۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

قومی سیاست کے اہم رکن شفیق الرحمن برق نہیں رہے

از: محمد قمر الزماں ندوی

____________

مشہور سیاسی لیڈر بے باک رہنما، ملی مسائل پر بولنے والے اور
یوپی کے سنبھل سے لوک سبھا ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر شفیق الرحمن برق کا آج بروز منگل 27/ فروری 2024/ کو انتقال ہوگیا۔ کافی دنوں سے ان کی طبیعت ناساز چل رہی تھی۔ انہوں نے مرادآباد کے ایک اسپتال میں آخری سانس لی۔۔ وہ مراد آباد کے ایک نجی اسپتال میں زیر علاج تھے۔ ان کی عمر 94 برس تھی۔ وہ سب سے پرانے رکن اسمبلی مانے جاتے تھے۔
ڈاکٹر شفیق الرحمن برق کی پیدائش 11/ جولائی 1930ء کی ہے ، ان کی اعلیٰ تعلیم ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی آگرہ میں ہوئی تھی۔
ڈاکٹر شفیق الرحمن برق پانچ بار رکن اسمبلی رہ چکے ہیں۔ وہ 1996-98 اور 2004 میں مرادآباد لوک سبھا سیٹ سے سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ تھے۔ 2009 میں وہ بی ایس پی سے اور 2019 میں سنبھل لوک سبھا سیٹ سے ایس پی سے ایم پی تھے۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران، بی جے پی کے پرمیشور لال سینی نے سماجوادی پارٹی کے شفیق الرحمن برق کو 5174 ووٹوں سے شکست دی تھی۔ سماجوادی پارٹی نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے لیے شفیق الرحمان برق کو دوبارہ اپنا امیدوار بنایا تھا۔
سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ شفیق الرحمن برق نے 57 سال قبل اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ ڈاکٹر شفیق الرحمن برق مرحوم سابق وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ سے بہت متاثر تھے اور ان کو اپنا سیاسی گرو سمجھتے تھے۔ ان سے رابطے میں آنے کے بعد ہی انہوں نے اپنی سیاسی دور اور کیرئیر کا آغاز کیا۔ ڈاکٹر برق نے سنبھل میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی تھی، وہ لوگوں میں بہت محبوب اور لوک پریہ تھے۔ وہ ہمیشہ اپنے بیانات کی وجہ سے ہمیشہ سرخیوں میں بھی رہتے تھے۔ وہ اصول پسند سیاست داں تھے۔انہوں نے کبھی بھی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا تھا۔ شفیق الرحمن برق ہی واحد رکن پارلیمنٹ تھے جنہوں نے پارلیمنٹ میں وندے ماترم کی مخالفت کی تھی۔
   وہ منجھے ہوئے صاف گو بے باک نڈر اور تجربہ کار سیاست سیاست داں تھے ، اور اپنے کر و فر سے بھی ایک بڑے سیاست داں معلوم پڑتے تھے، ، شعری و ادبی ذوق بھی رکھتے تھے۔ ایوان میں بھی اپنی تقریروں میں اشعار کا استعمال کرتے تھے۔
مسلمانوں کے ملی اور معاشرتی مسائل پر جب بھی آنچ آتا یا کوئی بل پاس ہوا تو اس پر وہ ضرور بولے اور ملی غیرت و حمیت کا ثبوت دیا ۔
وہ بہت عرصے تک بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر بھی رہے۔
بہر حال ان کے جانے سے میدان سیاست میں خاص طور پر مسلم سیاست میں بڑا خلا ہوا ہے ۔ ان کے صاحب زادے ان کی جانشینی کر رہے ہیں غالبا وہ بھی رکن اسمبلی ہیں ۔
  اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے ، جنت الفردوس میں جگہ دے، سئیات کو حسنات میں بدل دے، اور پسماندگان و وارثین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین

آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزیہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: