مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال
مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال

مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال ✍️ معصوم مرادآبادی _______________________ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی سے متعلق سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر ہے۔ یونیورسٹی میں مٹھائیاں تقسیم کی گئی ہیں اورعلیگ برادری کے ساتھ عام مسلمانوں نے بھی اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا […]

ٹرمپ کی جیت کے بعد۔!
ٹرمپ کی جیت کے بعد۔!

ٹرمپ کی جیت کے بعد۔! از:ڈاکٹرسیدفاضل حسین پرویز ___________________ ڈونالڈ ٹرمپ توقع کے مطابق دوبارہ امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے۔ وہ 1897سے لے کر اب تک تاریخ میں ایسے دوسرے صدر ہیں، جو متواتر دوسری میعاد کے لئے منتخب نہ ہوسکے تھے۔ ٹرمپ گذشتہ الیکشن ہار گئے تھے، اور 2024کا الیکشن جیت گئے۔ اس سے […]

مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں
مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں

– مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں ✍️محمد نصر الله ندوی ___________________ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس چندر چوڑ نے جاتے جاتے مدرسہ بورڈ کے حوالہ سے اہم فیصلہ دیا،مدرسہ ایکٹ 2004 پر فیصلہ سناتے ہوئے انہوں نے جو کچھ کہا،وہ بہت معنی خیز ہے،انہوں نے ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ کے فیصلہ کو پوری طرح […]

سید سرفراز احمد

تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

✍️ سید سرفراز احمد

____________________

لوک سبھا 2024 کے چار مرحلے مکمل ہوچکے ہیں جسمیں 380 نشستوں کا فیصلہ محفوظ ہوچکا ہے مزید تین مرحلوں میں 163 نشستوں کا فیصلہ ہونا باقی ہے مجموعی طور پر ملک کی 70 فیصد رائے دہی ان چارانتخابی مرحلوں میں مکمل ہوچکی ہے ماباقی تین مرحلوں کی انتخابی رائے دہی دلچسپ ہونے کی توقع ہے جسکے بعد یہ پتہ چل جائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھنے والا ہے جسطرح سے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں عوامی رجحان صرف بی جے پی کی طرف جھکا ہوا تھا لیکن 2024 کے لوک سبھا انتخابات مختلیف زرائع سے ایک تبدیلی کا واضح اشارہ دے رہے ہیں جسکو ہم عوام کے شعور کی پختہ علامت  کہہ سکتے ہیں جو جمہوریت کی بقاء کیلئے جوق در جوق رائے دہی میں حصہ لیتے ہوئے اپنے مسائل پر کھل کر بات بھی کررہے ہیں ملک کی سیاسی جماعتوں نے ملک کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کے رول کو بھلے ہی سیاسی طور پر بہت پسماندہ بنادیا لیکن مسلمانوں کے نام پر سیاست ہمیشہ صف اول میں کھڑی رہی اور تاریخ اس بات کی شاہد ہیکہ فسطائی طاقتیں مسلمانوں کے نام پر اس ملک میں اپنی پراگندہ سیاست کو فروغ دیتے ہوئے آگے بڑھی ہیں جسکا سلسلہ ہنوز جاری ہےتھوڑا سا توقف کریں اور سونچیں کہ کیا اگر اس ملک میں مسلمان کا نام لیوا کوئی نہ ہوتا تو اس ملک کی سیاست اور موجودہ فسطائی طاقتوں کا کیا حال ہوتا؟اس پس منظر میں یہی کہا جاسکتا کہ موجودہ فسطائی طاقتیں ہندو سماج کو بھی تقسیم کردیتی ان میں بھی بھید بھاؤ کرتے ہوئے پھوٹ ڈالو اور سیاست کرو پر عمل پیرا ہوتی کیونکہ انکے نزدیک سیاست کو اس نچلے درجہ کا مقام بنادیا گیا جنھیں نہ دھرم نہ بھگوان رام اور نہ انکی تعلیمات کی پرواہ ہے وہ تو اپنی گھناؤنی سیاست کیلئے سناتن ہندو دھرم کو ماڈرنزم کے طور پرہندوتوا کا نام دے کر پیش کررہے ہیں جبکہ سناتن ہندو دھرم کی تعلیمات ہندوتوا کی تعلیمات  سے بالکل مختلیف ہے آج ہندو سماج کی نئی نسل میں اسی ہندوتوا کی تعلیمات کو  انکا اصل ہدف بتایا جارہا ہے جو صرف سماج کے دیگر مذاہب میں امتیاز کرنے اور نیچا دکھانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ورنہ اگر یہ فاشسٹ اغیار سناتن ہندو دھرم کی تعلیمات سے واقف ہوتے یا بھگوان رام کی دی گئی تعلیمات پر عمل پیرا بننا چاہتے تو آج یہ اس نفرت کی سیاست سے دور رہتے کسی مذہب کو مخصوص سازشوں کے تحت ظلم و ذیادتی کرنے سے گریز کرتے یکتا کے گن گاتے لیکن انھوں نے حد سے تجاوز کرتے ہوئے نہ صرف اپنے بھگوان رام کی تعلیمات کو فراموش کیا بلکہ اس ملک کی سالمیت اور گنگا جمنا تہذیب کو ملیامیٹ کرتے چلے گئے محض صرف اسی لیئے کہ یہ صاحب اقتدار بنے رہیں اور اپنی چار دن کی چاندنی میں مصروف رہیں۔

موجودہ پارلیمانی انتخابی ریالیوں میں ملک کے چاروں سمت میں نفرت،مندر مسجد،ہندو مسلم کی صدائیں گونج رہی ہے بی جے پی کے اعلی قائدین سے لیکر ادنی قائدین بھی اس مہم میں برابر کے شراکت دار ہیں جنکی گفتگو سے یہ اندازہ مل رہا ہیکہ وہ ملک کی عوام میں نفرت کو بانٹ کر اسی سے انکا پیٹ بھرنا چاہتے ہیں اور انکی انتخابی تقریر کا انداز بھی اتنی نچلی درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ انھیں اپنے اقتدار کے آگے کچھ نظر نہیں آرہا ہے نہ باوقار عہدے کا پاس ولحاظ رکھا جارہا ہے نریندر مودی جو انتخابی ریالیوں میں ہر روز اپنی زبان سے ایک ایسا تریاق اگل رہے ہیں جو سماج کے ماحول کو نفرت میں بدل رہا ہے جو کچھ بچی کچی ہم آہنگی کو بھی ختم کرسکتا ہے نریندر مودی نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ میں جس دن بھی ہندو مسلم کی سیاست کرونگا عوامی زندگی کے لائق نہیں رہوں گا بلکہ مودی جی نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہمارے یہاں میرے بچپن میں عید کے دن مسلمانوں کے گھر سے کھانا آتا تھا پھر اگلے ہی دن یوٹرن لیکر جھار کھنڈ اور مہاراشٹر میں وہی ہندو مسلم کی سیاست کا ڈنکا بجاتے رہے کہا کہ کانگریس مرکزی بجٹ میں سے پندرہ فیصد بجٹ مسلمانوں کو دینا چاہتی تھی ہم نے اس کام کو سختی سے روکا کانگریس ایس سی ایس ٹی او بی سی کے تحفظات کو حذف کرتے ہوئے مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے کمال کی بات یہ بھی ہیکہ جس سے ہم مسلمان ابھی تک واقف نہیں تھے جسکا خلاصہ مودی جی نے گودی میڈیا کے سامنے کرتے ہوئے کہا کہ میں نے رمضان میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر ہورہے حملوں کو اسرائیلی وزیراعظم نتن بنجامن یاہو سے بات چیت کرکے رکوایا بات یہیں نہیں رکی بلکہ انھوں نے کہا کہ مجھے عوامی تشہیر کی ضرورت نہیں ہے لیکن ہم سب نے پڑھا بھی اور دیکھا بھی ہیکہ رمضان میں بھی صیہونی اسرائیل جنگ کی شدت میں کسی بھی طرح کی کوئی کمی باقی نہیں رکھی اب مودی جی کو بھلا یہ کون سمجھائے کہ آپ کتنی دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں جو ایک وقت کے وزیراعظم کی شخصیت کو زیب نہیں دیتا دراصل ایک جھوٹ بولنے والا انسان ہر بار یہی کہتا کہ میں جھوٹ نہیں بولتا حالانکہ وہ جھوٹ بولتا ہی رہتا ہے مودی جی کے دو چہرے ہیں ایک عوامی اور دوسرا میڈیائی یعنی جو عوام میں بولتے ہیں وہ میڈیا میں نہیں اور جو میڈیا میں بول رہے ہیں وہ عوام میں نہیں قبل ازیں بھی انھوں نے مسلمانوں کے تیئں نفرت اور زہر اگل کر دھواں دھار بیاٹنگ کرتے رہے کیا ایک وقت کے وزیراعظم کے جملے صرف جملے بازی تک محدود رہ سکتے ہیں؟ہرگز نہیں بلکہ یہ ایک مخصوص قسم کی آئیڈیالوجی سے وابستہ ہونے کی کھلی دلیل ہے جو انکی نسوں میں دوڑ رہی ہے اور جسم میں پیوست ہے ایک وزیر اعظم کے جملے انکے ماتحتوں کیلئے مشعل راہ بن جاتے ہیں جو ان دنوں سنا اور دیکھا جارہا ہے آسام کے وزیر اعلی ہیمنت بسوا شرما کہتے ہیں کہ جب ہم 300 پار ہوئے تو ہم نے رام مندر کا پران پرتشٹھا کروادیا اگر اب 400 پار ہوجائیں گے تو متھرا اور کاشی میں مندر بنائیں گے یکساں سول کوڈ بھی لائیں گے اور پاکستانی مقبوضہ علاقہ کو بھی ہندوستان میں ضم کریں گے کیا یہ سوال بسوا شرما سے نہیں پوچھا جانا چاہیئے کہ چین چار ہزار کیلو میٹر بھارت کی زمین پر قبضہ جمارہا ہے اور آپکی حکومت تماشائی بنی رہی اور دس سال آپکی حکومت رہی تب آپکو پی او کے کو بھارت میں ضم کرنے سے کس نے روکا تھا؟ اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سےانڈیا ٹی وی کے شو آپ کی عدالت میں رجت شرما سوال پوچھتے ہیں کہ مولانا سجاد نعمانی مسلمانوں سے مودی کے خلاف ووٹ دینے کی اپیل کی جس پر یوگی نے کہا کہ کچھ مولوی کٹ ملا لنگی پہن کر ہی بھاگنا چاہتے ہیں شائد یوگی بھول رہے ہیں کہ وہ کس لباس کو زیب تن کرتے ہیں مزید ایک اور انتخابی جلسہ عام میں مسلمانوں کو پاکستان جانے کا زہر اگلا بھگوا تنظیم کے زہر افشانی کرنے والے یتی نرسمہا نند نے مودی کے بیانات کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ آج جو کچھ مودی جی کہہ رہے ہیں وہ سب ہم نے دھرم سنسد میں کہہ دیا ہے تو پھر ہم غلط کہاں ہے؟جسکا عام فہم جواب یہی ہیکہ دھرم سنسد بھی اسی ہندوتوا ہی کی دین تھی جسمیں سادھو سنتوں نے  زہر اگلا تھا اور آج وقت کے بدلتے باوقار عہدے پر فائز وزیراعظم نے بھی اپنے آپ کو انہی کی صف میں کھڑا کرلیا جسکا صاف مطلب یہی ہیکہ یہ سب ایک ہی نظریہ کے کٹر حامی ہے۔

بی جے پی کا ہر قائد اس انتخابی ماحول میں سماج کے درمیان نفرت پھیلاکر رائے دہندوں کو اپنی جانب پرکشش بنانے کی مہم میں شریک ہے لیکن کسی میں یہ مجال نہیں ہیکہ وہ ملک کے مسائل پر سلیقے سے گفتگو کرے انتخابات کے تیسرے مرحلے کے بعد مسلمانوں کی آبادی کا شوشہ چھوڑا گیا تاکہ ہندو کو ڈرایا جائے اور اب چوتھے مرحلے کے بعد شہریت ترمیمی قانون ایکٹ کے تحت وزارت داخلہ کے سکریٹری کی جانب سے 14 افراد کو شہریت دی گئی یہ بھی دراصل سیاست کا ایک حصہ ہی ہے تاکہ ہندو طبقہ کی عوام میں یہ پیغام عام ہوکہ بی جے پی سرکار غیر تارکین وطن ہندو برادری کو بھارتی شہریت دے رہی ہے جس سے آئندہ تینوں انتخابی مراحل میں بی جے پی کے حق میں رائے دہی ذیادہ ہو ہم یہاں سیاسی مبصر پرشانت کشور کی وہ باتیں پیش کریں گے جنھوں نے لوک سبھا انتخابات کے ضمن میں ایک انٹریو کے دوران کہی انھوں نے بتایا کہ اس بار بی جے پی تلنگانہ، اڈیشہ، مغربی بنگال اور آندھرا پردیش میں اپنی لوک سبھا نشستوں میں اضافہ کرسکتی ہے اسی طرح بی جے پی مشرقی اور جنوبی ہند میں کافی فائدہ اٹھا رہی ہے جہاں وہ روایتی طور پر ہمیشہ کمزور رہی ہےجنوبی اور مشرقی ہند میں بی جے پی کا ووٹ شیئر اور سیٹ شیئر دونوں بڑھ رہے ہیں تاملناڈو میں بی جے پی کا ووٹ شیئر بڑھنے کے امکانات بتائے ہیں مزید کہا کہ میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ بی جے پی کو شمالی اور مغربی ہند میں بہت سی لوک سبھا نشستوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ یہ پہلے ہی سے بی جے پی کے سیاسی گڑھ رہ چکے ہیں اب یہاں ایک اور سینئر سیاستداں نیشنل کوآرڈینیٹر بھارت جوڑو مہم یوگیندر یادو جنھوں نے زمینی سطح پر خود ملک کی تقریباً ریاستوں کااحاطہ کرچکے ہیں اور عوامی رجحانات کو بھی حاصل کیا ہے انھوں نے خود اپنا ایک سروے کیا ہے انھوں نے کہا کہ تلنگانہ آندھرا میں بی جے پی کی لوک سبھا نشستوں پر اضافہ کا امکان ہے چونکہ آندھرا میں ٹی ڈی پی کو سبقت ملتی دکھائی دے رہی ہے جو این ڈی اے اتحاد میں شامل ہیں اور تلنگانہ میں بی آر ایس کا سیاسی گراف نیچے گرنے کی وجہ سے بی جے پی کو آگے بڑھنے کا موقع ملا ہے جبکہ بی جے پی کو بہار میں 15 اور اترپردیش میں  15 نشستیں ہاتھ سے جاتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں چندی گڑھ ،ہریانہ،دہلی،پنجاب،میں بی جے پی کو 10 نشستوں کا نقصان نظر آرہا ہے کرناٹک میں 10،راجستھان اور گجرات میں10،مدھیہ پردیش میں بی جے پی کو نشستوں کا نقصان تو نہیں لیکن ووٹ شیئر کم ہونے کے امکانات بتائے ہیں انھوں نے مدھیہ پردیش،چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ کل تین ریاستوں کو ملاکر بی جے پی کو 10 نشستوں کا نقصان ہونے کا امکان بتایا مہاراشٹر میں سب سے ذیادہ یعنی بی جے پی و این ڈے اے اتحاد کو 20 نشستوں کا نقصان ہونے کے امکانات بتائے ہیں یوگیندر یادو کا کہنا ہیکہ یوپی میں ہر پانچواں ووٹ جو سابق میں بی جے پی کے حق میں ووٹ دے چکا ہے وہ اس بار نہیں دے رہا ہے بہار میں ہر چوتھا ووٹ بھی اسی طرح ہے انھوں نے یہ بھی کہا کہ انکے یہ ہندسے کم سے کم لیئے گئے ہیں جو بڑھ کر زائد بھی ہوسکتے ہیں مجموعی طور پر یوگیندر یادو کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی اور این ڈی اے اتحاد 273 کی اکثریت پانے میں بہت پیچھے ہے یوگیندر یادو ایک شفاف شخصیت ہے جو سماج کی صورتحال کو آئینے کی طرح پیش کرتے ہیں اور ایک منجھے ہوئے قابل سیاستداں بھی ہیں ۔

اگر ہم یہاں پرشانت کشور اور یوگیندر یادو کی سروے رپورٹوں کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح طور پر عیاں ہورہی ہیکہ شمالی و مغربی ہند اور جنوبی ہند کا بیشترحصہ انڈیا اتحاد کے ساتھ چل رہا ہے اور چونکہ ہمیشہ شمالی ہند ہی ملک کا مستقبل طئے کرتا آیا ہے یعنی شمالی ہند کی عوام کا جھکاؤ جدھر ہوگا وہی صاحب اقتدار تک رسائی حاصل کرتا آیا ہے اگر بی جے پی اور این ڈی اے کو بیشتر ریاستوں میں گذشتہ کے مقابلے 90 لوک سبھا نشستوں پر نقصان ہورہا ہے تو وہیں پر جنوبی و مشرقی ہند میں کچھ نشستوں پر فائدہ ہورہا ہے تو اس نسبت سے بی جے پی این ڈی اے اتحاد 220اور 250 کے درمیان پھنس سکتی ہے تب ہی اس زمینی صورتحال کا اندازہ لگاتے ہوئے بی جے پی قائدین نے ہندو مسلم مندر مسجد کی سیاست کا زہر پھیلا کر نفرت کی دیوار کو مزید بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ یہ سیاسی مفادات کی تکمیل کو پورا کرسکیں اور اپنی بے لگام زبان سے مسلمانوں کو نچوڑنے کا کام کررہے ہے لیکن اس بار نفرت کا رنگ بہت پھیکا پڑ چکا ہے جسکا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ بی جے پی و ہندوتوا کے اعلی قائدین جنمیں وزیر اعظم نریندر مودی امیت شاہ یوگی ہیمنت بسوا شرما شامل ہیں جو سماج میں گہری نفرت گھولنے کے باوجود بھی سماج کے طبقات پر اسکا کچھ بھی اثر نہیں پڑرہا ہے یعنی سیاسی قائدین اور زہر افشانی کرنے والوں سے کہیں ذیادہ بہتر آج کاسماج بن چکا ہے جو سماج کی سوچ میں ایک بہت بڑی مثبت تبدیلی کا مثبت اشارہ ہے اسی تذبذب کا شکار مودی جی پچھلے دس سالوں میں کبھی میڈیا میں نظر نہیں آئے اور نہ کوئی پریس کانفرنس کی لیکن آج وہ انتخابی مہم میں مصروف رہنے کے باوجود بھی میڈیا کی ایک آنکھ بنے ہوئے ہیں بہر کیف ملک کی مجموعی انتخابی صورتحال صبح نو کی دستک دے رہی ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: