خالد ایوب مصباحی شیرانی
چیرمین تحریک علمائے ہند
_______________
جانے مجھے ہر بار یہ کیوں لگتا ہے کہ ہماری ملی روش عاقبت اندیشانہ نہیں اور ہم اپنی ہی پرانی ٹھوکروں سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ کتنی ہی بار ایسا ہوا کہ ہم جذباتی ہوئے اور اس کا بڑا خمیازہ بھگتنا پڑا لیکن کتنی ہی بار ہوا کہ اگلے حادثے میں پھر جذباتی ہوئے۔ -بات کہنے کی نہیں لیکن- مجھے تو اس روش میں حدیث رسول "لا يلدغ المؤمن من جحر واحد مرتين” (متفق علیہ) کا آئینہ اور اپنی کم عقلی صاف نظر آتی ہے اور سچائی بھی یہی ہے کہ بے ہنگم جذباتی قوم کم عقل ہی ہوتی ہے۔
آخر گزشتہ کئی سالوں سے ہم دن رات تحفظ ناموس رسالت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود غیرت ایمانی کے لیے اس سب سے نازک اور سنجیدہ ایشو کا حل کیوں نہیں تلاش کر پائے؟۔
کیا اس لیے کہ اس کا کوئی حل نہیں؟
جی نہیں! یہ نظام قدرت کے خلاف ہے، پیدا فرمانے والے نے ہر بیماری کا علاج پیدا فرمایا ہے، اگر ناموس رسالت پر حملہ ہمارا مذہبی پرابلم ہے تو اسی زمین پر اس کا سولیوشن بھی موجود ہوگا۔
بنیادی پرابلم، حل نہ ہونا نہیں بلکہ حل تلاش کرنے کے لیے درکار عزم و استقلال، سنجیدگی، ہوم ورک اور منظم طریق عمل کا فقدان ہے۔
اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں گے تو یہ پائیں گے کہ جمہوری نظام میں ایسے سنجیدہ پرابلم کا حل تلاش کرنے کے لیے ہم اس قدر سنجیدہ نہیں، جتنی سنجیدگی اس مشن کو چاہیے اور نہ ہی ایسے بڑے قومی بلکہ بین الاقوامی مسئلے کے حل کے لیے ہمارا طریق عمل عاقبت اندیشانہ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ:
ہم نے از خود خواہ مخواہ یہ گانٹھ باندھ رکھی ہے کہ ہر مسئلے کا حل احتجاجی مظاہرے ہیں اور سوئے اتفاق کہ دشمن نے بھی ہماری اس نبض کو بہت اچھے سے ٹٹول رکھا ہے، عملاً بالکل ایسے لگتا ہے جیسے گیم فکسنگ ہو۔ ہم ہر بار بنا سوچے سمجھے لوکل تھانے کی پرمیشن کا پرزہ لے کر کوئی احتجاجی ریلی نکالیں گے، نان پریکٹکل علما یا قیادت کے خواہاں جوش دلائیں گے، جوشیلے نوجوان اپنا آپا کھو دیں گے اور ادھر دشمن سوچی سمجھی سازش کے تحت اس پر سنگ باری کرے گا، پھر دونوں طرف کے گروپ آمنے سامنے ہوں گے اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر کی فضا میں زہر گھل جائے گا اور اگلے ہی دن ریلی میں شامل افراد کی تعداد یا بے ضابطگی کی وجہ سے پرمیشن کی دھجیاں اڑانے والے کسی شہزاد کے کامپلیکس پر بلڈوزر چلنے کے لیے تیار کھڑا ہوگا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ہر نئے شہر میں، ہر دوسرے حادثے کے بعد کوئی شہزاد ہی بننے کی سوچتا ہے، شاہ احمد نورانی یا ارشد القادری بننے کے لیے کوئی تیار نہیں اور نہ ہی اس طرح کا بلند فکر پلان۔
جبکہ اس روش میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ پچھلی ایک دہائی سے ملک میں عملاً وہ جمہوریت رہی ہی نہیں جو کسی کا پریشر قبول کرے اور اس کے لیے شاہین باغ یا کسان احتجاج سے بہتر کوئی مثال نہیں ہو سکتی۔
یہ بھی غیر سنجیدگی اور بے ضابطگی ہے بلکہ کئی بار تو اسی روش پر مصر لوگوں کی نیتوں پر بھی شبہ ہونے لگتا ہے کہ ہم ناموس رسالت کے لیے اسی وقت متحرک کیوں ہوتے ہیں جب ہمارے ہی بیچ کا کوئی ایک گروہ کسی دریدہ دہن کے خلاف ایکشن لے چکا ہوتا ہے جیسے حالیہ قضیے ہی کو دیکھ لیں۔ رام گیری بد بخت کے خلاف مہاراشٹر میں ایف آئی آر درج ہو گئی اور جیسے ہی وہاں درج ہوئی جا بجا ایف آئی آر درج کروانے والوں کی ایک لائن لگ گئی اور اب یار لوگوں کو ایسا محسوس ہونے لگا ہے گویا ہمارے شہر سے ایف آئی آر نہ ہوئی تو ہم پیچھے رہ جائیں گے جبکہ اگر اس بابت کچھ قانونی مشاورت ہوتی یا ذاتی طور پر ہی سہی، کچھ ہوم ورک ہوتا تو سمجھ میں آتا کہ جب کسی ایک کیس میں کسی کے خلاف ایف آئی آر ہو چکی ہو تو اب آئندہ ٹھیک اسی کیس میں جتنی ایف آئی آر ہوں گی، بہت ممکن ہے کہ ایکشن لیتے وقت ان سب کو مرج کر دیا جائے یعنی اگر کسی کے خلاف 50 ایف آئی آر ہوئی ہیں تو ان سب کو ایک کر دیا جائے گا اور 49 ایف آئی آر پر جو محنتیں ہوئیں، وہ -بالکل نہ سہی تقریباََ- رائیگاں ہیں۔
کیا اس سے کہیں زیادہ عقل مندی کی بات یہ نہیں کہ ملک کے طول و عرض میں کتنے ہی بد بخت رام گیری ہیں، جنھوں نے الگ الگ سوشل میڈیائی پلیٹ فارمز پر گند مچا رکھی ہے اور شان رسالت میں گستاخیوں کے طومار ہیں، ہم کسی کے خلاف پہلی ایف آئی آر کے بعد باقی 49/ ایف آئی آر پر صرف ہونے والی انرجی کا رخ ان بدبختوں کی طرف موڑیں تاکہ ایک ہی واقعے کا جوش 50/ بد بختوں کی دکانیں سمیٹنے کا سبب بنے!
کسی بھی سانحے کے پہلے پہلے رد عمل کی نقالی کی ہماری یہ روش صرف ایف آئی آر بابت نہیں بلکہ دیگر ملی قضایا میں بھی یہی طرز نظر آتا ہے جیسے -اللہ انھیں جلد رہائی نصیب فرمائے- حضرت مولانا مفتی سلمان ازہری کے لیے ہر کوئی احتجاج کرنے کے لیے تیار تھا لیکن انھی جیسی بلکہ تقریباً ان سے زیادہ ناموس رسالت کے لیے قربانیاں پیش کرنے والے مولانا قمر غنی عثمانی کے لیے ویسا کوئی احتجاج ہوا اور نہ ہی فکر، کیوں؟ کیا اس سے شہرت پسندی کا شبہ نہیں گزرتا!میں بار بار اس حقیقت کو تحریری اور تقریری طور پر دوہرا چکا ہوں اور ساتھ ہی مولانا قمرغنی عثمانی، الحاج سعید احمد نوری اور مولانا مفتی سلمان ازہری سمیت ناموس رسالت کے نام پر قدرے متحرک نظر آنے والے احباب سے انفرادی سطح پر بھی کہہ چکا ہوں کہ: اگر ہم سچ مچ تحفظ ناموس رسالت کے لیے سنجیدہ ہیں تو ہمارے بڑوں کو عوامی پروگراموں سے کہیں زیادہ مرکزی/ ریاستی برسر اقتدار پارٹیوں اور حزب مخالف سے مسلسل ملاقاتیں کر کے مائنارٹی ایکٹ کے لیے کوششیں کرنی چاہیے، اسلامیان ہند کے مستقل مسائل کا ایک بڑا حل یہی نظر آتا ہے۔
لیکن خیال رہے کہ ان لفظوں کو عملاً زمین پر اتار پانا قطعاً سستا سودا نہیں، اس کے لیے سرمائے کے ساتھ ایک طرف جہاں قانونی اور اعلی علمی دماغ چاہیے، وہیں رات دن ایک کر دینے اور نہ تھکنے والے جنونی بھی۔ اگر ہم اس طرح کی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہوں تو بسم اللہ، ورنہ بہت ممکن ہے بزعم خویش ایک لمبی مدت تک دوڑ دھوپ کرنے اور خاصی انرجی کھپانے کے باوجود، بھلے ہم تھک ہار جائیں لیکن مسئلے کا حل نہ تلاش کر پائیں اور -خاکم بدہن- رام گیری کی جگہ اس کا بیٹا اور پوتا لے لے مگر گستاخیوں کا سلسلہ نہ تھمے۔
اور بزرگوں کی طرح ہمارے نوجوانوں کے لیے مزے ہی مزے میں کرنے کا مشنری کام یہ ہے کہ وہ احتجاجی ریلیاں نکالنے کی بجائے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کی جانے والی گستاخیوں کا ڈاٹا جمع کریں اور پھر تکنیکی ایکشن لیتے ہوئے ان چینلز کو منظم انداز میں رپورٹ کر کے بلاک کروائیں۔
بہت ممکن ہے ہو روایتی اور قدیم ذہنوں کو یہ چیزیں سمجھ میں نہ آئیں لیکن جدید عہد کی یہ سب سے بڑی سچائی ہے کہ اگر ہم منظم انداز سے صرف اتنا کر لیں تو نہ صرف یہ کہ پرانے گستاخوں کا ناطقہ بند ہو جائے گا بلکہ خدا نخواستہ اگر کچھ نئے بدبخت پر تول رہے ہوں گے تو انھیں بھی زبان کھولنے سے پہلے 10/ بار سوچنا پڑے گا کیوں کہ اقتصادی مار کی طرح سوشل میڈیائی کیڑوں کے لیے سب سے بڑی مار ان کے چینلز کا بلاک ہو جانا ہوتا ہے۔