مولانا ابوبکر ندوی مرحوم کی خدمات اور قربانیاں مثالی ہیں : ملانا اسد اللہ ندوی
مولانا ابوبکر ندوی مرحوم کی خدمات اور قربانیاں مثالی ہیں : ملانا اسد اللہ ندوی
(دھوریا / تلولی سدھارتھ نگر)
__________________
مولانا ابوبکر صدیق ندوی صاحب کا گزشتہ سے پیوستہ کل دلی میں حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے انتقال ہوگیا تھا، وہ دلی علاج کی غرض سے گئے تھے ، ،کل ان کے آبائی گاؤں دھوریا تلولی میں ان کے جنازے کی نماز ہوئی اور تدفین عمل میں آئی،جنازہ میں گاؤں و اطراف کے لوگوں کے علاؤہ دور دراز اضلاع کے علماء حفاظ اور اہل علم کی ایک جم غفیر تھی ۔ جنازہ کی نماز مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ کے مہتمم جناب مولانا اسد اللہ صاحب ندوی نے پڑھائی ،جن کے ساتھ مرحوم کی تیس سالہ علمی دینی اور انتظامی رفاقت رہی اور مولانا نے مرحوم پر بھرپور اعتماد کیا اور یکسو ہوکر اپنا دیگر علمی دینی اور ملی کام انجام دیتے رہے۔
جنازہ کی نماز سے قبل مولانا اسد اللہ صاحب ندوی نے مجمع سے اپنے تعزیتی خطاب میں کہا کہ مولانا ابو بکر صدیق ندوی صاحب مرحوم کی خدمات اور قربانیاں مثالی اور قابل تقلید ہیں ، انہوں نے نسلوں کی تربیت کی اور ہزاروں طلبہ کو تیار کیا، ایسے لوگوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا اور ان کی قربانیوں کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ انہوں نے تیس سال تک جو دینی علمی، تربیتی اور انتظامی خدمات انجام دی ہے ، ان شاءاللہ یہ ان کی نجات اور مغفرت کا ذریعہ بنے گی ۔
مولانا خوش نصیب تھے کہ ان کی پوری زندگی علم دین کی خدمت، ترویج اور آبیاری میں گزری اور ہزاروں طلبہ کی تربیت کی ،جو اب دین کی خدمت میں مصروف ہیں ، خود انہوں نے اپنی اولاد کی اچھی تربیت کی، ان کو حافظ قرآن اور عالم دین بنایا اور دین و دنیا کے علم کے زیور سے آراستہ کیا ۔ یہ نیک اولاد ان کے لیے یقینا صدقئہ جاریہ ہیں، جو ان کے حق میں دعا مغفرت کریں گی۔
مولانا ابوبکر صدیق ندوی مرحوم میرے معتمد تھے اور میری نیابت کرتے ہوئے تمام انتظامی امور وہ انجام دیتے تھے، ان کے اچانک چلے جانے سے ادارہ کا بہت بڑا خلا ہوگیا ،ان کی وفات یہ میرے لیے ذاتی حادثہ ہے، کیونکہ وہ میرے عزیز تھے ،رفیق اور معاون تھے۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کو ان کی خدمات کا بھرپور صلہ جنت الفردوس کی شکل میں دے ان کے وارثین جملہ پسماندگان اور متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے نیز مدرسہ کو اللہ تعالیٰ ان کا نعم البدل عطاء فرمائے۔ آمین
مولانا مرحوم کے جنازہ میں الہ آباد رائے بریلی پرتاپ گڑھ امیٹھی اور لکھنؤ اور دیگر اضلاع کے بہت سے علماء، اور اہل علم اور ان کے شاگرد و رفقاء کار شریک ہوئے۔