم و نازک خدو خال والے کلیم عاجز محض اپنی خداداد شاعرانہ صلاحیتوں کے سبب ہی چہار دانگ عالم میں مشہور نہیں تھے بلکہ ان کی شخصیت، کردار، مزاج کی نرمی اور روحانی اکتسابات بھی لوگوں کو متاثر کرتے تھے۔ جو کوئی ان سے ایک بار ملتا وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔ عام طور پر ہمارے شاعروں کو جب شہرت اور مقبولیت حاصل ہوتی ہے تو زمین سے ان کا رشتہ کمزور ہونے لگتا ہے۔ لیکن کلیم عاجز کی تربیت جن ہاتھوں میں ہوئی تھی، انہوں نے ان کے اندر دنیا کے ایک عارضی پناہ گاہ ہونے کا تصور اتنا مضبوط کردیا تھا کہ بے پناہ مقبولیت اور ہر دلعزیزی کے باوجود کلیم عاجز زمین سے وابستہ رہے اور اسی کا پیوند بھی ہوئے۔ ان میں کبھی کوئی تمکنت، نخوت اور نرگسیت پیدا نہیں ہوئی بلکہ وہ اپنے نام کے مطابق عاجزی اور انکساری کا پیکر بنے رہے۔ دنیاوی اعزازات اور کامیابیاں کبھی ان کے لئے فخر کی علامت نہیں رہیں۔ کلیم عاجز جب پروفیسر تھے تو اس وقت بھی انہوں نے اپنے نام کے ساتھ یہ لاحقہ استعمال نہیں کیا۔ جب کہ زندگی میں پروفیسر بننا لوگوں کی معراج ہوتی ہے اور وہ تمام عمر اس ’اعزاز‘ کو اپنے نام کا حصہ بنائے رکھتے ہیں۔ حکومت نے ادبی خدمات کے عوض انہیں ’پدم شری‘کے اعزاز سے سرفراز کیا لیکن انہوں نے کبھی اپنے نام کے ساتھ ’پدم شری‘ نہیں لکھا۔ حد تو یہ ہے کہ تو وہ یہ اعزاز لینے دہلی نہیں آئے بلکہ حکومت کے کارندوں نے یہ اعزاز ان کے گھر تک پہنچایا۔ وہ نمود و نمائش اور فخر و غرور کے بجائے شائستگی اور سلیقہ مندی سے علاقہ رکھتے تھے۔ ان کی شخصیت لہو و لعب کی بجائے غم کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی۔ پروفیسر محسن عثمانی کے بقول:
”ان کی شخصیت غم کے ایک سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی، غم انسان کی شخصیت میں ایک گداز پیدا کردیتا ہے، جس طرح موم حرارت پاکر پگھلتا اور پھیلتا ہے، اس طرح سے انسان کا دل غم اور مسلسل غم کی حرارت سے پھیل کر بڑا ہوجاتا ہے، اتنا بڑا ہوجاتا ہے جتنا بڑا کلیم عاجز کا دل تھا۔ کلیم صاحب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے غم سے ایک پورا غم خانہ ایک پورا ایوان غم تعمیر کرڈالا ہے۔ جو شخص ان کا کلام پڑھتا ہے، سوچنے لگتا ہے کہ یہ غم کا کیسا کارخانہ ہے، جہاں سے غزلیں ڈھل ڈھل کر نکلتی ہیں۔“
(’کلیم احمد عاجز کی چند خاص باتیں‘ مطبوعہ ’جدید خبر‘، 24فروری، 2015)
تقسیم وطن کے سانحے نے ان کی ذاتی زندگی پر غم کا پہاڑ توڑا۔ 1947 کے خونریز ہنگاموں کے دوران ان کی والدہ اور بہن کے علاوہ کئی عزیز و اقارب کی دردناک ہلاکت ایک ایسا سانحہ تھا، جو انہیں پاش پاش کرسکتا تھا۔ لیکن انہوں نے اس سانحے کو شاعری کے پرچم میں چھپانے کی کوشش کی۔ انہوں نے اس پہاڑ جیسے غم کو اپنے دل پر جھیلا اور بہترین شاعری تخلیق کی۔ بقول خود:
زبانِ درد بہت کم سمجھنے والے ہیں
یہاں نہ ہر کس و ناکس سے گفتگو رکھیو
لٹا نہ دیجیو سب غم کی رنگ رلیوں میں
بچا کے دل کے پیالے میں کچھ لہو رکھیو
ڈاکٹر کلیم عاجز کے فنی کمالات اور شاعرانہ عظمت کا اعتراف ہر اس دانشور نے کیا، جسے شعرو ادب کے کھرا اور کھوٹا ہونے کی تمیز تھی۔ ان کی غزل کو ڈاکٹر کلیم الدین احمد جیسے ٹیڑھے نقاد نے خراج تحسین پیش کیا۔ وہی کلیم الدین احمد جو غزل کو اردو شاعری کی نیم وحشی صنف سخن قرار دے چکے تھے۔ کلیم الدین احمد کا تبصرہ ملاحظہ ہو:
”ان کی غزلوں میں دکھ بھروں کی حکایتیں اور دل جلوں کی کہانیاں ہیں اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کی غزلوں میں انمل اور بے جوڑ باتیں نہ آنے پائیں۔ اگر وہ تسلسل کی فنی ضرورت اور اہمیت کو سمجھیں تو وہ مسلسل غزل لکھ سکتے ہیں اور ان کی غزل دکھ بھروں کی حکایت اور دل جلوں کی کہانی بن سکتی ہے۔ سادگی و پرکاری، بے خودی و ہشیاری صرف شاعری ہی نہیں فن کا ایک نکتہ بھی ہے اور کلیم عاجز اس نکتہ سے واقف ہیں۔“
(وہ جو شاعری کا سبب ہوا، صفحہ: 31-32)
ڈاکٹر کلیم عاجز کی شاعری پر سب سے زیادہ اثر میر تقی میر کا تھا۔ مشہور ادیب کنہیا لال کپور کا تاثر یہ تھا کہ ”کلیم عاجز دو جدید کے پہلے شاعر ہیں، جنہیں میر کا انداز نصیب ہوا ہے۔ ان کی غزلوں کے تیور نہ صرف میر تقی میر کی بہترین غزلوں کی یاد دلاتے ہیں بلکہ ہمیں اس سوز وگداز سے بھی روشناس کراتے ہیں جو میر کا خاص حصہ تھا۔“ خود کلیم عاجز نے کنہیا لال کپور کے ان خیالات کی تصدیق اپنے اس شعر میں کی ہے ؎
اس قدر سوز کہاں اور کسی ساز میں ہے
کون یہ نغمہ سرا میر کے انداز میں ہے
ڈاکٹر کلیم عاجز اردو شاعری میں میر کی شعری روایت کے سب سے بڑے امین ہیں۔ انہوں نے اردو کی کلاسیکی شاعری میں بیش بہا اضافہ کیا اور اپنی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں سے ہمارے شعری سرمائے کو مالا مال کیا۔
پروفیسر کنہیا لال کپور نے کئی مثالوں سے میر کی زبان و بیان کی یکسانیت کی جانب اشارے کئے لیکن خود کلیم عاجز میر تقی میر کی اس پیروی کے بارے میں کچھ یوں کہتے ہیں:
”میری زندگی میں خیال، بات اور شعر میں کوئی بعد یا فرق نہیں ہے۔ میں جس طرح جن الفاظ میں سوچتا ہوں، ان ہی الفاظ میں باتیں کرتا ہوں اور جن الفاظ میں باتیں کرتا ہوں، ان ہی لفظوں میں شعر کہتا ہوں۔فرق صرف ترتیب و ترکیب کا ہوتا ہے۔ اس ترتیب و ترکیب کو میں نے کتابوں سے حاصل نہیں کیا۔ یہ میرا اپنا ہے اور کسی کے مشورے سے بھی نہیں اپنایا گیا ہے۔ یہ میر کی پیروی نہیں۔ میں پیرو کسی کا نہیں …… اگر پیروی میرے مزاج میں ہوتی تو بہ آسانی غالب کی پیروی کرسکتا ہوں لیکن اتباع میری خمیر فطرت کے خلاف ہے۔ میر سے کسی قدر مشابہت ہے۔ یہ مشابہت فن سے نہیں زندگی سے آئی ہے، جس کا شعوری احساس بہت بعد میں مجھے ہوا۔“ (وہ جو شاعری کا سبب ہوا۔ صفحہ: 173-174)
کلیم عاجز کو شعر گوئی کا جو سلیقہ تھا، وہ ان کے ہم عصر بہت کم شعرا کو نصیب ہوا۔ وسیع مطالعے اور گہرے مشاہدے نے ان کی شاعری میں ایسے موتی پرو ئے تھے کہ ہر شعر ایک واقعہ کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ان کی غزلوں میں ترتیب خیال بھی ہے اور حسن کلام بھی۔ ان کے اشعار پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سامنے بیٹھے ہوئے گفتگو کررہے ہیں۔ ان کی گفتگو میں تصنع یا بناوٹ کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔ ان کی شاعرانہ عظمت کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ فراق گورکھپوری ان کے اس حد تک گرویدہ تھے کہ ان کا کلام سن کر خود اپنا کلام بھول گئے تھے۔ کلکتہ میں بستر علالت سے 16نومبر 1975 کو رگھو پتی سہائے فراق گورکھپوری نے ڈاکٹر کلیم عاجز سے متعلق لکھا تھا کہ:
”میں اپنی زندگی کی اہم خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ مجھے جناب کلیم عاجز صاحب کا کلام خود ان کے منہ سے سننے کے موقعے ملے، اب تک لوگوں کی شاعری پڑھ کر یا سن کر پسندیدگی اور کبھی کبھی قدر شناسی کے جذبات میرے اندر پیدا ہوتے رہے لیکن جب میں نے کلیم عاجز صاحب کا کلام سنا تو شاعر اور اس کے کلام پر مجھے ٹوٹ کر پیار آیا اور ہم آہنگی، محبت اور ناقابل برداشت خوشی کے جذبات میرے اندر پیدا ہوگئے۔ ان کا کلام مجھے اتنا پسند آیا کہ مجھے تکلیف سی ہونے لگی اور کلیم عاجز صاحب پر غصہ آنے لگا کہ یہ کیوں اتنا اچھا کہتے ہیں۔ ان کے اس جرم اور قصور کیلئے میں انہیں کبھی معاف نہیں کرسکتا۔ اتنی دھلی ہوئی زبان، یہ گھلاوٹ، لب ولہجہ کا یہ جادو جو صرف انتہائی خلوص سے پیدا ہوسکتا ہے، اس سے پہلے مجھے کبھی اس موجودہ صدی میں دیکھنے یا سننے کو نہیں ملا تھا۔ میں ان کا کلام سن کو خود اپنا کلام بھول گیا۔“
(’کلیم احمد عاجز: وہ ایک شاخ نہال غم‘، صفحہ آخر)
ڈاکٹر کلیم عاجز کے انتقال سے کوئی تین ماہ قبل ان کے اعزاز میں حیدر آباد دکن میں ایک تقریب برپا کی گئی۔ کلیم عاجز صاحب اپنی تمام تر جسمانی نقاہت کے باوجود وہاں تشریف لے گئے۔ راقم الحروف کو اس تقریب میں ڈاکٹر کلیم عاجز کے تعلق سے ایک مضمون پڑھنا تھا لیکن بوجوہ میں حیدر آباد نہیں جاسکا۔ اس تقریب میں کلیم عاجز صاحب کے انتہائی قریبی پروفیسر محسن عثمانی ندوی کی مرتب کردہ کتاب ”کلیم احمد عاجز، وہ ایک شاخ نہال غم“ کا اجراء عمل میں آیا۔ تقریباً تین سو صفحات پر مشتمل اس خوبصورت کتاب میں کلیم عاجز صاحب کی شاعری کا پس منظر بھی ہے اور ان کی تمام کتابوں کا تعارف بھی۔ کتاب میں پچیس سے زیادہ مشہور شعرا، ادبا، ناقدین اور اہل قلم کے مضامین ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کتاب کے آخری حصے میں ان کی کچھ غیر مطبوعہ غزلیں شامل ہیں، جو پہلی بار منظر عام پر آئی ہیں۔ یوں تو کلیم عاجز صاحب کے سینکڑوں اشعار لوگوں کو ازبر ہیں لیکن یہاں ان کا کچھ تازہ کلام حاضر ہے:
میری تصویر ترے پاس ہے، دیکھ اور بتا
جب تجھے مجھ سے محبت تھی تو کیسا میں تھا
قرۃ العین نے گھر بیٹھے کہانی لکھ دی
حالانکہ آگ کے دریا سے جو گزرا میں تھا
۔_________
جب سے چوٹ لگی ہے دل پر، جان کو ہارے پھرتے ہیں
شہروں شہروں، گلیوں گلیوں مارے مارے پھرتے ہیں
عاجزؔ صاحب دیوانے ہیں شعرو سخن کیا جانیں
دکھڑا گاتے، گیت سناتے، رات گزارے پھرتے ہیں
۔_________
جھولی کی بھی کیا حاجت ہم جیسے فقیروں کو
ایک ہاتھ سے پانا ہے، ایک ہاتھ سے کھونا ہے
بھٹی میں محبت کی دل جھونک کے بیٹھا ہوں
جل جائے تو مٹی ہے، گل جائے تو سونا ہے
۔_________
چوٹ جب دل کو لگی، میں نے غزل کہہ ڈالی
آئینہ ٹوٹا تو شور آئینہ خانے سے اٹھا
ساتھ عاجزؔ کے گیا سوز سخن ساز سخن
پھر کوئی ایسا غزل گو نہ زمانے سے اٹھا
۔_________
ایک دکانِ وفا بھی نہیں سنبھلی تم سے
ہم تو بازار کا بازار سنبھالے ہوئے ہیں
ڈاکٹر کلیم عاجز کو شاعری میں جو کمال حاصل تھا، وہی کمال انہیں نثر میں بھی تھا۔ وہ شاعری کی طرح ہی بڑی روانی سے نثر لکھتے تھے۔ ان کی آپ بیتی ’جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی‘ اور سفر نامہ حجازاس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کلیم عاجز صاحب کی علمی، ادبی اور شاعرانہ خوبیوں سے پوری دنیا واقف ہے لیکن ان کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو روحانی اکتسابات سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ ایک ایسے مشن سے وابستہ تھے جو بندگان خدا کو مالک حقیقی سے جوڑنے کا مشن ہے۔ انہیں اس مشن سے جوڑنے کا کام مخدومی مولانا افتخار فریدی مرحوم نے کیا تھا جو میرے آبائی وطن مرادآباد سے تعلق رکھتے تھے۔ راقم الحروف کی ذہنی تربیت ان ہی کے زیر سایہ ہوئی۔ میں نے بارہا ان کی زبانی ڈاکٹر کلیم عاجز کا تذکرہ سنا اور بچپن سے ہی ان کا گرویدہ ہوگیا۔ مولانا افتخاری فریدی کے انتقال کے بعد ان کی شخصیت اور کارناموں پر ایک کتاب کی صورت گری نے مجھے ڈاکٹر کلیم عاجز کے در دولت تک پہنچایا۔ اس کتاب کے لئے ان تمام لوگوں سے مضامین قلم بند کروائے، جو مولانا افتخار فریدی سے متعلق تھے۔ ان میں سے سب سے جلی نام ڈاکٹر کلیم عاجز کا تھا لیکن وہ اپنی عدیم الفرصتی اور مسلسل اسفار کی وجہ سے مضمون نہیں لکھ پارہے تھے۔ یہ کتاب ڈاکٹر کلیم عاجز کے مضمون کے بغیر ادھوری رہتی، اس لئے مجھے تقریباً ایک سال ان کے مضمون کا انتظار کرنا پڑا۔ نہایت عجلت میں ڈاکٹر کلیم عاجز نے میری گزار ش پر سن 2003 میں جو مضمون قلم بند کیا، اس کے ساتھ یہ خط بھی تھا۔
”جناب معصوم مرادآبادی صاحب! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
میں یہ مختصر تحریر نہایت عجلت میں سرسری یاد داشتوں پر زیادہ زور دئیے بغیر اور ان کی آخر کی چند تالیفات سے استفادہ کئے بغیر لکھ رہا ہوں اور لکھ کر آپ کو بھیج رہا ہوں۔ اس پر نظر ثانی بھی نہیں کرسکا ہوں کہ اس کی بھی فرصت نہیں اور فرصت ہو بھی تو اپنی فرو گزاشتیں خود کو نظر نہیں آتیں۔ آپ ضرور اچھی طرح دیکھ لیں، جہاں کچھ کمی بیشی ہو اپنی بصیرت سے اس کی خانہ پری کرلیں، مگر ہاں کوئی تبدیلی ہرگز نہ کریں۔ میں کوشش کروں گا کہ اس کی فوٹو کاپی بنوالوں، ورنہ آپ بنوا کر اصل چاہے نقل مجھے بھجوادیں۔ دعا گو کلیم احمد عاجز۔“
(بحوالہ: مولانا افتخار فریدی،حیات و خدمات، صفحہ: 27)
ڈاکٹر کلیم عاجز نے انتہائی عجلت کے باوجود اس کتاب کے لئے 20صفحات کا جو مضمون قلم بند کیا ہے، اس میں اپنا دل نکال کر رکھ دیا ہے۔ یہ مضمون کلیم عاجز کی روحانی زندگی کی گرہیں کھولتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
”پھر افتخار فریدی صاحب نے مجھے پکڑ لیا۔ عشاء کی نماز کے بعد انہوں نے دل کھول کر دکھ دیا اور میرے دل کی چنگا ری کو ہوا مل گئی۔ دوسرے دن سے ایک اور فقیر کا اضافہ ہوگیا۔ میں دس دن کے لئے آسنسول اور کلکتہ کے تبلیغی سفر میں نکلا تو سب سے نمایاں انقلاب یہ ہوا کہ میری زندگی کے اندرکی ساری ایٹھن نکل گئی۔ پورے ملک ہندوستان کا ایک معروف شاعر ہوں، ادیب ہوں، خوش گلو اور خوش فکر ہوں۔ اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک اول رہا ہوں، ہر ڈگری کے ساتھ ایک دو سونے کا تمغہ حاصل کرچکا ہوں۔ رئیس کی اولاد ہوں، گرچہ یہ سب فضیلت عمل میں نہ تھی لیکن ذہن میں تو تھی۔ عمل میں انکسار، تواضع، فروتنی کی خاندانی تربیت رہی جو رچ بس گئی تھی۔ کبھی کسی مجلس میں آگے نہیں بیٹھا۔ خود کو کبھی نمایاں نہیں کیا۔ ہمیشہ صف آخر میں نشست رکھی مگر یہ فضیلتیں ذہن میں تھیں، تو دس روز کے سفر میں یہ سب فضیلتیں مٹی میں مل گئیں اور میں فکری، ذہنی اور کسی حد تک عملی طور پر فقیر بن گیا۔“
(مولانا افتخار فریدی، حیات وخدمات، صفحہ: 33)کسی ادیب فنکار یا شاعر کے بارے میں لکھتے وقت ہم عام طور پر تحریر کا دائرہ، اس کے فن اور ادبی خدمات تک محدود رکھتے ہیں۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ کسی شخص کی ذاتی زندگی یا اعمال کا اس کے فن سے کوئی علاقہ نہیں ہوتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کردار و اطوار کے اعتبار سے ایک بہتر انسان نہیں ہے تو وہ علم و ادب یا شاعری کے حوالے سے سماج کی بہتر خدمت انجام نہیں دے سکتا۔ انسان کا ذاتی کردار اس کے فکرو فن پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کلیم عاجز کی ذاتی زندگی خوف خدا سے عبارت تھی اور انہوں نے اپنی عملی زندگی کا بڑا حصہ روحانی سرگرمیوں میں گزارا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں ناقدین فن وہ اہمیت نہیں دیتے جو دنیاوی لہو و لعب میں مبتلا شاعر وں کو دی جاتی ہے۔ شعر و سخن کی کسوٹی پر ڈاکٹر کلیم عاجز کو پرکھتے وقت ہمیں ان کی پاکیزہ زندگی اور میدان عمل کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ انہوں نے کبھی ان علتوں سے جی نہیں لگایا جو عام طور پر شاعروں کے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کو پڑھتے وقت ہمیں ایک عجیب قسم کا روحانی سکون نصیب ہوتا ہے۔ بقول خود:
میری شاعری میں نہ رقص جام نہ مے کی رنگ فشانیاں
وہی دکھ بھروں کی حکایتیں، وہی دل جلوں کی کہانیاں
آخر میں کلیم عاجز کے بعض ایسے اشعار نقل کئے جاتے ہیں، جو زبان زد خاص و عام ہیں اور اکثر لوگوں کو اس بات کا علم نہیں کہ ان لازوال شعروں کے خالق ڈاکٹر کلیم عاجز ہیں:
دامن پہ کوئی چھینٹ،نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
۔_________
اپنا تو کام ہے کہ جلاتے چلو چراغ
رستے میں خواہ دوست یا دشمن کا گھر ملے
۔_________
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہیے