Slide
Slide
Slide

حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی

حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی

از قلم: سہیل انجم

ندوۃ العلما لکھنؤ کے مہتمم اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کا آج 13 اپریل کو انتقال پرملال ہو گیا۔ خاکسار نے انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹڈیز کے فرمائش پر کئی سال قبل حضرت مولانا کا قلمی خاکہ لکھا تھا جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے:

کشادہ پیشانی، چہرہ نورانی۔ آنکھوں میں ذہانت کی چمک، گفتگو میں علمیت کی مہک۔ چال ڈھال میں وقار، مردِ مومن کا کردار۔ شیریں مقال و شیریں گفتار، امت مسلمہ کا اعتبار۔ خانوادہ علی میاں کے چشم و چراغ، صورت و سیرت میں بے داغ۔ پیکرِ حلم و مروت، صاحبِ مہر و محبت، سراپا شفقت و شرافت۔ جانشینِ رومی و رازی، میدانِ فکر و فلسفہ کے اسپِ تازی۔ بڑی خاموش طبیعت پائی ہے، بسیار گوئی یوں بھی باعثِ رسوائی ہے۔ بہت کم لب کھولتے ہیں، بولنے سے پہلے تولتے ہیں، بولتے ہیں تو کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی جان ہیں، قصرِ قوانینِ عائلی کے نگہبان ہیں۔ ندوۃ العلما کے سربراہ ہیں، صاحبِ عزوجاہ ہیں۔ عالمی رابطہ ادبِ اسلامی کے صدرِ نائب ہیں، اپنی رائے میں بڑے صائب ہیں۔ تعارفِ صاحبِ اعزاز بہ زبانِ فدوی ہے۔ آپ کا نام مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ہے۔

رائے بریلی میں سید رشید احمد حسنی کے گھر پیدا ہوئے،1929 کی نیک ساعتوں میں ہویدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم رائے بریلی میں پائی، پھر ندوۃ العلما کی راہ اپنائی۔ دستارِ فضیلت سے سرافراز ہوئے، اہل خاندان کے لیے وجہِ امتیاز ہوئے۔ وہ آزادی کے بعد کا سال تھا، فسادات کے غم سے ہر شخص نڈھال تھا۔ ملتِ اسلامیہ زخم خوردہ تھی، روحِ مسلمانانِ ہند افسردہ تھی، انسانیت اپنے آپ سے بھی شرمندہ تھی۔ ایسے خوں چکاں حالات میں، کشمکش موت و حیات میں۔ آپ نے زخموں پر علم کا مرہم رکھنے کا فیصلہ کیا، 1949 میں ندوہ میں درس و تدریس کا سلسلہ کیا۔ شعبہ عربی ادب میں استاد ہوئے، حلقہ اساتذہ میں شاد باد ہوئے۔ مگر طلب علم کی پیاس کہیں بجھتی ہے، شدتِ ذوق و شوق و جستجو ہو تو اور بھڑکتی ہے۔ لہٰذا مزید علمی استفادے کے لیے 1950میں حجاز روانہ ہوئے، حقیقت کی تلاش میں بہ راہِ مجاز روانہ ہوئے۔ وہاں متعدد علمی شخصیات سے استفادہ کیا، لائبریریوں کو فتح پاپیادہ کیا۔ ایک سال کے بعد مادرِ علمی نے واپس بلایا، پھر تدریس کے منصب پر بٹھایا۔ 1952 میں پروفیسر اسسٹنٹ ہوئے، گویا ندوہ کے لیے سینٹ پرسینٹ ہوئے۔ شعبہ عربی کی کرسی صدارت آپ کے حصے میں آئی، جس نے آپ کی ذات سے مزید عزت پائی۔ خود کو مادر علمی کے لیے وقف کر دیا، گوشے گوشے کو اپنے علم کی روشنی سے بھر دیا۔ محنت و مشقت اور امانت و دیانت کا انعام ملا، ندوہ کا منصبِ اہتمام ملا۔ نظامت میں نیابت مستزاد ہوئی، پھر تو ہر رنجیدہ طبیعت شاد ہوئی۔ مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی کی رحلت سے ہرفرد کو ملال تھا، ان کے جیسا کون صاحبِ کمال تھا؟ مگر انھی کی تربیت رنگ لائی، ان کی رحلت کے بعد نظامت بھی حصے میں آئی۔ آپ کی مساعی نے ہر تاریک گوشے میں اجالا کیا، اس عہدہ جلیلہ کی شان کو دوبالا کیا۔ قاضی القضاۃ مولانا مجاہد الاسلام قاسمی کو بھی آپ پر بھرپور اعتماد تھا، ان کا دل آپ کی محبت سے آباد تھا۔ ان کے بعد مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر ہوئے، پہلے ہلال تھے اب بدر ہوئے، پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ قابل قدر ہوئے۔

ہند و بیرونِ ہند کی متعدد تنظیموں میں شامل ہیں۔ اہلِ عالم آپ کی علمیت کے قائل ہیں۔ مجلسِ تحقیقات و نشریاتِ اسلام نے اپنا صدر بنایا۔ مجلسِ صحافت و نشریات نے اعلی عہدے پر بٹھایا۔ دینی تعلیمی کونسل بھی کہاں پیچھے رہتی، اس نے بھی اپنی کرسی پیش کر دی۔ رابطہ عالمِ اسلامی کے رکنِ تاسیسی ہیں۔ آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ کے ٹرسٹی ہیں۔ صدرِ دارِ عرفات ہیں، شجر علم پر ڈال ڈال نہیں پات پات ہیں، گویا آپ کے کمالات شش جہات ہیں۔ قومی و بین الاقوامی انجمنوں سے آپ کی وابستگی کہاں تک بتائیں۔ دو چار سلسلے ہوں تو گنائیں۔

صحافت کے بھی آپ مردِ میدان ہیں، مملکتِ لوح و قلم میں بھی آپ ذیشان ہیں۔ عربی مجلہ ”الرائد“ کے بانی ہیں۔ پندرہ روزہ تعمیر حیات کے سرپرستِ لاثانی ہیں۔ ایک انگریزی مجلہ The Fragrance of East بھی آپ سے فیضیاب ہے۔ ہندی ماہنامہ ”سچا راہی“ بھی ہم رکاب ہے۔ ماہنامہ معارف کی مجلس ادارت کے رکنِ رکین ہیں، سابق ارکانِ ادارت کے حقیقی جانشین ہیں۔ تصنیف و تالیف کے فن میں یکتائے روزگار ہیں، کتنے ہی شہنشاہِ قلم و قرطاس آپ کی اس خوبی پر نثار ہیں۔ آپ کی تصنیف کردہ عربی کتابیں اکیس ہیں۔ گویا دوسرے مصنفین آپ کے سامنے انیس ہیں۔ عربی ادب و ثقافت میں اختصاص ہے۔ فکرِ اسلامی آپ کا موضوع خاص ہے۔

آپ کی اردو تصانیف بھی کم نہیں، کون سی کتاب ہے جو علم و معرفت کے معاملے میں جام جم نہیں۔ ”جزیرۃ العرب کے جغرافیہ“ پر نظر ہے، غزل ردیف اور قافیہ پر نظر ہے۔ ”حج و مقاماتِ حج“ پر روشنی ڈالی۔ ”مقاماتِ مقدسہ“ کی تاریخ کھنگالی۔ انسانی زندگی کے لیے اسلامی شریعت کی ضرورت بتائی، ”امت اسلامیہ اور اس کی ثقافت“ بتائی۔ ”دو مہینے امریکہ میں“ سکونت کی۔ ”سمرقند و بخارا کی بازیافت“ کی۔ ”دین و ادب“ کا باہمی رشتہ بتایا۔ مسلمانوں کو تعلیم کی اہمیت کا پاٹھ پڑھایا۔ انھیں بتایا کہ ”امت مسلمہ رہبر اور مثالی امت“ ہے۔ ”سماج کی تعلیم و تربیت“ کی بڑی اہمیت ہے۔ ”غبارِ کارواں“ اور ”حالاتِ حاضرہ“ پر بھی نظر ہے اور علمِ”نقوشِ سیرت“ بھی مستحضر ہے۔ ”عالم اسلام اور سامراجی نظام“ کا تقابل کیا، آدھا ادھورا نہیں بلکہ کل کا کل کیا۔ کردارِ ”رہبر انسانیت“ پر اردو ہندی اور انگریزی میں روشنی ڈالی، سیرت محمدی کے انسانیت نواز نمونوں پر کھل کر گفتگو کی، ”مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی عہد ساز شخصیت“ کھنگالی۔ ”عصرِ جدید میں فقہ اسلامی“ کے رازداں ہیں۔ ”مسلم پرسنل لا بورڈ کے مزاج داں“ ہیں۔

مختلف ممالک کے سفر ہوئے۔ ایسے سفر جو وسیلہ ظفر ہوئے۔ ہوں ممالکِ اسلامیہ عربیہ یا بلادِ یوروپ وریاست ہائے امریکہ۔ سب آپ کے دیکھے بھالے ہیں۔ ہر جگہ آپ کے چاہنے والے ہیں۔ قومی و بین الاقوامی علمی سمیناروں کے آپ معزز مقالہ نگار ہیں۔ اخبارات و رسائل کے قلمکاروں کے قافلہ سالار ہیں۔

عربی زبان و ادب کی خدمات کے اعتراف میں صدر جمہوریہ نے 1982 میں ایوارڈ سے نوازا۔ انڈین کونسل اترپردیش نے بھی عزت افزائی کا ڈول ڈالا۔ رضا لائبریری رامپور نے بھی اعترافِ خدمات کیا۔ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نے بھی اس میں اضافہ کیا۔ آپ کو مبارک ہو ایوارڈ شاہ ولی اللہ، ہم سب بھی بہت خوش ہیں واللہ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: