Slide
Slide
Slide

روزہ کا مقصد بسیار خوری نہیں تقویٰ کا حصول ہے

✍ عبدالغفارصدیقی

______________

رمضان کا مہینہ آتا ہے تو مسلمانوں میں جوش و خروش پیدا ہوجاتا ہے۔مسلم علاقوں اور محلوں میں چہل پہل بڑھ جاتی ہے۔مسجدوں میں ذرا دیر سے پہنچنے والوں کو جوتوں میں جگہ نصیب ہوتی ہے۔پرانے ہوٹلوں پر نئے بورڈ آویزاں کردیے جاتے ہیں اور کچھ نئے خونچے والے بھی میدان میں کود پڑتے ہیں۔بازاروں کی رونق میں اضافہ ہوتا ہے۔رمضان کے دوسرے عشرے میں ہی برقع پوش خواتین کا ہجوم بازار کے حسن کو دوبالا کردیتا ہے۔کیا بچہ کیا جوان،کیا مرد کیا عورت چاہے، روزہ رکھیں یا نہ رکھیں،رمضان کا احترام کریں یا نہ کریں،لیکن عید کے اہتمام میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے۔اگر کوئی شئی مفقود ہے یا نظر نہیں آتی تو وہ”تقویٰ“ ہے۔حالانکہ روزے اسی لیے فرض کیے گئے ہیں کہ روزہ داروں کے اندر تقویٰ کی صفت پیدا ہو۔تقویٰ اللہ سے بے پناہ محبت اور اس کی ناراضگی کے انتہائی خوف کا نام ہے۔یعنی انسان اللہ سے اس قدر محبت کرے کہ اس کے لیے سب کچھ قربان کردینے کا جذبہ رکھے اور اس کی محبت کے تقاضہ کے طور پر اس بات سے ڈرے کہ کہیں اللہ اس کی کسی حرکت سے ناراض نہ ہوجائے۔جب انسان کسی سے بے انتہا محبت کرتا ہے تو اس کا ہر حکم خوشی خوشی بجالاتاہے،اس راستے میں اگر کوئی تکلیف یا پریشانی آتی ہے تو اسے بھی ہنستے ہنستے گوارا کرتا ہے۔ہر وقت اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ اس کی کسی حرکت سے اس کا محبوب ناراض نہ ہوجائے۔یہ کیفیت ہم کسی انسان سے محبت میں بھی دیکھتے ہیں۔دوستی سچی اور پکی ہوتی ہے تو دوست اپنے دوست کو ناراض نہیں کرتا۔پیار کرنے والوں میں ایک دوسرے کے لیے جان دینے کی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔جب ہم معمولی انسانوں سے محبت میں اپنے محبوب کا ہر حکم بجالاتے ہیں تو ذرا سوچیے جس خدا کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں،جس کی خوشی دنیا اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے،جس کی ناراضگی ہمیں ہمیشہ کے لیے دوزخ میں لے جانے والی ہے،اس کے احکامات کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟
اس پہلو سے جب ہم رمضان کی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو بڑی مایوسی ہاتھ لگتی ہے۔اب روزہ رکھنے والوں کی تعداد کو ہی دیکھ لیجیے۔ خواتین کی شرح اگر اسی نوے فیصد ہے تو مردوں کی شرح تیس چالیس فیصد ہی ہے۔جب کہ روزہ فرض ہے۔مردوں میں روزہ رکھنے کی شرح میں مسلسل گراوٹ درج کی جارہی ہے۔شرعی عذر کی بنا پر روزہ چھوڑنے کی اجازت تو خود اللہ نے دی ہے مگر ایک بڑی تعداد خواہ مخواہ ہی روزہ چھوڑ دیتی ہے۔جب ہم اپنے رب کے لیے بارہ چودہ گھنٹے کی بھوک اورپیاس برداشت نہیں کرسکتے تو جان اورمال کی قربانی کیسے دے سکتے ہیں؟
ہم جانتے ہیں کہ رمضان کو جو فضیلت و فوقیت حاصل ہے اس کی اصل وجہ اس ماہ میں قرآن مجید کا نزول ہے۔وہی قرآن جس میں اللہ نے اپنے احکامات درج کیے ہیں۔جس میں زندگی گزارنے اور حکومت چلانے کے اصول بتائے گئے ہیں۔اسی قرآن سے استفادے کے لیے تقویٰ لازمی شرط ہے (ھدی للمتقین)اور تقویٰ روزہ رکھنے سے پیدا ہوتا ہے۔لیکن اس مہینے میں سب سے زیادہ مذاق قرآن مجید کے ساتھ ہی کیا جاتاہے۔رمضان سے پہلے ہی پانچ،چھ،دس اور پندرہ دن میں ختم قرآن کا اعلان ہونے لگتا ہے۔مساجد کے علاوہ،مدارس و مکاتب میں،رؤساء کی کوٹھیوں میں اور دیگر قابل ذکر مقامات پر تراویح کی مجلسیں سجائی جاتی ہیں۔اس کے لیے دلیل دی جاتی ہے کہ جو لوگ تاجر ہیں،یا جو لوگ کہیں سفر کا ارادہ رکھتے ہیں ان کے لیے اس طرح آسانی ہوجاتی ہے اور وہ پورا قرآن سن لیتے ہیں۔مگر یہ دلیل قرآن و حدیث یا صحابہ کے عمل سے ثابت نہیں ہے۔اللہ جو ہماری کمزوریوں سے واقف ہے اس نے جب مسافروں پر روزے ساقط کردیے اور حکم دیا کی سفر کے بعد یہ تعداد پوری کرلیں،جس نے حالت سفر میں فرض نمازوں کو قصر کرنے کا حکم دیا،نعوذ باللہ وہ تراویح کا یہ حکم دینا کیسے بھول گیا کہ پانچ چھ دن میں قرآن مکمل کرلیا جائے،نہ رسول اکرم ﷺ سے کوئی حکم ثابت ہے،نہ صحابہ کرام سے ایسے کسی عمل کی توثیق ہوتی ہے۔پھر اس کی ضرورت کیا ہے؟ تراویح جسے قیام اللیل کہا گیا ہے فرض نہیں ہے،بعض لوگوں کے نزدیک سنت موکدہ اور بعضوں کے نزدیک صرف سنت ہے اور بعض فقہاء نے اسے نفل قرار دیا ہے۔ایک ایسے عمل کے لیے (تراویح میں پورا قرآن سننا)جس کے لیے قرآن و حدیث میں حکم ہی نہیں دیا گیا ہے اس کے لیے قرآن مجید کی بے ادبی کی جاتی ہے۔میں نہیں کہتا،آپ خود دیکھتے ہیں کہ ان مجالس میں کیا کیا ہوتا ہے۔حافظ صاحب جس رفتار سے قرآن پڑھتے ہیں،اس کے الفاظ تک ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آتے،بہت سے مقتدی حضرات پہلی رکعت کے رکوع تک بیٹھے رہتے ہیں،بعض لوگ بیڑی سگریٹ میں دم تک لگالیتے ہیں،کچھ لوگ فون پر چیٹ کرتے ہوئے بھی دیکھے گئے ہیں،کیا یہ سب قرآن کا مذاق اڑانا نہیں ہے؟کیا ہمارے اس عمل سے اللہ خوش ہوگا؟اور خوش ہوکر ہم پر اپنی رحمتیں برسائے گا؟یا ناراض ہوکر ہم پر ظالم حکمرانوں کو مسلط کرے گا۔اس سے بہتر ہے کہ آپ اپنی مصروفیات سے فارغ ہوکر حسب توفیق نوافل کا اہتمام کریں،اللہ کی جناب میں کھڑے ہوں قرآن کا جو حصہ آپ کو یاد ہو اسے پڑھیں،رکوع اور سجدوں میں اللہ کی تسبیح کریں،اس کے سامنے گریہ و زاری کریں،اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں،اللہ کے حضور اشک ندامت کا نذرانہ پیش کریں۔کیوں کہ نماز تراویح (قیام اللیل) سے یہی مطلوب ہے۔
اب ذرا روزہ رکھنے والوں کی لذت کام و دہن پربھی نظر ڈال لیجیے۔سوکراٹھنے کے بعد افطار کے مینو پر ڈسکس کرنا،اپنی اپنی پسند اور ذائقوں کا لحاظ رکھنا،دسترخوان کو انواع و اقسام کے پھلوں،پکوانوں اور کھانوں سے سجانااور پھر افطار کے وقت ہی ان پر ٹوٹ پڑنا۔ہمارا یہ عمل اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جیسے روزے اللہ نے اسی لیے فرض کیے ہیں۔اس پر مزید یہ کہ اپنے اس عمل پر یہ گمان کرنا کہ اللہ رمضان میں خوب برکت کرتا ہے۔اللہ ایسے ایسے پھل کھلا دیتا ہے جو عام حالات میں میسر نہیں،اللہ غریبوں کو اچھے کھانے کھلواتا ہے۔لیکن ذرا رسول اکرم ؐ اور صحابہ کرام ؓ  کے افطار کے مینو کی بابت بھی کچھ معلومات حاصل کرلیجیے۔جس رسول ؐ نے ایک دسترخوان پر دو سالن جمع کرنے کو بھی پسند نہ کیا ہو (اگرچہ شرعاً جائز ہے)،انھیں جب ہمارے دسترخوان  کے بارے میں فرشتے خبر دیتے ہوں گے تو ان پر کیا گذرتی ہوگی۔روزہ کا مقصد تو یہ تھا کہ ہم اللہ کی رضا کے لیے بھوک اور پیاس کی شدت کو محسوس کریں اور اپنی تربیت اس طرح کریں کہ اگر کہیں اللہ کی خاطر ایسے حالات آجائیں کہ کھانا میسر نہ ہو تو اسے ہم برداشت کرسکیں،نیز یہ کہ ان غریبوں کی بھوک کا ادراک کریں جنہیں دو وقت کا کھانا میسر نہیں۔رمضان کا مہینہ اس لیے ہے کہ ہم اپنے جسم کی بیماریوں پر قابو پائیں،ایک سال میں ایک ماہ تک مسلسل روزے رکھ کر طبی نقطہ نظر سے صحت کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے لیکن ہماری بسیار خوری ہمیں مزید بیمار کردیتی ہے۔
رمضان عبادت کا مہینہ ہے۔اللہ سے قریب ہونے کا مہینہ ہے،اللہ سے اپنے گناہوں کو بخشوانے کا مہینہ ہے،کیا ہمیں یاد نہیں کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول ؐ  منبر پر چڑھ رہے تھے اور آمین کہہ رہے تھے،دریافت کرنے پر آپ ؐ نے فرمایا:”حضرت جبریل ؑ کہہ رہے تھے کہ بدنصیب ہے وہ شخص جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اپنی بخشش نہ کراسکا۔میں نے اس پر آمین کہا۔“
یہ فضول خرچیوں کا مہینہ نہیں ہے بلکہ کفایت شعاری اور غم خواری کا مہینہ ہے۔یہ وزن بڑھانے کا نہیں بلکہ گھٹانے کا مہینہ ہے۔یہ مہینہ ہے مال اور جسم کی زکاۃ نکالنے کا،جسم کی زکاۃ روزہ ہے اور مال کی زکاۃ راہ خدا میں انفاق ہے۔یہ مہینہ اپنے اوپر خرچ کرنے کا نہیں بلکہ ضرورت مندوں پر خرچ کرکے ان کو اوپر اٹھانے کا مہینہ ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنے اوپر خرچ نہ کریں،یا اپنے اہل و عیال کی ضرورتیں پوری نہ کریں،میں تو یہ عرض کرتا ہوں کہ آپ ترجیحات کے مطابق خرچ کریں۔آپ پر رحمان نے اگر فضل فرمایا ہے اور یقین سے کہتے ہیں کہ ”ھٰذا من فضل ربی“ (یہ میرے رب کا فضل ہے“تو اپنے رب کی نعمتوں کا شکر ادا کیجیے،لیکن اگر آپ کے دل میں ذرا سی بھی یہ کھٹک ہے کہ اس فضل میں شیطان کا بھی حصہ ہے تو فوراً توبہ کرلیجیے۔ اس لیے کہ ابھی آپ کے رب رحیم نے توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے۔یاد رکھیے فضول خرچی اور کفایت شعاری میں بہت باریک سا فرق ہے۔ضرورت کے مطابق خرچ کرنا کفایت شعاری،ضرورت سے کم خرچ کرنا بخیلی اور ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا فضول خرچی ہے۔قرآن مجید میں فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔جب امت کا بڑا حصہ جہالت و غربت میں مبتلاء ہو،جب قبلہ اول کی حفاظت کی خاطر پچاس ہزار جانیں شہید ہوچکی ہوں،جب مقدس سرزمین پر بچے بھوک سے مررہے ہوں،جب آپ کے کئی عزیز،رشتہ دار،احباب و دوست کی واجب ضرورتیں بھی پوری نہ ہورہی ہوں،ایسے میں آپ فضول خرچیاں کریں،نام و نمود کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہائیں،اجتماعی افطار کے نام پر ریاکاری کریں،خدا کی کتاب کے ساتھ کھلواڑ کریں،یہ سارے اعمال اللہ کے غضب کودعوت دینے والے ہیں۔
آئیے اس ماہ مبارک میں ہم یہ عہد کریں کہ روزے کے اصل مقصد ”تقویٰ“ کو حاصل کریں گے۔اپنے پروردگار سے ٹوٹ کر محبت کریں گے،اس کی محبت پر کسی کی محبت کو غالب نہیں آنے دیں گے،اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی فہرست بنائیں گے اور ان کو ترک کریں گے،اپنی ذات پر ضرورت مندوں کو ترجیح دیں گے،انفرادی مفاد سے زیادہ اجتماعی مفاد کا خیال رکھیں گے۔اپنے جسم کی فربہی کو کم کریں گے،ہر طرح کی پریشانی جھیلتے ہوئے روزے رکھنے کا اہتمام کریں گے۔میرے عزیزو! یہ اللہ ہے جو ہمیں توبہ کرنے کا موقع دے رہا ہے،جو ہم پر جنت اور مغفرت کے دروازے کھول رہا ہے،جس نے وعدہ کیا ہے کہ ”میرے بندو! تم مجھے پکارو،میں تمہاری پکار کا جواب دوں گا۔“

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: