✍️ محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ یوپی
__________________
اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے جو شریعت اور قانون ہمیں عطا فرمایا ہے، اس کے مختلف شعبے اور حصے ہیں ،ان میں سے ایک شعبہ اور حصہ اس قانون کا ہے جو انسانی سوسائٹی ،سماج اور معاشرے سے متعلق ہے ،جس پر خاندانی نظام کی بنیاد و اساس ہے ،جو سماجی تعلقات اور معاشرتی زندگی کے اصول بتاتا ہے ،جس میں خاندان کے مختلف افراد کے حقوق اور ان کی زمہ داریوں کو متعین کیا گیا ہے ۔ انہی قوانین کو کو عربی میں قوانین احوال الشخصیہ ،اردو میں عائلی قوانین اور انگریزی میں پرسنل لا یا فیملی لا کہتے ہیں ،، گویا اسلامی قوانین کا وہ حصہ جس کا تعلق انسان کی ذاتی اور شخصی زندگی سے ہے، یا جس کا تعلق مسلمانوں کی عائلی اور خاندانی زندگی سے ہے اسی کا نام پرسنل لا ہے ۔میاں بیوی ،باپ و بیٹا ،ماں و بیٹی بھائی وبہن ،چچا و بھتیجا خاندان کے ان سارے لوگوں کے تعلقات سے متعلق جو اسلامی قانون ہے اور نکاح و طلاق، رضاعت و کفالت ، ، مہر و نفقہ ،فسخ و خلع ،حضانت و ولایت ،ہبہ و وصیت اور وقف و وراثت سے متعلق جو اسلامی قوانین ہیں وہ مسلم پرسنل لا کہلاتے ہیں ۔
مسلم پرسنل لا مسلمانوں کے دین و شریعت کا ایک لازمی جز ہے ،ان کا عائلی قانون اور نظام اسی خدا کا بنایا ہوا ہے جس نے قرآن مجید اتارا اور عقائد و عبادات کا قانون عطا کیا، اس لیے مسلمانوں کی عملی زندگی دینی مشاغل و مظاہر سے کتنی خالی کیوں نہ ہو جائے مگر جب تک ان کے معاشرہ میں اسلام کے عائلی قوانین کی کارفرمائی ہے، کوئی بھی دوسری تہذیب و ثقافت ان کے قومی وجود اور ملی تشخص کو اپنے اندر ہضم نہیں کرسکتی ،۔۔
مسلمانوں کا جو عائلی قانون ہے، وہ قرآن وحدیث سے ماخوذ و مستفاد ہے ،عائلی قانون پر خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے بعد صحابہ اور تابعین نے قرآنی ہدایات اور پیام رسالت کو کس طرح برتا اور استعمال کیا، وہ بھی احادیث اور اسلامی تاریخ میں پورے وثوق و اعتماد کیساتھ محفوظ ہے۔۔تقریبا ساڑھے چودہ سو سال یہ مسلم پرسنل لا مسلمانوں پر نافذ ہے اور مسلمان دنیا کے چپے چپے اور گوشے گوشے میں، جہاں بھی آباد ہیں ،وہ اسی پرسنل لا پر عمل کرتے چلے آرہے ہیں ۔
مسلمانوں کے شخصی قوانین ان کی ملی شخصیت کے لئے اتنے ہی ناگزیر ہیں جتنا کہ کسی زندہ جسم کے لئے اس کے اعصاب ضروری ہوتے ہیں ،اس امر کی وجہ یا اس دعوے کی تصدیق کے لئے ملتوں اور تہذیبی گروہوں کی ساخت پر غور کیجئے اور دیکھیئے کہ ۔۔۔۔۔۔وہ کس طرح بنا کرتے ہیں ؟اور وہ کون سے مخصوص عناصر ہیں جو کسی مجموعہ افراد کو دوسرے تمام افراد اور گروہوں سے الگ ایک منفرد شخصیت رکھنے والے گروہ ایک مستقل ملت کی حیثیت دے دیتے ہیں ،یہ شخصی قوانین ملت اسلامیہ کی ملی روح کے بھی محافظ ہیں ،کیونکہ ملتوں کی زندگی اور موت کے مسئلے پر اگر گہرائی میں اتر کردیکھا جائے تو نظر آیے گا کہ کسی بھی ملت کے شخصی قوانین کی بقا سے ان کے عقائد و نظریات اور افکار کی زندگی وابستہ ہوتی ہے ،جن کی اساس پر اس کی تشکیل ہوتی ہے۔ اس لئے ہمارا پرسنل لا روح ملت کا محافظ ہے ،پرسنل لا سے محروم ہوجانے کے بعد ملت کی شخصیت کسی طرح برقرار نہیں رہ سکتی، کیونکہ جس پرسنل لا کی اہمیت ہوکہ وہ قوم کی مخصوص شخصیت کا قالب بھی ہوتا ہے اور اس کی روح کا محافظ بھی ،اس سے محروم ہوجانے کے بعد بھی ،اس کی شخصیت کا باقی رہ جانا بالکل غیر منطقی ہوگا ۔اس سے محرومی کے معنی واضح طور پر یہی ہوں گے کہ اس قوم کو اپنی شخصیت سے محروم کردیا گیا اور اس سے اپنی ہستی چھین لی گئی ۔۔
کسی کے پرسنل لا کی تنسیخ اور اس میں ترمیم و تغیر ایک خطر ناک اقدام ہے ،کیونکہ قوموں اور ملتوں کے پرسنل لا کی یہی وہ غیر معمولی اہمیت ہے جس کے باعث کوئی بھی ملت جس کے اندر خود داری اور خود شناسی کی رمق بھی باقی ہو اپنے پرسنل لا کو جان سے زیادہ عزیز رکھتی ہے اور ہر قیمت پر اس کی حفاظت کرتی ہے ۔اس سے اس کا نظریاتی رشتہ تو ہوتا ہی ہے ،گہرا جذباتی لگاؤ بھی ہوتا ہے،اور یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جس چیز سے انسان کو گہرا جذباتی لگاؤ ہوتا ہے ،اس کے بارے میں اس کے احساسات بھی بہت نازک ہوتے ہیں اور اس کی حرمت کی پامالی اس کے لئے بالکل ہی ناقابل برداشت ہوتی ہے ۔وہ اپنی دوسری چیزوں سے محرومی چاہے گوارا کرے ،مگر ایسی کسی عزیز ترین متاع سے محرومی کی وہ سوچ بھی نہیں سکتا ۔۔۔۔(مستفاد از خصوصی شمارہ مسلم پرسنل لا بورڈ نمبر ماہنامہ ھدایت جئے پور شمارہ نمبر مارچ 2015ء)
اتنی بات توسب لوگ جانتے ہیں کہ اسلام ایک کامل اور مکمل دین ہے ،یہ دین ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی پیش کرتا ہے ،جس میں زندگی گزارنے کے ہر دور اور ہر گوشہ کے لئے احکام و قوانین اور تفصیلی ہدایات موجود ہیں ،زندگی کے کسی گوشہ کو اور شعبہ کو تشنہ اور نامکمل نہیں چھوڑا ہے۔ انہیں قوانین اسلامی کا وہ حصہ جس کا تعلق انسان کی ذاتی اور شخصی زندگی سے ہے یا جس کا تعلق مسلمانوں کی عائلی زندگی اور خاندانی نظام سے ہے وہ مسلم پرسنل لا کے نام سے جانا جاتا ہے ،جس کی تفصیلات اوپر آچکی ہیں ۔۔
اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اسلام اور دوسرے مذاہب ،معاشروں اور نظام ہائے زندگی کا ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلام میں ازدواجی زندگی ،مرد و عورت کا تعلق اور عائلی رفاقت اور اس کی ذمہ داریاں اور ان کے باہمی حقوق و فرائض ،مذہب آسمانی اور شریعت خدا وندی کا ایک شعبہ اور دین کا ایک جزء ہے ،جس کے لئے آسمانی ہدایات ،شرعی قوانین اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم رہنما اور نمونہ ہے جب کہ دوسرے مذاہب اور دنیا کے معاشروں اور تمدنوں میں وہ زندگی کی ایک ضرورت ،ایک انسانی ،نسلی،اور تمدنی ،کبھی اختیار اور کبھی اضطراری بلکہ کبھی تفریحی اور التذاذی ضرورت ہے ،اس بارے میں اسلام کے امتیاز کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس کے آسمانی صحیفہ میں طبقہ اناٹ اور صنف ازدواج کو ایک احسان اور مردوں کے لئے ذریعہ سکون اور مستحق مودت و رحمت قرار دیا گیا ہے ۔۔
چنانچہ سورہ روم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ،، ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم الخ سورہ روم 21/
اور اس کے نشانات اور تصرفات میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہارے ہی جنس کی عورتیں پیدا کیں تاکہ ان کی طرف مائل ہوکر آرام حاصل کرو اور تم میں محبت و مہربانی پیدا کردی ،جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لئے ان باتوں میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔
پھر اس حقیقت خلقت اور مظہر رحمت کے آسمانی اعلان کے ساتھ جس کا تعلق طبقئہ اناٹ اور ازدواجی زندگی سے ہے ،نسل انسانی کے رہبر اعظم ،مربی و ہادی اور اسوئہ اعلیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور آپ کی سیرت و نمونہ ہے ،جس سے ازدواجی زندگی گزارنے کے لئے ہدایات اور رہنمائیاں ملتی ہیں ،، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دنیا ایک گزارہ کی چیز ہے اور اس کی سب سے بڑی دولت نیک بیوی ہے ۔۔صحیح مسلم ۔۔۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اہل ایمان میں سب سے زیادہ کامل ایمان وہ ہے جو سب سے زیادہ خوش خلق ہو اور تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں، جو اپنی بیویوں کے لئے سب سے بہتر ہوں ۔۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لئے تم میں سب سے بہتر ہوں ،،۔۔
عمرو بن الاحوص جوشمی روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حجة الوداع کے موقع پر سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں حمد و ثناء اورتذکیر و نصیحت کے بعد فرمایا ،،کہ عورتوں کے ساتھ اچھا معاملہ رکھو،اس لئے کہ وہ تمہاری زندگی میں تمہاری معاون اور رفیقئہ حیات ہیں ،ان کا حق ہے کہ تم ان کو اچھا کھلاؤ اور اچھا پہناؤ ۔۔ ترمذی شریف ۔۔۔
ازدواجی زندگی اور ازدواجی تعلق کی اہمیت کا اندازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خطبہ نکاح سے ہوتا ہے ،جس میں سورئہ نساء کی پہلی آیت پڑھی گئی ہے ۔۔اس میں نسل انسانی کے ارتقاء و آغاز کا تذکرہ ہے ۔۔۔۔ جو اس موقع کے لئے بہت ہی مناسب اور نیک فال ہے ۔۔اس آیت کی جامعیت اور اس کے اندر پنہا حکمت و مصلحت اور اس موقع پر دیگر جو آیتیں پڑھی جاتی ہیں ان کی تفسیر و تفصیل سے ہر مومن کو واقف ہونا چاہیے ۔۔۔
مذہب اسلام کے برخلاف مختلف قدیم مذاہب اور قدیم و جدید تہذیبوں میں عورتوں کو کیا درجہ اور حقوق دئیے گئے ہیں اس سے واقفیت بھی بہت ضروری ہے ،اس موضوع کا وسیع النظری اور ہمت و محنت کے ساتھ مطالعہ کی ضرورت ہے ،تاکہ اس تقابل سے معلوم ہوسکے کہ اسلام کا عائلی نظام کس قدر مضبوط و مستحکم اور انسانیت کے لئے کس قدر باعث رحمت ہے اور اس میں کس قدر سکون واطمینان ہے اور کیسی لذت اور شگفتگی ہے ، اس کا اعتراف دنیا کے عظیم مفکروں اور اسکالروں نے کیا ہے ،جس کی تفصیل باعث طوالت ہے اس لئے اس کا ذکر کسی اور موقع کے لئے چھوڑتے ہیں ۔۔
پھر ہم اصل موضوع پر آتے ہیں کہ مسلم پرسنل لا پر مسلمان جہاں بھی اور جس خطہ میں آباد ہیں چودہ سو سال سے زائد سے عمل کرتے چلے آرہے ہیں ۔تاریخ کے اس طویل دور میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں ،تہذیبیں بدلی ہیں۔ملکوں کے معاشرت اور طرز زندگی میں فرق آیا ہے اور نئے نئے مسائل پیدا ہوئے ہیں ۔ لیکن علماء امت اور فقہاء ملت نے کتاب و سنت اجماع و قیاس اور دیگر ذیلی مصادر کی روشنی میں نئے مسائل کو حل کیا ہے اور جدید تقاضوں کو سامنے رکھ کر اس کا جواب دیا ہے ،جںن سے شکوک وشبہات کا ازالہ ہوا ،معاشرہ میں پیدا ہونے والی دقتیں دور ہوئیں اور مسلم معاشرہ نے صلاح و فلاح کی سمت قدم آگے بڑھایا ۔۔
یہ شخصی اور گھریلو قوانین ہی وہ چیز ہے ،جس کے ذریعہ قوم کا امتیاز اور ملت کا تشخص باقی رہ سکتا ہے اور یہ پرسنل لا ہی وہ چیز ہے، جو ایک معاشرہ کو دوسرے معاشرہ سے الگ اور ممتاز کرسکتا ہے ،اسلامی پرسنل لا کے ذریعہ ایک ایسا معاشرہ تیار ہوتا ہے ،جس کی بنیاد خدا کے وجود اس کی وحدانیت اور اس کے ربوبیت پر ہوگی ۔اس معاشرہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام و پیام اور آپ کی سنت کا جلوہ ہر قدم پر نظر آئے گا ۔اس معاشرہ کا ہرفرد اپنے ایمان لانے کی ذمہ داری کو محسوس کرے گا اور اس یقین کے ساتھ کوئی عملی قدم اٹھائے گا کہ ہمیں خدا کے سامنے اپنے ہر کام کا جواب دینا ہوگا ۔۔( مستفاد از ماہنامہ ھدایت جئے پور شمارہ مارچ 2015ء۔۔۔۔۔)
ہندوستان میں اسلام کا آغاز حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور سے بتایا جاتا ہے کہ ان کے دور خلافت میں عرب کے لوگ ( بعض صحابہ کرام اور تابعین )بغرض تجارت ہندوستان آنے جانے لگے تھے ،وہ صرف تاجر ہی نہیں ہوتے تھے، بلکہ اس کے ساتھ وہ اسلام کے داعی دین کے مبلغ اور پیام امن کے سفیر اور نمائندہ ہوتے تھے ،ان کی تجارت میں امانت و دیانت داری کی ایسے اوصاف پائے جاتے تھےاور ان کے اخلاق و کردار اس قدر اعلیٰ ہوتے تھے کہ لوگ ان کو دیکھ کر حلقہ بگوش اسلام ہوجاتے تھے ۔اس طرح ہندوستان میں دین کی اشاعت شروع ہوئی اور ساحلی علاقوں میں ان کی ایک تعداد ہوگئی ،کچھ عرب تاجر بھی یہیں قیام پذیر ہوگئے ۔ تاریخی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلے مسلمان ساحلی علاقوں میں آباد ہوئے اور کیرل میں سب سے پہلی مسجد بنی ،جو آج بھی موجود ہے۔
گویا پہلی صدی ہجری میں ہی اسلام کا روشن سورج ہندوستان میں طلوع ہونا شروع ہوچکا تھا ۔
اس وقت جو مسلمان یہاں آباد تھے ان کو اپنے مذہبی شعار اور عائلی نظام پر عمل کرنے میں کسی طرح کی کوئی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا، بلکہ لوگ مسلمانوں کو اور بطور خاص تاجر مسلمانوں کو اپنے گھروں 🏠 میں باصرار قیام کراتے، ان کو مہمان بناتے ، ان کے خورد و نوش کا انتظام کرتے، ان کو اپنی زمینیں رہنے کے لئے وقف کرتے اور بہت سے برادران وطن ان کے اعلیٰ اخلاق و کردار اور ان کی عبادت سے متاثر ہوکر مسلمان ہوجاتے تھے ۔
پھر ہندوستان میں اسلامی سلاطین اور بادشاہوں کی آمد وقفے وقفے سے شروع ہوئی اور یہاں انہوں نے حکمرانی شروع کی اور مذہبی رواداری کا ایسا خیال رکھا کہ جس کی کوئی اور مثال کم ہے ۔انہیں ایام میں یہاں دلوں پر حکمرانی کرنے والے اولیاء ،صوفیاء اور بزرگان دین کی آمد بھی شروع ہوئی اور جن کا فیض ہندوستان کے چپہ چپہ میں عام ہوا ،ان کی حکمرانی بادشاہوں کی حکمرانی پر فائق رہی اور اس کے بہت اچھے اور مفید اثرات مرتب ہوئے ۔۔۔ جن کا فیض ہے کہ آج اسلام ہندوستان میں زندہ اور تابندہ شکل میں موجود ہے۔
ہندوستان میں بھی مسلم سلاطین اور بادشاہوں کے دور میں اسلامی قوانین جاری تھے ،برداران وطن کے لئے ان کا اپنا قانون اور اپنا رسم و رواج اور ریتی تھی ،کسی پر کوئی دباؤ نہیں تھا، تمام مذاہب کے لوگ اپنے اپنے پرسنل لا پر عمل کرنے کے لئے آزاد و خود مختار تھے ۔
جب ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ ہوا تو انہوں نے حکومت کے نظم و نسق کے لئے اپنا قانون نافذ کیا ،لیکن شخصی اور گھریلو زندگی کے واسطے انہوں نے اسلامی قانون باقی رکھا اور مسلمانوں کے لئے قاضی مقرر ہوتے رہے ۔پھر انگریزوں نے یہ نظام قضاء بھی ختم کیا اور گھریلو زندگی سے متعلق اسلامی قوانین کا نفاذ عام سرکاری عدالتوں کے حوالہ کردیا ۔اور اسلامی قوانین کا جو حصہ انگریزوں نے عدالتوں کے حوالہ کیا اس کا نام ،،مسلم پرسنل لا،، رکھا ۔
جب ہمارا یہ ملک انگریزوں سے آزاد ہوا اور اس کا دستور بنا تو دستور میں ہندوستان کے رہنے والوں کے عقائد ونظریات مذہب اور تہذیب کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ۔ساتھ ہی ساتھ دستور کی دفعہ 44/ میں ملک کے لئے یکساں شہری قانون بنانے اور اس کے نافذ کرنے کی طرف رہنمائی کی گئی ۔یہی ہدایتی دفعہ 44/ مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کی راہ پیدا کرتی ہے ۔۔اس وقت سے اس سلسلہ میں جو حالات واقعات پیش آتے رہے ،اور جو کوشیش اس کے لئے پس پردہ ہوتی رہیں اور جو بیانات آتے رہے، نیز حکومت نے بالواسطہ عام قانون سازی کے ذریعہ یا اپنے بعض سرکلر کے ذریعہ مسلم پرسنل لا کو متاثر کرنے کی جو کوشش کی ہے ،اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی نیت اس بارے میں کبھی صاف نہیں رہی ہے اور وہ ہمیشہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی فکر میں لگی رہی ،چاہے حکومت کسی کی ہو۔۔۔
چونکہ یہ ملک جمہوری ہے اور اس کو اپنی جمہوریت پر ناز بھی ہے ۔ اس لئے مسلمان یہاں ہمیشہ اپنے پرسنل لا پر عمل کرتے رہے اور جمہوری قدروں کے ساتھ اپنے پرسنل لا کی حفاظت میں ہمیشہ لگے رہے اور یہ باور کراتے رہے کہ مسلمان کسی حال میں اپنے پرسنل لا میں تبدیلی کرنا نہیں چاہتے اس معاملہ میں ان کے جذبات بے حد نازک ہیں ۔1972ء میں اسی مسلم پرسنل لا کی حفاظت کے لئے ایک عظیم الشان کنوینشن بمبئی میں ہوا تھا اور پھر أل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام عمل میں آیا تھا ،جس کا اہم مقصد مسلم پرسنل لا کی حفاظت تھا ۔ اس عظیم الشان کنوینشن کے ذریعہ مسلمانوں نے یہ ثابت کردیا تھا کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کا ہرطبقہ خواہ وہ مذہبی ہو یا ثقافتی ،سماجی ہو سیاسی مسلم پرسنل لا میں ترمیم و تنسیخ اور تبدیلی کا مخالف ہے ۔۔ آج بھی مسلمان اپنے اس موقف پر قائم و دائم ہیں ۔ ان حالات میں ہماریے ملک کی جمہوری حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو مطمئن کرے کہ ان کا پرسنل لا دست و برد سے محفوظ رہے گا اور اس سوراخ کو بند کرے جہاں سے مسلم پرسنل لا کی تبدیلی اور مشترکہ سول کوڈ کی تیاری کے لئے مواد فراہم ہوتا ہے اور وہ دستور ہند کی ہدایاتی دفعہ 44 ہے ۔۔ (مستفاد از مضمون حضرت سید شاہ محمد منت اللہ رحمانی صاحب رح بحوالہ ماہنامہ ہدایت جئے پور شمارہ مارچ 2015ء )