✍️ ڈاکٹر مفتی محمد اعظم ندوی
استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدر آباد
__________________
قرآن مجید میں ایک تعبیر ’’تفریط ‘‘کی استعمال کی گئی ہے ، جس کے معنی ہیں کوتاہی کرنا ، غفلت کا شکار ہوجانا اور لاپرواہی سے کام لینا ، قرآن مجید میں اس کی متعددمثالیں ہیں ، جن میں سے ایک یہ آیت ہے : ’’أَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ یَّا حَسْرَتٰی عَلٰی مَا فَرَّطْت فِیْ جَنْبِ اللّٰہِ ُ‘‘(الزمر : ۵۶)(اور یہ انابت واسلام اور اتباع کا حکم اس لیے دیا جاتا ہے )کہ کہیں (کل قیامت کے روز) کوئی شخص یوں نہ کہنے لگے کہ ہائے افسوس میری اس کوتاہی پر جو میں نے اللہ کی جناب میں کی ) یعنی اس کی اطاعت میں مجھ سے تقصیر اور کوتاہی ہوئی، یہ جملہ کوتاہ عمل انسان قیامت کے دن کہے گا ، جب زندگی کا آفتاب غروب ہوجائے گا ، اورکام کا زمانہ گذر چکا ہوگا ، یہ جملہ ہم اپنی زبانوں میںاپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے بھی دوہراتے ہیں ، اور یہ اس وقت جب ہم اپنی عمر رفتہ کا حساب کررہے ہوتے ہیں ، اور ابتدائے سفر اور منزل مقصود کے درمیانی فاصلہ کی پیمائش کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہم سفر کہاں پہونچ گئے اور ہم کہاں رہ گئے، خواجہ الطاف حسین حالی(و:۱۹۱۴ء)کی زبان میں:
یارانِ تیزگام نے محمل کو جالیا
ہم محوِ نالۂ جرسِ کارواں رہے
یہی حال ہمارے روز و شب کے معمولات کا ہے ،جن میں ردو بدل عام بات ہے ، صرف عبادتوں کا جائزہ لیں تو کبھی فرض نماز قضاہورہی ہے ، کبھی بلا عذر جماعت فوت ہورہی ہے ، کبھی سنن مؤکدہ سے غفلت ہورہی ہے ،اوابین و تہجد ، اشراق و چاشت ، تلاوت قرآن ،صبح وشام کے اذکار،وظائف واوراد اور دعائیں ، محاسبۂ نفس ، توبہ واستغفار ، مریضوں کی عیادت ، جنازہ کی مشایعت ، رشتہ داروں ، پڑوسیوں ، دوستوں اورعام مسلمانوں کی خبر گیری اور صدقہ و خیرات کا تو ذکر ہی کیا ، ان عبادتوں کی توفیق بہ مشکل کبھی ہوجاتی ہے ، یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی ہم ان سب سے بڑھ کر حتی الامکان اکثر اعمال کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں، خاص طور سے جب کسی فوری ضرورت یا ناگہانی مصیبت کا سامنا ہو،اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب زندگی صحیح سمت چل پڑی اور اب کبھی کوتاہی نہ ہوگی،لیکن طبیعت کا رنگ بدلتے دیر نہیں لگتی،کام ہوا، حادثہ ٹلا،رات کی بات گئی اور پھر رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی،عود کر آتی ہے،اصغر گونڈوی (و:۱۹۳۶ء)نے بڑی عارفانہ بات کہی ہے :
کبھی ہیں محوِ دید ایسے، سمجھ باقی نہیں رہتی
کبھی دیدار سے محروم ہیں، اتنا سمجھتے ہیں
کبھی جوشِ جنوں ایسا، کہ چھا جاتے ہیں صحرا پر
کبھی ذرّے میں گم ہوکر اُسے صحرا سمجھتے ہیں
کبھی ہم نے غور کیا کہ آخر ہماری زندگی میں ایسا ہوتا کیوں ہے ؟ سچ پوچھئے تو اس کی بڑی وجہ ہماری عصیاں شعاری ہے ،خواہش نفس کی تسکین کے لیے نشہ وسرمستی میں کئے گئے گناہ ہوں یا روز روز کے گناہِ بے لذت،خاص طور سے چھوٹے چھوٹے گناہ جن کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ،اور ان کا اثر ہماری زندگی پر بڑھتا چلا جاتا ہے،اور اس کی سب سے بڑی سزا یہیں دنیا ہی میں ملتی ہے کہ کار خیر سے محرومی ہوجاتی ہے ، اور کار خیر سے محرومی قرب الٰہی سے محرومی ہے ، ایک غلام کے لیے اس سے بڑی کیا سزا ہوگی کہ اسے آقا کے حضور حاضری کی اجازت سے روک دیا جائے !سلف صالحین اپنی عبادتوں کے لیے گناہوں کو سب سے زیادہ سدّ راہ مانتے تھے ،مشہور تابعی مفسر حضرت ضحاک بن مزاحم ہلالیؒ (و:۱۰۲ھ) فرماتے ہیں : ’’ ما نعلم أحدًا حفظ القرآن ثم نسیہ إلا بذنب ‘‘(تفسیرابن کثیر : ۷؍ ۲۰۹)( ہم نہیں سمجھتے کہ کوئی قرآن یاد کرکے گناہ کے علاوہ کسی اور وجہ سے بھولتا ہے)،زاہدالعصرحضرت ابو سلیمان دارانیؒ(و:۲۱۵ھ) فرماتے ہیں:’’لا تفوت أحدا صلاۃ الجماعۃ إلا بذنب‘‘(کسی کی نمازباجماعت گناہوں کی وجہ سے ہی چھوٹتی ہے)(إحیاء علوم الدین : ۱؍۳۵۶)،امام ابو سعید حسن بن یسار بصریؒ (و:۱۱۰ھ)سے کسی نے عرض کیا : ’’إني أبیت مُعافیً ، وأحب قیام اللیل وأعد طَہور ي ، فما بالي لا أقوم ؟ فقال : ذنوبُک قیّدتک ‘‘ (إحیاء علوم الدین : ۱؍۳۵۶)’’میں عافیت کے ساتھ رات میں اس ارادہ سے سوتا ہوں کہ اٹھ کر تہجد پڑھوںگا ، اور وضو کا پانی بھی تیار کرکے رکھتا ہوں ، پھر کیوں نہیں اٹھ پاتا ؟ انہوں نے فرمایا : تمہارے گناہ تمہارے پاؤں کی زنجیر بن گئے ‘‘ ۔
دوسرا بڑا سبب کھانے پینے ، پہننے اوڑھنے اور دیگر جائز چیزوں میں حد سے زیادہ خود کو مشغول کرنا ہے ، چوںکہ اس سے آرام وراحت اور سکون سے جینے کی عادت بنتی ہے ، اور پھر غفلت ایک عام سی بات ہوجاتی ہے ، بعض شیوخ اپنے مریدین کو تہجد کے لیے بیدار ہونے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے : ’’ لا تأکلوا کثیرًا فتشربوا کثیرًا فترقدوا کثیرًا فتتحسروا عند الموت کثیرًا ‘‘ (إحیاء علوم الدین : ۱؍۳۵۶)( زیادہ نہ کھاؤ کہ زیادہ پیناپڑے ، اور پھر زیادہ سونا پڑے اور نتیجۃً موت کے وقت حسرت سے دوچار ہونا پڑے)۔
ایک تیسرا بڑا سبب یہ ہے کہ ہمیں جو نعمتیں ملی ہوئی ہیں ، ان کی قدر کرنے اور ان پر شکر اداکرنے میں کوتاہی ہوتی ہے ، اورشکر سے غفلت نعمت کو گھٹاتی ہے ، پھر جو سب سے بڑی نعمت توفیق کی ہوتی ہے ، وہ چھین لی جاتی ہے ، ہاتھ پیر صحیح سالم ہیں ، نبض حرکت میں ہے ،تارِ نفَس سلامت اورسانسوں کا سلسلہ جاری ہے ، ہاضمہ قوی ہے ، آنکھیں پر نور ہیں ، قوت سماعت کام کررہی ہے ، دل و دماغ ،دست وپا، جگر،پھیپڑا اورگردے ؛اِن میں سے ہرعضوبدن صحیح سالم اپنا کام انجام دے رہا ہے ، لیکن ہم ان میں اللہ کی دائمی نعمت کے طور پر غور نہیں کرتے ، اس لیے ہوس میدانِ امکاں میں بھٹکاتی رہتی ہے ، اور ہم سمجھتے ہیں کہ ابھی کچھ ہاتھ نہ آیا ، جب ان میں سے کچھ جاتا رہتا ہے تو احساس ہوتا ہے اور یادِ الٰہی کی یاد آتی ہے،جب کہ اللہ تعالیٰ کا سیدھا سادہ بے لاگ نظام ہے :’’فَاذْکُرُوْنِیْ أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلاَ تَکْفُرُوْن‘‘(البقرۃ : ۱۵۲)(پس تم لوگ مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروںگا، اور تم میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری نہ کرنا)۔
کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ صبح و شام کے ان اعمال کی اہمیت ہی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہے ، تو غفلت ہوتی ہے ، کبھی ان کے فضائل ذہن میں نہیں ہوتے تو ان پر آمادگی نہیں ہوتی ، اورسب سے بڑھ کر موت اور موت کے بعد پیش آنے والے خوفناک مراحل کا تصور ذہنوں سے نکل جاتا ہے ؛ اس لیے ہوا کے دوش پر زندگی کو ڈال کر چھوڑ دیا جاتا ہے ، بعض پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ اس لیے بھی ایسا ہوتا ہے کہ خود کو کامل اور ’’ دانائے راز ‘‘ سمجھ لیتے ہیں ، محنت کش طبقہ کو کاموں کا ہجوم غفلت میں رکھتا ہے ، اور ایک عام وجہ یہ ہوتی ہے کہ کام کو ٹالنے کی عادت ہوچکی ہے ؛ اس لیے ’’ ان شاء اللہ کل کرلیںگے ‘‘ کے سہارے زندگی کے لمحات ضائع ہوتے رہتے ہیں ، امیر المؤمنین حضرت عمر ؓنے حضرت ابو موسی اشعریؓ کو ایک خط میں رقم فرمایا تھا : ’’ القوۃ في العمل أن لا تؤخّر عمل الیوم لِغد ‘‘ (کتاب الأموال ، أبو عبید قاسم بن سلام : ۱؍۱۲)( کام کی مضبوطی اور استحکام اس میں ہے کہ آج کا کام کل پر نہ ٹالو )چونکہ زندگی کا کارواں کسی کا انتظار نہیں کرتا،اور صبح وشام کے پھیروں میں عمر تمام ہوجاتی ہے،ضرب المثل اشعار کے قدرے گمنام شاعرمنشی امیر اللہ تسلیم لکھنوی(و:۱۹۱۱ء) کا یہ برجستہ،سادہ، اچھااور سچا شعر زبان زد عام ہے:
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
اس کوتاہی اور غفلت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دل بے چینی ، خلش اور افسردگی کا شکار ہوتا ہے ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’ وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکا‘‘(طہ : ۱۲۴) ( اور جس نے ہماری اس نصیحت سے منہ موڑا تو بے شک اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی)،تنگ زندگی سے عذاب قبر بھی مراد لیا گیا،اور تنگیٔ معیشت بھی،یعنی پھر قناعت کا وصف سلب کرلیا جاتا ہے،اور حرص دنیا بڑھا دی جاتی ہے،جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی تہی دامنی کا احساس ستاتا ہے،راحت نہیں ملتی اور خیر کے ضروری کام بھی انجام دینا مشکل معلوم ہوتا ہے ، گناہوں کے سلسلہ میں انسان جری اور بیباک ہوجاتا ہے ، اس کے بر خلاف مخلصانہ عبادتیں گناہوں سے دور رکھتی ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب خبر دی گئی کہ فلاں شخص رات کو نماز پڑھتا ہے اور دن میں چوری کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ إنہ سینہاہ ما تقول ‘‘ (المسند الجامع ، حدیث نمبر : ۱۲۸۱۴، إطراف المسند المعتلی بأطراف المسند الحنبلی لابن حجر ، حدیث نمبر : ۹۱۹۲)( عنقریب اس کی نماز اس کو اس سے روک دے گی )۔
اس غفلت کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان وقار کم ہوتا ہے،اس سے ایک خرابی یہ پیدا ہوتی ہے کہ طبیعت میں پستی اور گراوٹ پیدا ہوتی ہے ، ذکر اللہ سے قوت میں اضافہ ہوتا ہے ، حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا :’’ وَیَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُواْ رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا إِلَیْہِ یُرْسِلِ السَّمَائَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَیَزِدْکُمْ قُوَّۃً إِلٰی قُوَّتِکُمْ وَلاَ تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ‘‘ (ہود : ۵۲) (اور اے میری قوم کے لوگو!تم سب بخشش مانگو اپنے رب سے، پھر(سچے دل سے)اس کی طرف رجوع کرو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا(موسلادھار بارش کے لیے)اور تمہاری موجودہ قوت میں مزید قوت کا اضافہ فرمائے گا، اور مت پھرو تم لوگ (اس پیغام حق سے)مجرم بن کر) ۔
اس کوتاہی اور غفلت کا علاج یہ ہے کہ روزانہ تھوڑی دیر قرآن و حدیث کے سایہ میں گذارا جائے ،رسولﷺ کی سیرت طیبہ ، سلف صالحین کی سوانح اور اصلاحی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے ،خود کو علماء سے مربوط رکھا جائے ، خصوصاً عشرۂ اخیرہ کے ان مبارک ایام میں آئندہ کی زندگی میں تبدیلی کی سچی نیت کی جائے، چھوٹے چھوٹے گناہوں کو بھی کم تر نہ سمجھا جائے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ إیاکم ومحقرات الذنوب فإنہن یجتعہن علی الرجل حتی یہلکہ ‘‘ (مسند أحمد بن حنبل ، حدیث نمبر : ۳۸۱۸، المعجم الکبیر للطبراني ، حدیث نمبر : ۱۰۵۰۰)( چھوٹے گناہوں کو بھی معمولی نہ سمجھو ، چوںکہ وہ جمع ہوجاتے ہیں تو انسان کو غارت کردیتے ہیں )،جائز چیزوں کے استعمال میں بھی اعتدال اور توازن رکھاجائے ، نعمتوں کی قدر کی جائے ، ایک روٹین کے تحت کام انجام دیئے جائیں ، اللہ تعالیٰ سے توفیق اور ہمت کی دعاء کی جائے ، اپنے گناہوں کو یاد کیا جائے ، ماضی کی غفلت پر ندامت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہونا چاہئے کہ حال کو اس سے بچایا جائے اور اس سے اپنی زندگی کو سنوارنے کا حوصلہ پیداہو، جس کا صلہ دنیا میں ’’حیاۃ طیبۃ‘‘(پاکیزہ زندگی) ہے اور آخرت میں’’ أجر عظیم‘‘ اور’’نعیم مقیم‘‘ (بے حساب ثواب اور دائمی عیش وآرام )،ورنہ رندانِ خوش انفاس اوراصحاب ہمت تو بڑھتے رہیں گے اورہمیں کف افسوس ملنا پڑے گا، شہنشاہ تغزّل جگر مراد آبادی (و:۱۹۶۰ء) نے کہا تھا:
تو جہاں پر تھا بہت پہلے وہیں آج بھی ہے
دیکھ رندانِ خوش انفاس کہاں تک پہنچے