تندرستی ہزار نعمت ہے
✍️ محمد قمر الزماں ندوی
استاذ/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پڑتاپگڑھ، یوپی
ترتیب وپیش کش: محمد ظفر ندوی
__________________
راقم الحروف ( محمد قمر الزماں ندوی) تقریبا ستائس اٹھائیس سال سے دارالعلوم ندوۃ العلماء کی شاخ "مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ، یوپی” میں تدریسی فرائض انجام دے رہا ہے۔ 1997ء میں میری وہاں بحیثیتِ مدرِّس (عربی درجات کی درس وتدریس کے لئے) تقرری ہوئی، استاد محترم حضرت مولانا سید عبد اللہ حسنی ندوی رحمہ اللہ (سابق استاذ دارالعلوم ندوة العلماء لکھنؤ و سابق ناظم مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ) اس کے محرک اور سبب بنے۔ انہیں کے حکم اور ایماء پر وہاں تدریس کے لیے جانا ہوا اور "یک در گیر محکم بگیر” پر عمل کرتے ہوئے زندگی کی ستائیس بہاریں وہیں گزریں اور الحمدللہ ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔
تقریباً تین دہائیوں کے شب و روز کیسے گزر گئے احساس تک نہیں ہوا۔ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پڑتاپگڑھ میں بیتے ایام اور حسین یادوں کا تذکرہ اپنی زیر ترتیب کتاب "زندگی کا کارواں” میں، میں نے کیا ہے۔ اگر حیاتِ مستعار نے مہلت دی اور زندگی نے وفا کی تو ان شاءاللہ قارئین کی خدمت میں سوشل میڈیا کے توسط سے سلسلہ وار پیش کرنے کا ارادہ ہے۔ بعد ازیں ان شاءاللہ کتابی شکل میں بھی منظرِ عام پر لانے کی تمنا ہے۔
"مدرسہ نور الاسلام” میرے لیے دوسرے گھر کی مانند ہے، اگر میں کہوں کہ وہی اصل گھر ہے تو میں غلط نہیں ہوں گا، کیوں کہ پورا سال وہیں گزرتا ہے صرف رمضان کی طویل تعطیل میں گھر آنا ہوتا ہے یا کوئی ضرورت پڑگئی تو چند دنوں کے لیے گھر آنا ہوتا ہے۔
اس سال رمضان سے قبل سالانہ امتحانات کے بعد حسبِ معمول رمضان سے ایک ہفتہ قبل فیملی کے ساتھ گھر کے لئے روانہ ہوا۔ ذہن نشین رہے کہ ستائس سال سے میرا یہی معمول ہے کہ رمضان المبارک کی مکمل تعطیل کلاں گھر پر گذارتا ہوں اور رمضان میں کہیں کسی طرح کے سفر پر جانا نہیں ہوتا ہے، البتہ جب تک گھر پر رہتا ہوں تو اپنے گاؤں کی مسجد میں جمعہ کی امامت اور خطابت میرے ذمے ہوتی ہے۔ پہلے مدرسہ کے تعاون کے لئے بھی کوئی کام نہیں کرنا پڑتا تھا، لیکن لاک ڈاؤن کے بعد اس تعلق سے کچھ ذمہ داریاں آگئی ہیں، تاہم گھر پر رہ کر ہی رشتے داروں اور بعض اصحابِ خیر، صاحبِ ثروت اور اہل تعلق سے رابطہ کرکے مدرسہ کے تعلق سے مالی اعانت کرواتا ہوں اور سالِ رواں رمضان المبارک میں شدید بیمار رہنے کے باوجود لوگوں نے میرے توسط سے اپنے طور پر مدرسہ کا تعاون کیا لیکن جتنا ہونا چاہیے تھا وہ نا ہوسکا بہت حد تک کام باقی رہ گیا، کیوں کہ صحت نے مجھے مجبور کردیا تھا۔
بہرکیف! اس سال جب رمضان سے ایک ہفتہ قبل گھر پہنچا تو گھر پہنچنے کے ایک دو دن کے بعد ہی اچانک طبیعت بگڑ گئی۔ مرض کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ پہلے دونوں بازوؤں میں درد شروع ہوا اور درد نے اتنی شدت اختیار کرلی کہ رات بھر بے چین رہا اور نیند کی لذت سے محروم رہا، اس قدر ناقابل برداشت درد تشویش کن تھا، لہذا گاؤں کے فیملی ڈاکٹر عزیز القدر "ڈاکٹر محمد اعظم” کو دو بجے رات کو مطلع کیا گیا وہ آئے، معائنہ کیا، دوائیاں دیں اور انجکشن لگایا۔ عارضی طور پر آرام تو مل گیا لیکن مکمل طور پر شفایاب نہیں ہوئے، درد کے ختم ہونے اور مکمل شفایابی کے انتظار میں لمحے گزر رہے تھے لیکن درد ختم نہیں ہو رہا تھا گویا
"درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی”
اصل مصرعہ "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی” ہے میں نے ضرورت کے تحت اس میں مرض کی جگہ "درد” لکھا ہے۔
بہرحال تیسرے دن اچانک بازوؤں کا یہ درد سینے کی طرف منتقل ہونا شروع ہوگیا، پھر سینے میں جلن اور چھبن ہونے لگی، ظہر کی نماز کے بعد درد نے اس قدر شدت اختیار کی کہ مجھے "مہگاواں” کے ایک اسپتال میں لے جایا گیا جو میرے گاؤں سے دس کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے وہاں "ڈاکٹر ترون مشرا” نے ECG دل کی ابتدائی جانچ کی اور رپورٹ کے بعد ڈاکٹر نے ایک دو انجکشن لگایا اور بتایا کہ ہارٹ کا پرابلم ہے دل تک خون سپلائی کرنے والی نسیں بند ہیں، ان کو فورا بھاگلپور میں ایڈمٹ کروائیے وہاں "انجیو گرافی” ہوگی اور دل تک خون سپلائی کرنے والی نسیں اوپن کرنے کے لیے اسٹنٹ لگوانا ہوگا۔ لہذا وہیں سے فورا مجھے بھاگلپور لے جایا گیا اور ماہرِ امراضِ قلب "ڈاکٹر سُمیت شرما” کے اسپتال "آشریہ سوپر اسپیشلسٹ” کے ICU میں رکھا گیا اور تمام تر جانچ کے بعد "انجیو گرافی” کی گئی۔ ڈاکٹر کا کہنا ہوا کہ خون کا انجماد کافی طویل ہے، یہی وجہ ہے کہ مریض کی حالت بہتر نہیں ہے، ڈبل اسٹنٹ لگوانا ہوگا لہذا جتنی جلدی ہوسکے اس کو کروا لیجئے۔ چوپیس گھنٹے بھاگلپور میں ڈاکٹر سُمیت شرما کی نگرانی میں رہے، ان کا کہنا تھا کہ جتنی جلد ہوسکے اسٹنٹ لگوا دیا جائے اور یہیں کروا لیجیے۔ لیکن بھائیوں کا اور تمام رشتے داروں کا مشورہ ہوا کہ بائی پاس سرجری یا اسٹنٹ کولکتہ کے "رابندر ناتھ ٹیگور ہاسپٹل” میں لگوایا جائے، کیونکہ وہ ہاسپٹل بہت مشہور اور قدیم ہے جس میں جدید ٹیکنالوجی اور آلات موجود ہیں، وہاں کے ڈاکٹرز بھی ماہر ہیں۔ لہذا دس مارچ کی شام کو ایمبولینس کے ذریعہ بھاگلپور سے کولکتہ لے جایا گیا اور رابندر ناتھ ٹیگور ہاسپٹل کے ICU میں داخل کیا گیا اور پھر جانچ کے بعد 11 مارچ کو دل تک پہنچنے والے شریانوں میں منجمد خون کو رواں کرنے کی غرض سے خون کی نالی میں اسٹنٹ لگایا گیا (اسٹنٹ کیا ہوتاہے اور کیوں لگوایا جاتا ہے؟! اسٹنٹ ایک اسپرنگ کی مانند ہوتا ہے جس کو ٹیوب کے ذریعے انسانی جسم میں داخل کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک ٹیوب جسم کی کسی بڑی رگ میں سے گزار کر دل تک پہنچائی جاتی ہے۔ جہاں دل کی شریان بند ہو وہاں اس اسپرنگ کو رکھ کر کھول دیا جاتا ہے جس سے بند شریان کھل جاتی ہے اور خون کی گردش نارمل ہو جاتی ہے۔ پھر اس جگہ اسٹنٹ جو اسپرنگ نما کسی دھات کا ہوتا ہے وہ مستقل طور پر لگا دیا جاتا ہے تاکہ خون کی نالی کھلی رہے اور دل تک خون کی سپلائی ہوتی رہے۔ اسٹنٹ کے اوپر جراثیم سے بچاؤ اور امیون سسٹم کو اس کے خلاف ردِ عمل سے روکنے کے لئے مختلف دوائیں استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ سٹنٹ کافی مہنگا ہوتا ہے اور ایک اسٹنٹ ڈالنے کا خرچہ تقریباً تین لاکھ روپے تک آتا ہے۔ دل کی شریان بند ہونے کی صورت میں اگر بروقت دل کا بائی پاس آپریشن نہ کرایا جائے یا اسٹنٹ نہ ڈلوائے جائیں تو ہارٹ اٹیک کی وجہ سے انسان کی موت ہوسکتی ہے۔) بہرحال دس ایام کولکتہ میں گزرے وہاں اسٹنٹ لگا دیا گیا چوں کہ خون کا انجماد کافی طویل تھا لہذا دو اسٹنٹ لگانے کی ضرورت پیش آئی "ڈاکٹر سنیل لھیلا” اور ان کی ٹیم نے اسٹنٹ لگانے کے پروسس کو بخوبی انجام دیا اور پھر تمام میڈیکل پروسیجر مکمل ہونے کے بعد اور گیارہ دن کولکتہ میں رہنے کے بعد 21 مارچ 2024 کو ہاسپٹل سے ڈسچارج ہوکر واپس گھر آگئے اور رفتہ رفتہ رو بہ صحت ہورہے تھے۔
لیکن 28 مارچ کو دوبارہ طبیعت بگڑ گئی، اور پہلے سے زیادہ درد، تکلیف اور بےچینی ہونے لگی، سانسں لینے میں کافی دشواری ہونے لگی، گویا سانسیں اکھڑنے پے ہوں، صورت حال کافی تشویشناک ہوگئی تھی، اس بار دل پر حملہ پہلے سے بہت تیز اور خطرناک تھا، رشتے دار و اعزۂ اقارب، اہل تعلق اور جن جن کو حالات سے آگاہی ہوئی وہ مضطرب ہوگئے، کافی متفکر اور پریشانی کے عالم میں رمضان کامہینہ تو تھاہی سب اللہ کی طرف رجوع ہوگئے اور خوب دعائیں ہونے لگیں۔ دوسری طرف فوری طور پر کولکتہ کے ڈاکٹرز سے رابطہ کیا گیا اور حالتِ حال سے آگاہ کیا گیا، کولکتہ کے ڈاکٹر نے بلاتاخیر بھاگلپور کے ڈاکٹر "ڈاکٹر سُمیت شرما” جن کا تذکرہ اوپر آچکا ہے ان کے پاس جانے کے لیے کہا، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر سُمیت شرما کو کولکتہ کے ڈاکٹرز اچھی طرح پہلے سے جانتے تھے، پہلی بار جب بھاگلپور کے بجائے کولکتہ میں اسٹنٹ لگوانے گئے تو خود وہاں ڈاکٹرز نے کہا کہ آپ کو ڈاکٹر سُمیت شرما کے پاس ہی علاج کرالینا چاہیے تھا اس کنڈیشن میں اتنی دور کی مسافت طے نہیں کرنی چاہیے تھی اور یہ بھی بتایا کہ ڈاکٹر سُمیت خود یہیں کے پروردہ ہیں اور قلب کے امراض کے ماہر ہیں، اور ان کے پاس ساری سہولتیں دستیاب ہیں۔ بہر حال بہت جلد بھاگلپور لایا گیا اور یہاں ڈاکٹر سُمیت کے ہاسپٹل "آشریہ سوپر اسپیشلسٹ” کے آئی سی یو میں ایڈمٹ کرایا گیا۔ یہاں حالت کافی تشویشناک رہی ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ سخت ہارٹ اٹیک کی وجہ سے دل کی دھڑکنیں بند ہونے کے قریب ہونے لگیں اور حیات مستعار کے آخری لمحات نظر آنے لگے، امیدیں ٹوٹنے لگیں تھیں، فون کے ذریعے خبر ہر جگہ پہنچ رہی تھی تمام رشتے دار و اعزہ و اقارب سکتے میں آگئے اور دم بخود ہوگئے، نمازیں پڑھ کر اور نفلی صدقات دے کر خدا سے دہائی دینے لگے، میری اہلیہ اور دوسرے رشتے دار وغیرہ ہاسپٹل میں موجود تھے، سب سکتے میں آگئے تھے، اہلیہ کی حالت ایسی تھی کہ الفاظ میں اس کا تذکرہ نہیں ہوسکتا، اپنے حواس کو قابو میں رکھنے کے لیے صبر و ضبط کا دامن بہت مضبوطی کے ساتھ تھامی ہوئی تھیں، خدا کے آگے ہاتھ پھیلا کر التجائیں کررہی تھیں، زبان سے الفاظ تو ادا نہیں ہو پا رہے تھے، آنکھیں اشکبار تھیں اور دل سے آہیں نکل رہی تھیں۔
دل سے جو آہ نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
الغرض حالت ایں جا رسید کہ ڈاکٹر نے کہا کہ مریض کو بچانے کے لیے اب ایک آخری رِسک لینا ہوگا، اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں، وہ آخری رسک یہ ہے کہ سینے پر "الیکٹرک شاک” لگایا جائے اس غرض سے ڈاکٹر نے دستخط کروائے، وقت بہت کم تھا میری اہلیہ جو غم سے نڈھال تھیں اللہ کا نام لیکر دستخط کیا پھر سب سے دعا کی درخواست کی۔ الیکٹرک شاک میرے لیے بہت سخت، ناقابل برداشت اور تکلیف دہ تھا لیکن خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ شاک کامیاب رہا اور اس کے بعد بتدریج ہم افاقہ کی طرف گامزن ہونے لگے، راحت کی سانسیں آنے لگیں اور رشتے داروں نے بھی راحت و آرام کی سانس لی۔ دو دن آئی سی یو میں رہنے کے بعد ایک اپریل 2024 کو الحمدللہ نارمل حالت میں واپس گھر آگئے۔جب اپنی بیماری کی حالت، کیفیت اور ہاسپٹل میں مشینوں کے درمیان گزرے ایام پر نظر کرتا ہوں تو شاعر کا یہ شعر زبان پر آجاتا ہے کہ
موت مجھ کو دکھائی دیتی ہے
جب طبیعت کو دیکھتا ہوں میں
ان مشکل گھڑیوں میں میرے بھائی، میری بہن، میری اہلیہ، میرے سارے مامو اور چاچا، مامو زاد و چچازاد بھائیوں اور سارے رشتے داروں نے کماحقہ ساتھ دیا۔ ہاسپٹل میں گرچہ علاج و معالجہ میں بہت خطیر رقم صرف ہوئی اور اخراجات بہت طویل ہوئے لیکن تمام مراحل میں بہت سہولیات دستیاب رہیں، بھاگلپور اور کولکتہ دونوں جگہ ڈاکٹرز اور ان کا عملہ نرس وغیرہ بہت عزت و احترام اور محبت سے پیش آئے، ہروقت خصوصی خیال رکھا، جس سے خوش ہوکر ہم لوگوں نے اسپتال کے اخراجات سے ہٹ کر عیدی کے نام پر ڈاکٹرز کو کچھ نذرانہ بھی پیش کیا، جس سے وہ دونوں بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیں۔ ان مشکل لمحات میں میرے تمام رشتے داروں نے جس ہمدردی اور محبت کا اظہار کیا جس طرح غم میں شریک رہے وہ ناقابل فراموش ہے۔ اتنے مہنگے علاج کے لیے یک مشت اتنی بڑی رقم کا انتظام بہت مشکل ہوسکتا تھا لیکن میرے بھائیوں، رشتے داروں، چند مخلص شاگردوں اور مخصوص تعلق داروں نے ہدئے کی شکل میں مالی معاونت کی، جس کا شکریہ ادا کرنے سے میں قاصر ہوں، میں اپنے بھائیوں، تمام رشتے دارو اور محبین و متعلقین کا بے حد شکر گزار ہوں اللہ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
میں تحدیث نعمت کے طور پر اس امر کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے لیے جس دلسوزی و فکر مندی کا اظہار لوگو نے کیا، رابطہ کرکے ہر پل کی خبر گیری کے مشتاق رہے، میری تحریریں پڑھنے والے، میرے شاگرد اور جن جن کو میری بیماری کی خبر پہنچی سب ہر وقت متفکر رہے۔ مدرسہ نور الاسلام کے اساتذہ، طلبہ، مجھ سے استفادہ کرنے والے اور میری تحریریں پڑھنے والے سبھی پریشان غمزدہ اور دکھی تھے۔ بطورِ خاص مولانا اسد اللہ صاحب ندوی، مولانا اسلام ندوی، مولانا محمد ارشاد ندوی، مولانا ابوبکر ندوی، قاری غلام رسول اور مولانا شعیب ندوی، مولانا فاروق ندوی، مولانا رحمت ندوی وغیرہ بہت متفکر رہے اور خبر گیری کرتے رہے، غلام رسول صاحب ہاسپٹل بھی آئے اور گھر پر بھی آکر عیادت کی۔ فاضل دیوبند اور شاگرد خاص مولانا زاہد ناصری، ناظم مدرسۃ الصفہ حیدرآباد سے بطور خاص عیادت کے لیے آئے۔ میرے ندوے کے ساتھیوں میں اسلم عزیز ندوی، ڈاکٹر عبید قریشی ندوی، مصور حسین ندوی نیز ندوے کے اساتذہ بطور خاص مولانا رحمت اللہ ندوی نے حالات دریافت کیے۔ اللہ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
دوسری طرف گھر پے قطار در قطار لوگوں کی عیادت کی ازدحام کی وجہ سے قریبی و بعیدی رشتے داروں و احباب و متعلقین سے گزارش کرنی پڑی کہ مولانا کی عیادت کے لیے برائے مہربانی چار پانچ ہفتوں تک تشریف نا لائیں کیوں کہ ڈاکٹرز نے مکمل آرام کا مشورہ دیا ہے، پھر لوگوں نے اس نازک مسئلے کا خیال بھی رکھا، میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں کی یہ فکر مندی و دلسوزی دین کی جو بھی خدمت میں نے کی اور انشاء اللہ آئندہ بھی جاری رہیگی یہ اسی کی برکت اور ثمرہ ہے۔
میری حالت ایسی نہیں تھی کہ دور دراز کے محبین و متعلقین تک حالات کی خبر میں پہونچا سکتا بلکہ فون استعمال کرنا بھی ممنوع تھا، لیکن اس ضمن میں سلمان ریاض نے دیگر اہم مصروفیات کے ساتھ ساتھ اس کام کو بھی بحسن و خوبی انجام دیا اور لوگوں کو سوشل میڈیا کے توسط سے باخبر کرتے رہے، عزیزم محمد ظفر بھی اس میں شریک رہے۔
الحمدللہ ثم الحمدللہ آپ سب کی دعاؤں سے مجھے یہ دوسری زندگی ملی ہے۔ میں آپ سب کا بے حد شکر گزار ہوں، جن لوگوں نے معاونت کی، دعائیں دیں، فکر مند رہے، ہاسپٹل میں ساتھ رہے، خدمت کی، دقت محسوس ہونے نہیں دیا۔ میرا قلم اور میری زباں اس بات سے قاصر ہے کہ میں کن الفاظ میں آپ سب کا شکریہ ادا کروں۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ آپ تمام لوگوں کو حسن سلوک کا عظیم اجر عطا فرمائے۔
فی الوقت میں گھر پر ہوں، ہنوز ضعف برقرار ہے تاہم الحمدللہ رو بہ صحت ہوں، دواؤں کا اہتمام جاری ہے، صحت کا خیال گھر والے بہت رکھتے ہیں۔ فی الفور عملی زندگی میں قدم رکھنا مشکل ہے۔ اگر سب کچھ نارمل رہا تو ان شاءاللہ محرم الحرام میں دوبارہ مدرسہ نور الاسلام جائیں گے۔ آپ تمام حضرات سے مزید مکمل شفایابی کی دعاؤں کی درخواست ہے۔ اللہ تعالیٰ عافیت و سلامتی میں رکھے۔