✍️ محمد قمر الزماں ندوی
_____________________
اولاد کی تعلیم و تربیت ایک اہم ،نازک و حساس اور ذمہ دارانہ عمل ہے ،جس سے بے توجہی اور پہلو تہی انسان کے لیے دنیا و آخرت میں وبال جان ثابت ہوسکتی ہے ۔ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے اور تربیتی اصولوں اور مبادی اسلام کی رعایت کیساتھ دلچسپی لی جائے، تو یہی اولاد دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک دل کا سرور اور ذخیرہ آخرت اور صدقئہ جاریہ بن سکتی ہے ۔بچوں کی تربیت اور تعلیم یہ ایک فن اور ہنر ہے اور بہت نازک فن ہے ، بچہ کی مثال خوبصورت پودے کی سی ہے ،اگر اس کی تراش خراش میں مالی نے چمن بندی اور باغبانی کے اصولوں کی رعایت کرتے ہوئے محنت کی تو پودا چمن کا ایک خوبصورت حصہ بنے گا ورنہ ایک بدصورت جنگلی گھاس کی شکل اختیار کرکے چمن کے حسن کو بھی غارت کر دے گا ۔ اسی مالی کی طرح والدین کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ قرآن و حدیث کے تربیتی منہج اور تعامل سلف کیساتھ زمانے کے تقاضوں اور بچے کی نفسیات سے واقف ہوں اور یہ سمجھ کر تربیت کریں کہ یہ بچے ان کے لئے صدقئہ جاریہ بن سکتے ہیں ۔ (مستفاد پیش لفظ از کتاب، ،، بچوں کی تربیت کیسے کریں؟،، مرتبہ راقم الحروف)
یاد رہے کہ آدمی آدھا تو مادر شکم ہی میں تخلیق پاتا ہے اور آدھے سے بہت زیادہ ولادت کے بعد ۔ آدمی کے اعضاء ،جوارح تو مادر شکم میں ہی بنتے ہیں تاہم سیرت و کردار ،قابلیت و لیاقت اور جوہر ذاتی کے پروان چڑھنے کا میدان تو ولادت کے بعد ہی ہے ۔ قدرت ابتداءاً اپنی تخلیق کی نوک پلک خود ہی درست کرتی ،بناتی ،سنوارتی اور کسی حد تک سجاتی بھی ہے اور پھر وہ اس کو دوسروں کے حوالے کر دیتی ہے کہ وہ اس کی زلفیں آراستہ کرتے رہیں اور گیسو سنوارتے جائیں ،یہاں اس مادر گیتی میں ہمارا اور آپ کا یہی کام ہے کہ قدرت کی شاہکار تخلیق (ابن آدم) کے دست و پا کی حنا بندی کریں ۔۔
راقم الحروف کی اس اہم موضوع پر ایک کاوش "بچوں کی تربیت کیسے کریں؟” کے نام سے کتابی شکل میں موجود ہے ۔ یہ کتاب دو سو چونسٹھ صفحات پر مشتمل ہے ، جس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ۔ اس کتاب میں تربیت کے موضوع پر اس فن کے ماہرین کی تحریروں کو شامل کیا گیا ہے، اور بعض مضامین راقم نے خود تیار کئے ہیں ۔ ذیل میں مذکورہ کتاب سے مشہور علمی شخصیت جناب سید حامد صاحب (مرحوم) سابق وائس چانسلر، (علیگڑھ مسلم یونیورسٹی علیگڑھ) کا مضمون جو ،،بچوں کی تربیت،، کے عنوان سے ہے، ہم اسے من و عن پیش کرتے ہیں ۔ تاکہ قارئین اس سے استفادہ کریں اور اس کی اہمیت کو سمجھیں ۔( م ق ن )
بچوں کو بڑی تعداد میں ایک جگہ دیکھئے ، رنگارنگ پھولوں کا چمن کھلا ہوا ملے گا، رنگ ہی نہیں ، بناوٹ ، قامت، خوشبو، عادت ، طبیعت ، طور طریقے سب کچھ ایک دوسرے سے مختلف اور اس کے ساتھ ساتھ بے شمار باتیں مشترک اور ایک دوسرے سے ملتی ہوئیں، ان کو پالنا، پوسنا، پروان چڑھانا بظاہر بہت آسان ہے، سبھی بچے ہی تو ہیں، بچوں کی تربیت کے چند اصول ہیں ، انھیں اٹھائیے ، یہیں پر ماں باپ سے غلطی ہوتی ہے، ہر بچہ ایک علاحدہ طرز تربیت کا طالب ہوتا ہے، وہ اسے نہ ملے تو اس کی نشو و نما میں خلل پڑ جائے گا، وہ تربیت کی کوتاہی کی بنا پر اپنے مکان کو نہ پہنچ پائے گا، جس کی قدوقامت کے عناصر اس کی سرشت میں ہیں ، اس سے وہ محروم رہ جائے گا، ایک ہی نسخہ ہر بچے کی تربیت میں کام نہیں آتا، ماں باپ نے اگر مصروفیت یا لاعلمی یا بے فکری کے سبب اپنے بچوں کو پڑھنے ، انھیں جاننے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی ، ان کی افتاد طبع کو نہیں پہچانا، ان کے چھپے ہوئے رجحانات اور دبے ہوئے امکانات کو نہیں ٹٹولا تو وہ ان کی تربیت کا حق ادا نہیں کر سکیں گے۔
مشرق میں عام طور پر زیادہ زور بچوں کو با ادب بنانے پر صرف کیا جاتا ہے،شروع سے ہی انھیں ایک نظم کا پابند کر دینے سے تربیت کی راہ سہل ہو جاتی ہے،نظم وضبط کو نافذ کر دیجیے تو پھر انفرادی اوصاف کی رعایت بھی نہیں کرنی پڑتی ، بعض بچے خوشی خوشی مودب بن جاتے ہیں، سعادت مندی کا جامہ پہن لیتے ہیں، جو کچھ کہا جائے وہ کرتے ہیں ، ماں باپ اور بڑے بھائی بہنوں کے اشارے پر چلتے ہیں، بغیر اجازت کے اپنی جگہ سے نہیں ہلتے ، ہر چیز اپنی جگہ پر رکھتے ہیں، باقاعدگی ان کی رگ وپے میں سرایت کر جاتی ہے، والدین کے لیے وہ مسائل نہیں پیدا کرتے ، ہمسائے اور ماں باپ ایسے والدین کو مبارکباد دیتے ہیں ، ان پر رشک کرتے ہیں۔
دوسرے وہ بچے ہیں جو شرارت پر تلے رہتے ہیں اور موقع پڑ جائے اور تادیب کا پانی سر سے گزرنے لگے، تو سرکشی پر آمادہ ہو جاتے ہیں، کوئی چیز جگہ پر نہیں رکھتے، کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرتے ، بھائی بہن کو ستاتے ہیں، ان سے لڑتے ہیں، اسکول سے ان کی شکایتیں آتی ہیں کہ یہ ہوم ورک نہیں کرکے لاتے ، کلاس میں ان کا ذہن بھٹکتا رہتا ہے، کبھی کسی لڑکے کو نوچ لیا، کبھی کسی کو منھ چڑھا دیا ، ان بچوں سے والدین عاجز رہتے ہیں، اور سوچتے رہتے ہیں کہ الہی بڑے ہو کر کیا کریں گے ، خاندان کی ناک کٹوادیں گے، ہمسائے ان سے چڑھتے ہیں ،ان کے والدین پر ترس کھاتے ہیں-
در اصل نہ پہلا ردعمل صحیح تھا ، نہ دوسرا۔ بچوں کو ایک روایتی سانچے میں ڈھالنے اور بے ضرر بنا دینے کی روش والدین کے لیے آسانیاں پیدا کرتی ہے، لیکن بچوں کی انفرادیت کو نقصان پہنچاتی ہے، ان کی شخصیت کو سپاٹ بنادیتی ہے اور ان کے بہت سے جوہروں کو دبا دیتی ہے اور ان کے اعتماد کو یہ کارروائی کبھی کبھی کچل دیتی ہے، ان کے حوصلے کو نڈھال کر دیتی ہے، وہ پیش قدمی سے محروم ہو جاتے ہیں ، اپج اور اختراع ، سرفرازی اور سینہ تانی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، زندگی دراصل کھیل ہی ہے حوصلہ کا ، حوصلہ نہ رہا تو بچا کیا ؟
لہذا والدین کو کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے کہ بچوں کا حوصلہ ٹوٹے ، وہ شرارت کریں گے ، ضرور کریں گے، مناسب حدوں کے اندر شرارت کرنے کی اجازت دیجیے کہ شرارت میں ذہانت اور اختراع اور پیش قدمی کے لیے راہیں نکلتی ہیں ، یہ بات شروع سے ہی ان کے دل میں بٹھا دی جائے کہ ایسی شرارت ،جو دوسروں کو نقصان پہنچائے یا ان کا دل دکھائے شرارت نہیں رہتی، بلکہ برائی میں بدل جاتی ہے اور برائی اس گھر میں گوارا نہیں کی جائے گی ، بچے توڑ پھوڑ بھی کریں گے، کرنے دیجیے، البتہ قیمتی چیزوں کو ان کی دسترس سےدور رکھئے، کون سی بات زیادہ اہم ہے، گھر آراستہ رہے یا ان کی شخصیت سنورے نکھرے، نت نئے تجربوں کی روشنی میں چمکے؟ پورے گھر کو ان کی جولان گاہ بننے دیجیے، یہ کیا کہ ایک کمرے میں مقید کرکے رکھ دیا عمر بڑھے گی ، جستجو پروان چڑھے گی تو کل پرزوں کو اس لیے کھولیں گے کہ پھر سے انھیں جوڑ دیں، یہ عمل کچھ مہنگا پڑے گا، پڑنے دیجیے، آدمی پیدا ہی جستجو کے لیے ہوا ہے، اس دنیا میں اسے اتارا بھی گیا ہے، ایک ابتدائی جستجو کی پاداش میں، جستجو کا گلا گھونٹ دیا گیا تو شخصیت کا ارتقاء، اس کا کس بل ختم ہو جائے گا، کپڑے اچھے پہنا دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، پھر تو یہ فکر دامن گیر ہو جاتی ہے کہ کہیں یہ میلے نہ ہو جائیں اور یہ پھٹ نہ جائیں اور یہ فکر بچوں کو زمین پر کھیلنے سے محروم کر دیتی ہے۔
دوسرے سرے پر وہ والدین ہیں جو دفع شر اور عافیت کے لیے اپنے بچوں کی ہر ضد کو پورا کر دیتے ہیں، والدین بچے کی طبیعت کو شاید دیر میں سمجھتے ہوں، بچے والدین کی کمزوری کو جلد پہنچان جاتے ہیں، ان کا استحصال کرتے ہیں، انھیں بلیک میل کرتے ہیں، اگر ماں باپ دونوں کام کرتے ہوں تو بچوں میں یہ رجحان اور بڑھ جاتا ہے، وہ تلافی مافات کے لیے چاکلیٹ، آئس کریم اور دوسری فرمائشی چیزوں سے بچوں کا منھ بھر دیتے ہیں، بند کر دیتے ہیں ، ایسے بچے بری طرح بگڑ جاتے ہیں۔
درمیانی راہ بہر حال صحیح ثابت ہوتی ہے، والدین کو یہ خیال ہمیشہ رہنا چاہیے کہ ہر بچہ اپنی انفرادیت رکھتا ہے، اس خالق کائنات کے اہتمام آفرینش کے صدقے آج تک دو بچے ایک شخصیت کے ساتھ پیدا نہیں ہوئے، ہمیں ہر بچہ کی منفرد شخصیت کا احترام کرنا چاہیے، ہر بچہ تخلیق کا شاہکار ہے، اس شاہ کار کو دیکھنے، پڑھنے ، پہچانے اور سمجھنے کی کوشش بچے کے والدین پر واجب ہے، بچے مٹی کے ڈلے نہیں ہیں کہ ان پر پٹیلا چلا دیا جائے اور سارا کھیت ہموار ہو جائے ۔
اپنے بچوں کو وقت دیں، انھیں سمجھیں ، ان کے خوابوں، آرزوؤں تمناؤں اور ان کے طرز فکر کو پہچانیں، اتنا تو سبھی کر سکتے ہیں کہ نہ تو بچوں کی شخصیت پر اسٹیم رولر چلائیں نہ ان کی شرارتوں سے بدکیں اور نہ بے جا لاڈ سے بچوں کے مقدر کو بگاڑیں-( ماخوذ از کتاب ، بچوں کی تربیت کیسے کریں ؟ مرتبہ راقم الحروف ص، 57- 59)