✍️ معصوم مرادآبادی
___________________
25 اپریل 2010 کی دوپہر جب ڈاکٹر محمد حسن کے انتقال کی خبر ملی تو میں دہلی اردو اکیڈمی کے ممبران کی ایک ٹیم کے ساتھ مشرقی دہلی میں اردو خواندگی مراکز کا جائزہ لے رہا تھا۔ خبر ملتے ہی ہم لوگوں نے گاڑی کا رخ واپس اردواکیڈمی کے دفتر کی طرف موڑ دیا جہاں ڈاکٹر محمدحسن کی قبر پر چڑھانے کیلئے ایک گل دائرہ تیار ہورہا تھا۔ اسی اثناء میں انیس اعظمی یہ کہتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے کہ فرحت رضوی فون پر بتارہی ہیں کہ کئی اردو والے دہلی گیٹ قبرستان پرڈاکٹر محمد حسن کے جنازے کا انتظار کررہے ہیں لیکن یہاں تو ان کے لئے کوئی قبر نہیں کھودی گئی ہے۔ سوال یہ تھا کہ کہیں ان کی تدفین کسی اور قبرستان میں تونہیں ہوگی؟ کچھ دیر کی کشمکش کے بعد عقدہ کھلا کہ پٹھان والی مسجد (مال روڈ) کے امام صاحب نے قبرستان کے منتظم کو فون کرکے محض اتنا کہا تھا کہ ایک میت کیلئے قبر کھود دیں۔ امام صاحب نے قبرستان کی منتظمہ کمیٹی کو یہ نہیں بتایا تھا کہ اس قبر میں ہمارے عہد کے ایک بڑے اردو ادیب اور دانشور کو دفن کیا جائے گا۔
ہم لوگ ابھی اردو اکیڈمی کے دفتر ہی میں تھے کہ ایک دیگر ذریعے سے یہ اطلاع ملی کہ پٹھان والی مسجد میں ڈاکٹر محمد حسن کی نماز جنازہ میں شرکاء کی تعداد بہت کم ہے لہٰذا آپ لوگ یہیں آجائیں۔ لہٰذا ہم نے گاڑیوں کا رخ مال روڈ کی طرف موڑ دیا لیکن درمیان میں پھر یہ خبر آئی کہ وہ لوگ نماز جنازہ پڑھ کر دہلی گیٹ قبرستان کیلئے روانہ ہوچکے ہیں لہٰذا آپ بھی سیدھے دہلی گیٹ قبرستان ہی پہنچیں۔بعد کو معلو م ہوا کہ ڈاکٹر محمدحسن کا جسد خاکی سول لائن کے سنت پرمانند اسپتال سے ان کے گھر لے جانے کی بجائے سیدھے پٹھان والی مسجد لے جایاگیا تھا جہاں میت کو غسل دینے کے بعد کفن پہنایاگیا۔
تپتی ہوئی دوپہر تھی۔ قبرستان جاکر دیکھا تو اردو کے کئی بزرگ ادیب ڈاکٹر محمد حسن کے جنازے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہم لوگوں نے طے کیا کہ قبرستان کے باہر والی سڑک پر جنازہ کاندھوں پر لے لیں گے تاکہ سب کو کاندھا دینے کا موقع مل جائے۔ کچھ دیر بعد ایک ماروتی وین (ایمبولینس) آتی ہوئی دکھائی دی۔خیال تھا کہ ڈاکٹر محمد حسن کا جنازہ کسی بڑی گاڑی میں آرہا ہوگا لیکن جونہی چھوٹی سی ایمبولینس قبرستان کے باہر والی سڑک پر آکر رکی تو پتہ چلا کہ اس میں ڈاکٹر محمد حسن کا جنازہ ہے۔ پچھلا دروازہ کھلا تودیکھا کہ جنازہ ایک اسٹریچر پر رکھا ہوا ہے۔ یا الٰہی اسٹریچر کو کیسے کاندھے پر اٹھایا جائے گا۔کچھ لوگوں نے فوراً جنازے کی چار پائی کا مطالبہ کیا۔ کچھ لوگ دوڑتے ہوئے قبرستان میں گئے تو معلوم ہوا کہ یہاں ایک ہی چار پائی ہے اور وہ کسی دوسرے جنازے کو لانے کیلئے لے جائی گئی ہے۔بحالت مجبوری اسٹریچر کوکاندھے پر اٹھالیاگیا۔ اسٹریچر کو پکڑنے والے ہتھے بھی سالم نہیں تھے۔ اس لئے اسے کاندھے پر اٹھانے میں خاصی پریشانی ہورہی تھی لہٰذا کسی نہ کسی طرح ہم لوگ جنازے کو کاندھے پر اٹھائے ہوئے قبرستان کی طرف چل دئے۔ ابھی قبرستان کے دروازے تک ہی پہنچے تھے کہ کچھ لوگ کہیں سے ڈھونڈکر چار پائی لے آئے تو جنازہ اسٹریچر سمیت چار پائی پر رکھ دیا گیا۔اس طرح کچھ بزرگ اور عمر رسید لوگوں کو کاندھا دینے میں آسانی ہوئی۔ان میں پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، کمال احمد صدیقی، ڈاکٹر شارب ردولوی،زبیر رضوی،ڈاکٹر خلیق انجم اور ڈاکٹر اسلم پرویز کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ بزرگان ادب قبرستان میں جو باتیں کررہے تھے انہیں سن کر احساس ہوا کہ ہم جیسے دنیا پرست، جاہ پسند، اور شہرت کے شوقین لوگوں کو قبرستان جاکر ہی سہی موت کی یاد آتی تو ہے۔ لیکن اسے کیا کہا جائے کہ ابھی لوگ تدفین سے فارغ بھی نہیں ہوپائے تھے کہ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے غیر معمولی سرگرم صدر اپنے ادارہ کے’جشن زریں‘ کا دعوت نامہ جنازہ کے شرکاء میں بڑی مستعدی سے تقسیم کرتے ہوئے نظر آئے۔
ڈاکٹر محمد حسن کا جنازہ قبرستان میں داخل ہوا اور ہم لوگ قبر تک پہنچنے کیلئے آگے بڑھتے رہے لیکن یہ راستہ خاصا طویل محسوس ہوا کیوں کہ ہم چلتے چلتے قبرستان کے آخری سرے تک پہنچ گئے۔معلوم ہوا کہ ڈاکٹر محمد حسن کے لئے قبرستان کے سب سے آخری حصہ میں تقریباً ایک کلومیٹر دور ویران جگہ پر قبر کھودی گئی ہے۔ ابھی دوہفتہ قبل جب ہم یہاں نورجہاں ثروت کو دفنانے آئے تھے، تو انہیں قبرستان کے بالکل شروع کے حصے میں ہی جگہ ملی تھی۔ یاخدا قبرستان کے اتنے ویران حصے میں ڈاکٹر محمد حسن کے لئے جگہ کیوں چنی گئی ہے۔ ان کی شخصیت تو ایسی تھی کہ انہیں جامعہ نگر کے قبرستان میں سپرد خاک کیا جاتا جہاں ڈاکٹر مختار احمد انصاری سے لے کر قرۃ العین حیدر تک پیوند خاک ہیں ۔ لیکن پتہ چلا کہ یہ سب تیاری عجلت میں ہوئی تھی اور ڈاکٹر محمد حسن کے سب سے قریبی دوست پروفیسر عبدالحق دہلی میں موجود نہیں تھے۔ اگر وہ دہلی میں ہوتے تو شاید کچھ بہتر انتظام ہوتا۔ یہ جان کر زیادہ افسوس ہوا کہ ڈاکٹر محمد حسن کی نماز جنازہ میں ایک درجن لوگ بھی نہیں تھے کیوں کہ دہلی کے جس علاقے میں ڈاکٹر محمد حسن کی رہائش تھی وہاں مسلمانوں کا کوئی گذر بسر نہیں ہے۔ انہوں نے تمام عمراسی غیر علاقے میں گزاری ۔ہاں 1992میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ڈاکٹر محمد حسن مسلم اکثریتی علاقہ جامعہ نگر میں مکان کی تلاش میں سرگرداں نظرآئے تھے۔ پروفیسر قمر رئیس مرحوم بھی ان دنوں جامعہ نگر میں مکان لینا چاہتے تھے کیوں کہ وہ بھی غیر مسلموں کے علاقے وویک وہار میں قیام پذیر تھے۔ پروفیسر قمر رئیس کے جنازے کے ساتھ بھی عجیب معاملہ ہوا۔ لوگ ان کے گھر پر جنازے کا انتظار کرتے رہے لیکن ان کے داماد جنازہ لے کر سیدھے اسپتال سے شاہجہاں پور چلے گئے اور دہلی کے وہ ادیب اور دانشور جن کے درمیان انہوں نے شب وروز بسر کئے تھے، ان کے آخری دیدار سے بھی محروم رہے،جس کا سبھی کو قلق تھا۔
انسان کو سماجی حیوان کہا جاتا ہے۔ اس لئے انسان کی قدروقیمت اس کے اپنے سماج اور معاشرہ میں ہی ہوتی ہے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے دانشور اور بڑے ادیب سماج سے کٹ کر زندہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد حسن اور پروفیسر قمر رئیس ترقی پسند تحریک کے قافلہ سالاروں میں تھے اوران کے ہاں مذہب کا تصوربہت دھندلا تھا لیکن ہمارے سماج میں انسان کی پیدائش اور موت کی رسومات آخر اس کے مذہب کے مطابق ہی ادا کی جاتی ہیں۔
دنیا کے دوسرے مذاہب کا حال تو نہیں معلوم لیکن اسلام نے احترام آدمیت پر جتنا زور دیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتقال کے بعد بھی اسی جذبہ کے تحت پورے احترام اور عقیدت کے ساتھ میت کی آخری رسوم پوری کی جاتی ہیں۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے کہ علی گڑھ میں میت کے آخری سفر کے دوران کتنے آداب واحترام ملحوظ رکھے جاتے ہیں۔ ہمارے دانشور دراصل اپنی جڑوں سے کٹ جانے ہی کو دانشوری کی معراج قرار دیتے رہے ہیں جبکہ یہی ان کا سب سے بڑا المیہ رہا ہے۔ قرۃ العین حیدر نے ’آخر شب کے ہمسفر‘میں لکھا ہے کہ آخری عمر میں انسان اپنی جڑو ں کی طرف لوٹتا ہے لیکن ہمارے یہ ترقی پسند دانشور اپنی جڑوں سے کٹ کر اتنی دورنکل جاتے ہیں جہاں انہیں کوئی جانتا ہے اور نہ پہچانتا ہے اوران کی شخصیت ایک لاوارث لاش کی طرح ہوجاتی ہے۔دراصل پروفیسر محمد حسن اور پروفیسر قمر رئیس کی موت آج کے ترقی پسند دانشوروں کیلئے ایک درس عبرت ہے۔
ڈاکٹر محمد حسن بنیادی طو رپر باغیانہ ذہن کے انسان تھے۔وہ مرادآباد کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ راقم الحروف کو مرادآباد میں ان کے ماموں مولوی محمد عزیز حسن (علیگ) سے شرف تلمذ حاصل رہا۔ وہ بڑی ذی علم شخصیت تھے اور درجنوں غیر مطبوعہ تصنیفات انہوں نے ورثے میں چھوڑی ہیں۔ وہ اکثر ڈاکٹر محمد حسن کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر محمد حسن طالب علمی کے زمانے میں مرادآباد سے تن تنہا لکھنؤ چلے گئے تھے جہاں انہوں نے علی سردار جعفری اور اسرارالحق مجاز کے ساتھ برسوں ترقی پسند تحریک کی آبیاری کی۔ انہوں نے لکھنؤ میں ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور وہیں انگریزی روزنامہ’پائنیر‘ سے اپنے کیرئر کا آغازسب ایڈیٹر کے طور پر کیا۔ڈاکٹر محمد حسن بے پناہ صلاحیتوں کے انسان تھے۔ وہ محقق نقاد،ڈرامہ نگار اور صحافی کے علاوہ ایک معتبر دانشور بھی تھے۔ ان کی تحریروں میں بلا کی گیرائی اور گہرائی ہوتی تھی۔یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ برصغیر ہند۔پاک میں اس وقت ان کے پایہ کا دوسرا ادیب اور نقاد موجود نہیں تھا لیکن اگر ان کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو وہ اوائل عمری میں ہی اپنے والدین سے کٹ گئے تھے اور برسوں مرادآباد نہیں آتے تھے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تدریس کے دوران انہوں نے اپنی پسند سے شادی کی لیکن وہ تمام عمر اس فیصلے پر پچھتاتے رہے کیوں کہ ان کی اہلیہ ہمیشہ ان کے لئے ایک سنگین مسئلہ بنی رہیں ۔طالب علمی کے زمانے میں والدین اور خاندان والوں سے کٹ کر اور دہلی کے زمانہ قیام میں انہوں نے سماج سے کٹ کرزندہ رہنے کوترجیح دی۔ یہ تمام فیصلے ان کے اپنے تھے۔
پروفیسر محمد حسن کا قول تھا کہ ”آج نظریاتی خود مختاری کا دور ہے۔“ یہ صحیح ہے لیکن نظریاتی خود مختاری انسان کے سماجی اور معاشرتی رشتوں میں حد سے زیادہ داخل ہوجائے تو وہ انسانی شرف وسعادت کیلئے مہلک ثابت ہوتی ہے۔ یہی صورتحال ڈاکٹر محمد حسن کو بھی پیش آئی۔ ڈاکٹر محمد حسن یہ بھی کہا کرتے تھے کہ انسان کو اپنی پسند کے مطابق زندگی گذارنا چاہئے۔ یہی صحیح ہے۔ ڈاکٹر محمد حسن نے اپنی پسند کے مطابق زندگی گذاری لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی 84سالہ زندگی کی کمائی تقریباً رائیگاں چلی گئی کیوں کہ ان کی دانشوری کی اس روایت کو پسند کرنے والے اتنی تعداد میں بھی نہیں تھے کہ ان کے جنازے کو کاندھا دے کر آخری منزل تک پہنچاسکتے۔
ہمیں ان کی ذاتی زندگی اور فیصلوں پر سوال قائم کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ ان کے جنازے کا حال آنکھوں سے دیکھ کرکچھ اچھا نہیں لگا۔ ڈاکٹر محمد حسن کے جنازے کے ساتھ وہ رسمی معاملات بھی نہیں ہوئے جو ایک گم نام اور بے حیثیت انسان کے جنازے کے ساتھ ہوتے ہیں۔ بس یونہی ایک رسم ادا کی گئی اور وہ بھی عجلت کے ساتھ۔یہ سطریں اسی تکلیف کا برملا اظہار ہیں۔
(زیرتکمیل خودنوشت سے)