اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل
اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل

بھارت کے اس تکثیری سماج کو کبھی دنیا کے لیئے ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا یہاں کی جمہوریت قانون اور دستور کی دنیا مثالیں پیش کرتی تھی لیکن اب وہ ملک کے کسی بھی حصہ میں نظر نہیں آرہی ہے اگر کسی کو نظر آبھی رہی ہے تو صرف اوراق کے دامن پر جو قوانین جو باتیں پڑھنے لکھنے تک اچھی لگتی ہیں اتنی ہی خوب صورت عملی میدان میں بھی نظر آنی چاہیئے ورنہ خواب تو سجانے سے دور ہوجائیں گے بلکہ جو پایا وہ بھی کھوتے رہیں گے اس وطن عزیز کو ہمارے آبا و اجداد نے جس خون جگر سے سینچا ہے وہ کوئی معمولی قربانیاں نہیں تھی لیکن آج کے اس نئے بھارت میں ان قربانیوں کا صلہ ظلم، عدم رواداری،مذہبی تفریق کی شکل میں ملک کے گوشے گوشے میں دستیاب ہے

شکر گزاری کا فلسفہ
شکر گزاری کا فلسفہ

آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ معمولی پریشانیوں یا مسائل پر فوراً ناشکری کرنے لگتے ہیں اور اللہ کی عطا کردہ بڑی نعمتوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ مثلاً کسی کو ذرا سا مالی نقصان ہو جائے تو وہ اللہ کے رزق کو بھول کر شکایت کرنے لگتا ہے، حالانکہ اس کے پاس صحت، گھر اور خاندان جیسی بےشمار نعمتیں موجود ہیں۔ اسی طرح، اگر موسم کسی کے حق میں نہ ہو، جیسے گرمی یا سردی کی شدت، تو لوگ فوراً شکایت کرنے لگتے ہیں، یہ بھول کر کہ اللہ نے ہمیں لباس، رہائش، اور زندگی کی دیگر سہولتوں سے نوازا ہے۔

تنہا سفر کی ممانعت
تنہا سفر کی ممانعت

حالات بدل چکے ہیں، نقل و حمل کے ذرائع ترقی پذیر بلکہ ترقی یافتہ ہو چکے ہیں، انسان کئی کئی دنوں کا سفر اب گھنٹوں میں کر لیتا ہے اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں کر رہا ہے ، سہولتوں کی فراوانی چاروں طرف نظر اتی ہے لیکن اس کے باوجود قول نبی برحق ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بجا ہے اپ کی دوراندیشانہ گفتگو اور اپ کی زبان فیض ترجمان سے نکلے ہوئے الفاظ و کلمات خدائے رحمان و رحیم کی منشا و مراد کے مطابق ہوتے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے

تازہ ترین پوسٹ

تعارف و تبصرہ

"خانوادۂ ہدیٰ کے لعل و گہر” :تعارف و تأثر

زیر نظر کتاب " خانوادۂ ہدیٰ کے لعل و گہر" مولانا مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی استاد جامعہ اسلامیہ شانتا...
Read More
شخصیات

جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی بنیاد میں اعلی حضرت اشرفی میاں کا حصہ

یہ ادارہ ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے مشہور ضلع اعظم گڑھ کے اندر قصبہ مبارک پور میں واقع ہے۔...
Read More
تاریخ و سیر

شاہی جامع مسجد سنبھل: ایک تاریخی جائزہ

تاریخ ماضی کے واقعات کا آئینہ ہوتی ہے ، ہندوستان میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے مابین باہمی رواداری اور...
Read More
تجزیہ و تنقید

گودی میڈیا کا مکروہ چہرہ اور سپریم کورٹ کا ردعمل

جامع مسجد سنبھل تنازع گودی میڈیا کا مکروہ چہرہ اور سپریم کورٹ کا ردعمل ✍ سید سرفراز احمد ________________ اصل...
Read More
تجزیہ و تنقید

احسان فراموشی نہ کریں: بیرسٹر اسد الدین اویسی کی خدمات کا اعتراف ضروری ہے

حال ہی میں بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب کی مالیگاؤں میں کی گئی تقریر کے بعد کچھ حلقوں میں ایک...
Read More

باغ وبہار شخصیت کے مالک :حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی

باغ وبہار شخصیت کے مالک :حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی

رشحات غم : محمد خالد حسین نیموی قاسمی

مولانا محمد  اسلام قاسمی بھی علمی وفکری حلقہ کو سوگوار چھوڑ کر رخصت ہوگئے، ہم سب سے جدا ہو کر کے اللہ کی بارگاہ میں چلے گئے جہاں صرف حسنات ہی کار آمد ہوتے ہیں اور محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے :اذکروا محاسن موتاکم "کے ذریعہ وفات یافتہ افراد کے انھیں حسنات ومحاسن کو یا کرنے اور ذکر کرنے کا حکم فرمایا ہے۔… مولانا اسلام قاسمی کے بعد اب تو صرف ان کی یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں؛ ان کی پر کیف یادوں میں ان کی باغ وبہار شخصیت کی طرح بڑا حسن، بڑی لطافت اور بڑی کشش ہے، اگر ان پرکیف یادوں کو تحریر کا قالب اور  خوبصورت عنوان نہ دیا جائے تو بڑی ناسپاسی کی بات ہوگی… مولانا مرحوم کی ولادت  فروری 1954راجہ بِھیٹا، ضلع دُمکا، بہار(حال جھارکھنڈ)  میں ہوئی. جب کہ طویل علالت کے بعد 69 سال کی عمر میں آپ کی وفات16 جون 2023دیوبند، میں ہوئی. انھوں نے تقریباً چالیس سال دار العلوم وقف دیوبند میں بہ حیثیت استاذ، ومربی، مقالہ نگار وانشاء پرداز خدمات انجام دیں۔

اس عاجز کا رجحان شروع سے ہی عربی زبان وادب کی طرف رہا ہے،جب یہ عاجز 1992 میں دارالعلوم دیوبند پہنچا اس وقت دیوبند کی فضا میں جن شخصیتوں کی ادبیت اور عربیت کا ڈنکا بجا رہا تھا. ان میں پہلا نام تو عربی زبان کے کوہ کن حضرت مولانا وحید الزمان کیرانوی کا تھا، دوسرا نام حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی جب کہ تیسرا نام حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی کا تھا. 1983 میں انھوں نے ایک عربی مجلہ "الثقافہ” کے نام سے نکالنا شروع کیا تھا جو تقریباً دوسال تک جاری رہنے کے بعد بند ہوگیا تھا، البتہ اس کے چند شمارے کسی طرح ہاتھ لگ گئے تھے، جس سے آپ کی عربی زبان وادب پر قادر الکلامی مترشح تھی، اس کے علاوہ عربی ماہنامہ "الداعی” کے صدسالہ نمبر میں آپ نے اپنے جوہر خطاطی کے جو نمونے بکھیرے تھے، اس نے آپ کی عظمت کو پختہ تر کردیا تھا. بایں ہمہ  چونکہ اس میرے عربی ادب کے اسباق حضرت مولانا شوکت علی بستوی سے متعلق تھے. اس لیے اس وقت میرے شیخ الادب تو مولانا بستوی ہی تھے۔

  حضرت علامہ عثمان غنی سابق شیخ الحديث جامعہ مظاہر العلوم سہارنپور کی ایک مجلس میں ایک سلسلہ گفتگو میں دارالعلوم دیوبند کے ماہرِ ادب اساتذہ کا تذکرہ ہونے لگا. اس عاجز نے کہا کہ دارالعلوم دیوبند میں عربی زبان وادب میں سب سے ممتاز حضرت امینی اور دارالعلوم وقف میں سب سے ماہر مولانا اسلام قاسمی ہیں؛ تو علامہ کہنے لگے وقف کے بارے میں تو نہیں پتہ؛ البتہ دارالعلوم دیوبند میں مولانا کیرانوی کے بعد سب سے بڑے ادیب حضرت مولانا ارشد مدنی ہیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ جس وقت دارالعلوم میں شیخ منعم نمر جامع ازھر کی طرف سے مبعوث تھے اور یہاں عربی زبان وادب کی تعلیم دیتے تھے، اس وقت حضرت ہمارے شیخ حضرت مولانا حسین احمد مدنی نے انھیں خصوصی طور پر اپنے صاحب زادے مولانا ارشد مدنی کی عربی تعلیم کے لیے مقرر کیا تھا اور انھیں اپنی تنخواہ سے زیادہ اکرامیہ دیا کرتے تھے. ظاہر ہے اس اہتمام کے ساتھ ان کی عربی تعلیم ہوئی ہے تو مہارت تو ہوگی. اس گفتگو کا تذکرہ جب میں نے حضرت مولانا اسلام قاسمی سے کیا؛ تو کہنے لگے کہ حضرت علامہ کی بات اپنے شیخ زادہ کے بارے میں اپنی جگہ. البتہ میرا تو مشاہدہ یہ ہے کہ برجستہ عربی انشاء پردازی اور عربی صحافت میں فی الحال دیوبند میں مولانا امینی  کا کوئی ہمسر نہیں بلکہ وہ طاق ہیں. میں نے کہا حضرت آپ کی بات سے اتفاق البتہ عربوں کے لہجے میں عربی میں برجستہ گفتگو کے معاملہ میں حضرت مدنی امتیاز رکھتے ہیں۔

مولانا محمد اسلام قاسمی سے اس عاجز کی پہلی ملاقات دارالعلوم کی طالب علمی کے ابتدائی ایام میں ہوئی تھی۔حضرت مولانا اسلام قاسمی صاحب سے یک گونہ مناسبت اس وجہ سے بھی تھی کہ ان کا وطنی تعلق دمکا سے تھا اور دمکا اس وقت تک ریاست بہار سے الگ ہو کر کے ریاست جھارکھنڈ کا حصہ نہیں بنا تھا اس طور پر مولانا اسلام اسلام قاسمی کی وطنی شناخت دمکوی /بہاری کی تھی اور بہار کے طلبہ فطری طور پر  آپ سے  مانوس تھے۔ مولانا کی خدمت میں کبھی کبھار بعد نماز عصر حاضر ہوتی تھی خوب دل کھول کر ملتے تھے حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔آپ کی شخصیت مرنجاں مرنج تھی. ادبی ذوق، نستعلیق شخصیت اور حالات حاضرہ سے آگاہی اس پر مستزاد تھی. آپ کے حوالے سے اس وقت طلبہ میں یہ لطیفہ بھی مشہور تھا کہ وہ یہ واقعہ سناتے ہیں کہ دمکا سے تعلق رکھنے والے کسی سادہ لوح طالب علم نے تلاوت کے دوران اچانک یہ نعرہ بلند کیا کہ میرے ضلع کی نسبت سے تو قرآن کریم میں ایک مستقل سورہ موجود ہے، جب بکمال استعجاب موجود طلبہ نے اس مُغَفّل سے پوچھا کہ کہاں ہے بھائی! تو کہنے لگا یہ دیکھو "سورۃ ھو، مکیۃ…. یہ سن کر طلبہ نے اپنا سر پیٹ لیا۔

بہار سے وابستہ کوئی علمی فکری شخصیت کی اگر دارالعلوم دیوبند میں تشریف آوری ہوتی تھی تو ان کی بالعموم خواہش ہوتی کہ دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ بالخصوص بہار سے تعلق رکھنے والے  اساتذہ سے ملاقات کی جائے. ان اساتذہ کرام کے مابین  دل کھول کر ملنے میں مولانا اسلام قاسمی ممتاز تھے. آپ مجلسی بھی اور ملنسار بھی۔

ایک موقع پر مدرسہ سلیمانیہ سنہولہ ضلع بانکا  کے مہتمم جو شاعر بھی تھے اور نوشہ تخلص کیا کرتے تھے ان کی تشریف آوری ہوئی. موصوف برادرم مولانا سہیل اختر قاسمی (نائب قاضی امارت شرعیہ) کے استاذ تھے ان کے ساتھ ساتھ یہ عاجز بھی مولانا کو لے کر مولانا اسلام قاسمی کی خدمت میں حاضر ہوا۔

مولانا اسلام قاسمی صاحب اڈھیر  عمر کے ہونے کے باوجود حساس بشاش رہتے تھے نوجوان اور فعال معلوم ہوتے تھے، ایسا لگتا تھا کہ بدن میں بجلی کوند رہی ہے، جب کہ ان کی خدمت میں حاضر ہونے والے مہمان نوشہ صاحب کے بال نسبتاً کم عمری میں سفید ہو چکے تھے جسم پر نقاہت کے آثار تھے جب انہوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ حضرت میں آپ کا شاگرد ہوں تو مولانا کہنے لگے آپ تو میرے استاد اور پیرومرشد معلوم ہو رہے ہیں!  اس پر محفل قہقہہ زار بن گئی. اپنے برمحل لطیفوں اور چست کیے جانے والے جملوں سے محفل کو زعفران زار بنانا کوئی ان سے سیکھے. حضرت کثرت سے پان خوری کے عادی تھے۔ کہتے تھے کہ اگر پان خوری نہیں ہوگی تو پھر جان خوری ہوگی.. اور علمی کاموں کے لیے نشاط حاصل نہیں ہوگا۔

پان کے بارے میں بتانے لگے کہ یہ اہل علم کے لیے کبھی اتنا اہم ہوجاتا ہے کہ اس کے بغیر ان کے لیے دس جملے لکھنا بھی مشکل ہوجاتا ہے. اپنے ایک سفر کا واقعہ بتانے لگے کہ فقیہ ملت حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کو ساؤتھ افریقہ مدعو کیا گیا. مسلم پرسنل سے متعلق اسلامی قوانین کی ترتیب کے لیے. حضرت قاضی صاحب کے اس سفر میں؛ میں بھی شامل تھا. حضرت نے خاص تاکید کی کہ جتنا ممکن ہو پان کی وافر مقدار ذخیرہ کرلینا ہے. بہر حال میں نے اپنا اور ان کا پن بٹی بھر لیا. جب ساؤتھ افریقہ کی ثقافتی راجدھانی جوہانسبرگ پہنچے وہاں میزبانوں کے تعاون سے کام شروع ہوا حضرت قاضی صاحب اس قانون کی ترتیب میں میں مستقل مصروف رہے، رات کیا اور دن کیا.. گویا رات دن ایک کر کے کام کررہے تھے. کہ اچانک قاضی صاحب نے مجھے طلب کیا اور کہنے لگے مولانا پان کا ذخیرہ ختم ہوگیا! اب کام آگے بڑھانا مشکل ہے. کچھ اُپائے کرو. میرا بھی ذخیرہ ختم ہوچکا تھا، مجھے بھی پان کی طلب محسوس ہورہی تھی. میں نے منتظمین سے بات کی.. انھوں نے کہا کہ جوہانسبرگ میں تو پان ملنا مشکل ہے لیکن ڈربن سے منگوایا جاسکتا ہے، میں نے کہا جہاں سے منگوانا ممکن ہو جلدی منگوائیں، نہیں تو اسلامی قوانین کی ترتیب کا کام رک جا ئے گا ۔قصہ مختصر یہ کہ کہ منتظمین نے بذریعہ ہوائی جہاز اپنا آدمی ڈربن بھیجا تب جا کر پان خوری کا مسئلہ حل ہوا. اور ماشاء اللہ ترتیب قوانین کا کام بھی تیز رفتاری سے مکمل ہونے لگا۔

جب اس عاجز کا تقرر معین المدرسین کے طور دارالعلوم دیوبند میں ہوا تو حضرت کی خدمت میں استفادے کی غرض سے حاضری ہوتی رہی اور حضرت اپنی قیمتی کلمات سے نوازتے رہے. باضابطہ شرف تلمذ تو حاصل نہ ہوسکا لیکن  یہ عاجز ہمیشہ اپنے کو ان کے زمرۂ تلا مذہ میں سمجھتا رہا. حضرت سے اس عاجز نے کافی متعدد امور میں کافی استفادہ کیا ہے. 

2000 میں  یہ عاجز دیوبند سے حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی  نوراللہ مرقدہٗ  کی دعوت پر دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ کے پہلے صدر مدرس کے طور پر حاضر ہوا اور خدمات تدریس انجام دینے لگا. امارت آنے کے فیصلہ میں حضرت مولانااسلام قاسمی کا مشورہ بھی شامل تھا، مولانا کے حضرت قاضی صاحب سے گہرے مراسم تھے. امارت شرعیہ اور مسلم پرسنل لا بورڈ سے آپ کو بڑی محبت تھی..آپ کا کثرت سے امارت شرعیہ آنا جانا ہوتا تھا. جب بھی وطن تشریف لاتے تھے. امارت شرعیہ بھی آتے.. یہ عاجز  اس بات کی کوشش کرتا تھا کہ حضرت دارالعلوم اسلامیہ بھی تشریف لائیں اور طلبہ و اساتذہ کے درمیان خطاب فرمائیں. حضرت از راہ ذرہ نوازی اس عاجز کی دعوت کو قبول فرماتے تھے. اور ہر سفر میں طلبہ و اساتذہ سے ناصحانہ خطاب فرماتے تھے. جب کہ عوامی خطاب کا رنگ آہنگ بالکل ہوا کرتا تھا.. عوامی تقریر آپ کی بڑی جوشیلی ہوتی تھی۔

سن دو ہزار سات کے اوائل میں یہ عاجز اکابر کے مشورے سے اپنے وطن بیگوسراۓ آگیا اور یہاں  تدریس افتاء اور تعلیم خدمت خلق سے متعلق امور میں مشغول ہوگیا. اس کی اطلاع حضرت مولانااسلام صاحب کو ہوئی تو حضرت مولانااسلام صاحب نے اس پر اپنی بشاشت کا اظہار نہیں کیا؛ بلکہ یک گونہ خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مفتی خالد کو  میں دوبارہ امارت  لاکر رہوں گا. قاضی صاحب کے مشن کو پورا کرنا ہے ان کو اپنے علاقے میں نہیں چھوڑوں گا. وہ  ایک کام کا آدمی تھا. اور وہ بھی چلا گیا. کام کے افراد ملتے کہاں ہیں.  ان کی محبت کے عکاس یہ جملے مولانا قمر انیس قاسمی صاحب معاون ناظم امارت شرعیہ اور مولانا بدرانیس نے  مجھ سے نقل کیے… بعد میں  امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں حضرت سے ملاقات ہوئی؛ تو آپ نے انہیں احساسات کا اظہار کیا جس کا تذکرہ مولانا قمر انیس قاسمی نے کیا تھا. اس موقع پر میں نے حضرت سے کے سامنے تفصیل کے ساتھ بات رکھی اور ان مقاصد کو ظاہر کیا جن مقاصد کی وجہ سے میں بیگوسراۓ واپس آ گیا تھا۔

اس مجلس میں  المعھدالعالی امارت شرعیہ کے سیکریٹری حضرت مولانا عبد الباسط قاسمی صاحب بھی موجود تھے اور انہوں نے بھی میرے تائید کی. میری تفصیل اور ان کی تائید سے حضرت مولانا کو انشراح ہوگیا اور حضرت نے بڑی دعاؤں سے نوازا اور اگلے سفر میں بیگوسرائے تشریف آوری کے لیے آمادگی ظاہر کی. برادرم مولانا لقمان عثمانی کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا موصوف قبل میں بھی ایک مرتبہ  حضرت علامہ عثمان کی جستجو میں بیگوسرائے تشریف لاچکے ہیں۔

اس کے بعد جب کبھی اس عاجز کا دیوبند جانا ہوتا تھا حضرت کی خدمت میں حاضری ہوتی تھی.. اس کے علاوہ اپنے ہم وطن مفتی نفیس احمد قاسمی کے ذریعے بھی نامہ پیام رہتا تھا۔ادھر ماضی قریب میں جب  امیر شریعت کے انتخاب کو لے کر منعقد ارباب حل وعقد کی مشاورتی نششت میں شرکت کے لیے مولانااسلام صاحب قاسمی کی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ تشریف آوری ہوئی تو یہ عاجز، مولانا کے قیام گاہ پر عاجزانہ حاضر ہوا اور حضرت نے بھی گرمجوش  استقبال کیا اور ہماری علمی سرگرمیوں پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا. دعائیہ کلمات کہے اور اپنی تصنیف کردہ مطبوعات میں سے کئی کتابیں() ایک صدی کا علمی سفر نامہ () درخشاں ستارے () دارالعلوم دیوبند اور خانوادہ قاسمی، () زکوۃ کے مسائل. عنایت فرمائیں. میں نے ان کتابوں سے بھرپور استفادہ کیا۔حضرت کے اندر خود نوازی کی صفات بدرجہ اتم موجود تھیں . یہ تو معلوم تھا کہ حضرت اس عاجز سے محبت رکھتے ہیں قدردانی کرتے ہیں؛ لیکن اتنی محبت اور اتنی قدردانی کہ میں اس کا اندازہ نہیں کر سکتا تھا ایک مرتبہ حضرت نے ایک مکتوب میں ان جذبات کا اظہار کیا. ان کے مکتوب کے یہ جملے خرد نوازی کے شاہ کار ہیں. 

بعد سلام حضرت نے لکھا :”

” آج برملا اعتراف کر رہا ہوں کہ نئی نسل (معاصرين) میں تم مجھے بيحد عزيز هو. تمھاری صلاحیتوں اور طور طریقوں کی وجہ سے… اور یہ تمھاری خوبیاں ہیں… اللہ مزید ترقیات سے نوازے آمین! تمھارے لیے تو دل سے دعا نکلتی ہے. آج کل علمی لیاقت، نستعلیق انداز اور تواضع.. یہ سب یکجا کھاں ملتی ہے؟ جس کے تم حامل هو. ماشاء الله. "… 

حضرت کا یہ مکتوب اس عاجز کو واٹس ایپ کے ذریعے موصول ہوا تھا۔

 حضرت کی اس خورد نوازی نے اس عاجز کو اشک بار کردیا اور اس خیال سے کانپ اٹھا کہ اس” برملا اعتراف” کی ضرورت ابھی کیوں پڑگئی! کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ شاید حضرت کا وقت موعود قریب آچکا ہے.. اور ایسا ہی ہوا اس کے بعد دن بدن حضرت کی علالت میں اضافہ ہوتا چلا گیا. یہاں تک کہ حضرت نے جاں جاں آفریں کے سپرد کر دی، آپ نے شاندار نقش راہ قائم کیا بعد والوں کے لیے. ایک کوردہ دیہات سے اٹھ کر دیوبند ہوتے ہوئے عالم عرب وافریقہ کی سیاحی اور انتہائی دہقانی ماحول سے اٹھ کر ازہر ہند کی مسند حدیث پر فائز ہونے تک کا سفر کچھ آسان نہ تھا؛ لیکن انھوں نے اللہ کے فضل، اپنی محنت، عزم واستقامت سے ہر مشکل کو سہولت سر کرلیا . اللہ تعالیٰ ان کے لیے آخرت کے مراحل کو بھی آسان فرمادے. اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین! یارب العالمین 

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: