۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

واعظ کا ہر ارشاد بجا، تقریر بہت دلچسپ مگر !

محمد قمر الزماں ندوی

استاد/ مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپگڑھ _______________

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن خصوصیات و امتیازات سے نوازا ہے، ان میں سے ایک اہم خصوصیت اور جوہر فصاحت و بیان ہے، خزانئہ قدرت نے بیان اور اظہار مافی الضمیر کے بے شمار اسالیب ودیعت کئے ہیں، الرحمٰن * علم القرآن*خلق الانسان *علمہ البیان * ( سورہ الرحمٰن) مہربان ذات نے قرآن مجید سکھایا، انسان کو پیدا کیا اور اس کو بیان سکھایا۔
بیان کے طریقوں میں سب سے موثر اور عمدہ طریقہ وعظ و تقریر اور خطاب و بیان ہے۔
خطابات و تقاریر کی اہمیت و افادیت مسلم ہے، کسی بھی تحریک، مشن اور تنظیم و تحریک کی توسیع و اشاعت کے لیے سب سے زیادہ موثر اور کار آمد آلہ اور ہتھیار خطیب یا مقرر کی زبان اور واعظ و ناصح کا بیان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے اپنی خطیبانہ صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئےاشاعت دین اور تبلیغ اسلام میں اس سے بھر پور کام لیا، جس کی تاثیر و اثر انگیزی سے لاکھوں لوگوں کو اور بے راہ انسانوں کو رشد و ہدایت نصیب ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درجنوں خطبات و تقاریر سیرت و حدیث کی کتابوں میں محفوظ ہیں، جو آج بھی اہل علم اور ارباب فکر و نظر کے لیے نشان راہ کا درجہ رکھتی ہیں، آپ کا سب سے طویل خطاب حجتہ الوداع کا ہے،جو تقریبا سوا گھنٹے کا ہے، غزوہ حنین کے موقع پر بھی آپ کی تقریر نسبتا اور موقع کی لمبی تھی، لیکن عموما آپ کی تقریر اور خطبہ مختصر ہوا کرتا تھا۔ آپ افصح العرب و العجم تھے اور آپ کو جوامع الکلم سے نوازا گیا تھا۔
تقریر و بیان کی اہمیت و افادیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خود نبی کریم ﷺ نے فرمایا،، ان من البیان لسحرا،، بے شک بعض تقریروں میں سحر انگریزی اور جادوئی اثر ہوتا ہے۔ اسی سحر انگریزی اور جادوئی اثر کا نتیجہ ہےکہ پتھر دل سامعین کی آنکھیں بھی نم اور اشکبار ہوجاتی ہیں اور اس کے زریعہ تیز و تند طوفان اور ہوا کا رخ اور دھارا موڑا جاسکتا ہے، حضرت جعفر طیار رض کی تقریر ہی کا اثر تھا کہ شاہ حبشہ زار و قطار رونے پر مجبور ہوگئے۔ حضرت ھارون علیہ السلام کی فصاحت و بیان ہی تو تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کےلیے سفارش کرتے ہوئے ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ذکر کی کہ وہ فصیح اللسان ہیں۔
و اخی ھارون، ھو افصح منی لسانا، فارسلہ معی ردئا یصدقنی،، اور میرے بھائی ھارون ہیں وہ مجھ سے زیادہ فصیح اللسان ہیں، لہذا میرے ساتھ انکو بھی پیغمبری عطا فرما تاکہ وہ میرے دست راست اوردست بازو ہوکر میری تصدیق کریں۔
اللہ تعالیٰ نےحضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس درخواست کو قبول کرلیا، خود انکو بھی فصاحت عطا کی گئی کیونکہ انہوں نے پہلے اپنے لیے یہ دعا کی تھی،، رب اشرح لی صدری*و یسر لی امری و احلل عقدة من لسانی، یفقھوا قولی*،، بار الہا میرے دل کو شرح صدر نصیب فرما، میرے معاملہ کو میرے لیے آسان بنا، اور میری زبان کے گرہ اور عقدہ کو کھول دے یعنی اچھی طرح قوت گویائی نصیب فرما ، تاکہ لوگ میری گفتگو کو آسانی سے سمجھ لیں۔
موسیٰ علیہ السلام کو فصاحت کی وجہ سے پیغمبری بخشی گئی ، قرآن مجید میں اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے،، قد اوتیت سؤلک یا موسیٰ،، موسیٰ تمہاری عریضہ و درخواست قبول کرلی گئی ،،۔ ان تفصیلات سے یہ بات سمجھ میں آگئی کہ فصاحت و بیان اور خطبات و تقاریر کی کتنی اہمیت ہے، اور کس طرح ان سے دین کا کام لیا گیا اور آئندہ بھی لیا جاسکتا ہے۔
آنحضرتﷺ سے قبل بھی جتنے انبیاء کرام اور رسولان عظام دنیا میں تشریف لائے ان سبہوں نے بھی اپنے مواعظ حسنہ اور تقریر و خطاب کے ذریعہ اپنی اپنی قوموں کو ہدایت کی راہ دکھائی،حضرت شعیب علیہ السلام کو بطور خاص یہ ملکہ عطا کیا گیا تھا، اسی لیے انبیاء کے گروہ میں آپ کو خطیب الانبیاء سے یاد کیا جاتا ہے۔
انبیاء کرام کی نصیحتوں، وعظوں بیانوں اور ان کے حوار اور مکالموں میں زور بیان کیساتھ دلائل کی قوت و طاقت، الفاظ و کلمات کا شکوہ، اسلوب کا جمال و جلال، انداز بیان کی شوخی، قلب کی جرأت اور ایمان کی حرارت پوری طرح نمایاں اور جلوہ گر نظر آتی ہے۔
صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ان کے بعد ہمارے اسلاف اور اکابر نے بھی اپنے اپنے زمانے میں اس جوہر سے خوب خوب فائدہ اٹھایا اور دین متین کی خدمت اور آبیاری کی۔
اسی طرح عربوں میں حجاج بن یوسف ثقفی، قس بن ساعدہ ایادی، سبحان بن وائل کی لسانی و چرب زبانی معروف و مشہور ہے۔ ہندوستان میں شورش کاشمیری مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری مولانا ابو الکلام آزاد بدر الدین طیب جی ،مولانا قاری محمد طیب سحبان الھند مولانا احمد سعید دھلوی، مولانا علی میاں ندوی اور مولانا مجاہد الاسلام قاسمی رحمھم اللہ تعالیٰ کا سمند ناز اس میدان میں تیز گام تھا۔ جن کی آتش بیانی، زبان کی تاثیر و روانی اور قادر الکلامی اور حالات کا رخ بدلنے اور عوام کو یو ٹرن دینے میں فصاحت و بلیغ اللسانی محتاج بیان نہیں، مولانا شاہ عطاء اللہ بخاری کے بارے میں آتا ہے کہ ان کی تقریر اتنی موثر، دلکش اور پرکشش ہوتی اور صوتی نغمگی ایسی من موہ لینے والی ہوتی کہ اگر کسی جگہ ان کی تقریر کا اعلان ہوجاتا تو اس دن سنیما ہال بند ہوجاتا۔ سب ان کی تقریر سننے چلے جاتے۔ غرض اگر شورش نے چمن میں شورش برپا کی، تو آزاد نے وطن کی آزادی میں روح پھونک دی اور عطاء اللہ شاہ بخاری کے عطایا و نوازشات کی بارش کرکے قوم و ملت کو ایمان و ایقان، زندگی، بندگی اور تابندگی بلکہ پائندگی بخشی۔( ملخص مقدمہ از کتاب شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات )
بہر حال زبان و بیان کی اہمیت افادیت اور ضرورت تسلیم شدہ حقائق میں سے ہے ، اس سے دین و دنیا کی سعادتوں کا خوب کام لیا جاسکتا ہے، دعوت و تبلیغ اور شکوک و شبہات کے ازالے کا کام لیا جاسکتا ہے، اس سے قوم و ملت کو صحیح سمت دیا جاتا ہے، اس کے ذریعے حالات کا رخ موڑا جاسکتا ہے، بسا اوقات ایک تقریر نے پورے ملک کے ماحول اور فضا کو بدل دیا اور قوم و ملت کی تقدیر بدل دی، لیکن تقریر و خطابت میں تاثیر، دلسوزی، درد مندی، اخلاص آہ سحر گاہی، نالئہ نیم شبی، اپنی ذات اور بات پر مکمل اعتماد، یقین و وثوق اور قول و فعل میں یکسانیت و مطابقت سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر خطیب اور مقرر کے اعتماد میں کمی یا قول وعمل میں جھول اور تزلزل ہو تو اس کی تقریر ھباء منثورا،، ثابت ہوگی۔ وقتی بلبلہ کی طرح بے حقیقت اور ناپائیدار ہوگی اور مجمع کے منتشر ہوتے ہی دم توڑ دے گی۔
آج ضرورت ہے کہ قوم و ملت کی خدمت انسانیت اور مانوتا کی بقا و تحفظ کے لیے اس خدائی عطیہ سے جو وہبی بھی ہے اور کسبی بھی خوب فائدہ اٹھائیس اور ملت کی تعمیر وترقی کا کام لیں، ملک سے نفرت اور ہنسا کا ماحول ختم کریں۔ لیکن ہماری تقریریں اور ہمارے خطابات اسی وقت موثر ہوں گے جب ہم اس کے اصول و آداب کو بجا لائیں گے اور تاثیر و تاثر پیدا کرنے کے لیے جو شرائط اور تقاضے ہیں پہلے اس پر عمل کرلیں گے، شام کے ایک عالم دین کے بارے میں پڑھا کہ وہ روزانہ فجر بعد تفسیر اور درس قرآن کے لیے تہجد میں دس پارے تلاوت کرتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے درس قرآن مجید میں عجب تاثیر پیدا کردی تھی کہ مسجد کھچا کھچ بھر جاتی تھی لوگ سڑکوں پر نماز پڑھتے تھے۔
افسوس کے خطابت کے میدان میں اب صرف گھن گرج ہے، زور و شور ہے اور دھاڑ ہے، تاثیر اور اثر سے بالکل خالی ہے۔ آج ایک طبقہ کے علماء کا حال تو یہ ہے کہ وہ تقریر میں جھومتے ہیں، کسرت کرتے ہیں ھفوات بکتے ہیں دوسرے مسلک پر لعن طعن کرتے ہیں، چلاتے ہیں، گلا بھاڑتے ہیں پہاڑی ندی کی طرح شور مچاتے ہیں یہ نہ کہ میدانی ندی کی طرح سنجیدگی اور وقار سے دلائل کی روشنی میں اپنی بات رکھیں۔
سنجیدہ تقریر جو دلائل اور تاریخی مواد سے پر ہو اس کو زیادہ سنی جاتی ہے، اس میں اثر انگیزی زیادہ ہوتی ہے۔
ماضی میں قاری محمد طیب رح، مولانا علی میاں ندوی اور مولانا ڈاکٹر کلب صادق کی تقریریں سن لیجیے اور آج بھی بعض علماء اور سیاسی قائدین کی تقریریں سن لیجیے کہیں زور و شور نہیں گھن گرج نہیں ، مترادفات کی کثرت نہیں، الفاظ کی بھرمار نہیں لیکن لوگ ان کی اس سنجیدہ اور معلومات سے پر تقریروں کو دلچسپی سے سن رہے ہیں۔
امید کہ ان باتوں پر مقررین واعظین اور خطباء توجہ دیں گے اور زبان و بیان کے اس جوہر سے اس مشکل گھڑی میں امت کی کشتی کو بھنور سے نکال کر ساحل 🌊 تک پہنچانے میں اپنی اس صلاحیت کو صرف کریں گے، راقم خود سب سے پہلے اس نصیحت کا مکلف اور پابند ہے۔۔۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: