✍️محمد عادل امام قاسمی
__________________
27/مئی 2024 مطابق 18/ذیقعدہ 1445ھ بروز منگل بعد نماز فجر حضرت مولانا پروفیسر سید محمد طارق حسن صاحب نوراللہ مرقدہ سابق مہتمم جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ یوپی کے انتقال کی خبر سوشل میڈیا کے ذریعے ملی کہ شب ساڑھے بارہ بجے انہوں نے اپنی جان جاں آفریں کے حوالے کردی(انا للہ وانا الیہ راجعون) . یہ خبر باشندگان امروہہ اور ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے علماء برادری کے لیے بڑی المناک ہے.مرحوم نے تقریباً 80 سال کی عمر پائی اس دوران آپ نے بے شمار کارہائے نمایاں خدمات انجام دی.
آپ نے تقریباً سترہ برس مدرسہ جامع مسجد امروہہ کے مہتمم اور امام شہر امروہہ کے طور پر خدمت انجام دی. آپ فارسی اور اردو کے قادر الکلام شاعر، ادیب اور ساتھ ہی کئی کتابوں کے مصنف تھے ، تقریباً پینتیس سال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ فارسی میں بحیثیت لیکچرار، ریڈر اور پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دی، اخیر میں صدر شعبہ کے طور پر کام کیا اور ملازمت سے سبکدوش ہوگۓ.
میری یاد داشت کے مطابق 2007 کے اوائل میں آپ اپنے گرامی قدر بردار خورد مولانا سید محمد قاسم صاحب نوراللہ مرقدہ(سابق مہتمم جامع مسجد امروہہ) کی انتقال کے بعد آپ علی گڑھ سے امروہہ تشریف لاۓ اور جامع مسجد کے اہتمام کو سنبھالا اور مہمان رسول کی میزبانی کے لیے اپنے کو وقف کردیا. اس وقت ناچیز امروہہ کے کسی دوسرے مدرسہ میں درجہ حفظ کا طالب علم تھا، تقریباً نو پارہ میرے حفظ ہوۓ تھے، اس لیے 2011 تک صرف مرحوم سے راستہ چلتے راہ گذرتے صرف سلام اور مصافحہ کے حد تک ملاقات رہی، 2011 کےوسط سال میں جب جامع مسجد میں درجہ عربی اول کا طالب علم ہوا تو آپ کے مشفقانہ لہجے، کردار اور انداز سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا، آپ ہمیشہ نرم گفتاری کامظاہرہ فرماتے تھے، طلبہ کے حوالے اصول پر قائم رہتے ہوئے مشفقانہ فیصلہ فرماتے، طلبہ اور اساتذہ ہر ایک کے ساتھ نرمی کا معاملہ فرماتے تھے گویا کہ آپ علامہ اقبال کے اس شعر کے مصداق تھے :
نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم، پاک دل وپاکباز
جامع مسجد امروہہ نے آپ کے دور اہتمام میں تعلیمی وتعمیری اعتبار سے خوب ترقی کی ہے، اگر میرا ذہن خطا نہ کررہا ہوتو 2007 سے قبل جامع مسجد امروہہ میں شعبہ حفظ وناظرہ، شعبہ تجوید وقرأت اور درس نظامی کے علاوہ کوئی اور باضابطہ شعبہ نہیں تھا، مذکورہ تمام شعبوں کے علاوہ فی الحال جتنے بھی شعبے ہیں وہ سب کے سب مولانا مرحوم کے دور اہتمام کی یادگار ہیں ، اسی طرح تعمیراتی اعتبار آج جو بھی زرق وبرق،منقش اونچی عمارتیں اور طلبہ کی تعداد ہے وہ بھی مولانا مرحوم کے سترہ سالہ دور اہتمام کی برکت ہے. طلبہ کی تعداد کے ساتھ ساتھ عملہ کی موجودہ تعداد بھی تاریخ جامعہ کا زریں باب ہے.
مولانا مرحوم اپنی نستعلیق شخصیت، نفیس مزاج، مرنجا مرنج طبیعت، خاندانی شرافت ونجابت اور خدمات جلیلہ کی وجہ سے ہمیشہ عوام وخواص کے دلوں میں زندہ رہیں گے، آپ نے جو بھی تصنیفی اور تالیفی خدمات انجام دی ہیں وہ ہم خوردو کے لیے ایک لائحہ عمل اور مشعل راہ ہیں. ان کی تابندہ زندگی سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں، اللہ سے تعلق برقرار رہنا چاہیے اور مخلوق خدا کے ساتھ نرمی کا معاملہ استوار رہنا چاہیے، چونکہ نرمی اور خورد پروری آپ کا خصوصی وصف تھا.
اللہ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل جامعہ کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے(آمین)
بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن
خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را