شخصیت کے حصار سے نکل کر ملک و ملت کے لیے سوچیں!
✍️ محمد قمر الزماں ندوی
____________________
اس وقت پوری دنیا کے مسلمان انتہائی نازک، مشکل اور کٹھن دور سے گزر رہے،ہیں، کفر پوری طاقت کیساتھ مسلمانوں کے خلاف متحد اور برسر پیکار ہے ،اور اسلام کے خلاف متحدہ محاذ کھولے ہوئے ہے ۔
خاص طور پر ملک عزیز ہندوستان کی حالت تو انتہائی ناگفتہ بہ ہے ، ہمارے عائلی نظام پر حملہ ہے ، اوقاف کو ہڑپنے کی سازش اور پلانگ ہے ، باطل کی سازش اور پلانگ کی وجہ سےارتداد کی لہر ہے، ملک کو زعفرانی رنگ میں رنگنے کی تیاری ہورہی ہے ، مذہبی مقامات کو مسمار کرنے کی کوشش ہورہی ہے بلکہ شروعات ہوچکی ہے،غرض ہر طرف سے مسلمان دشمن کے نشانے پر ہیں ، لیکن افسوس کہ مسلمان ایسے نازک اور مشکل گھڑی میں بھی خواب غفلت کے شکار ہیں ، فضول بحث و مباحثہ اور لایعنی موضوعات میں مشغول ہیں، ایک دوسرے کی عزت کے درپئے ہیں ،ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے میں مشغول ہیں، شخصیت پرستی کا شکار ہیں ،اکثر لوگ صرف اپنے ممدوح اور اپنے قائد کی مدح سرائی اور مخالف کی مذمت میں پوری طاقت جھونک رہے ہیں اور اس کو انا اور ایگو کا مسئلہ بنائے ہوئے ہیں اور اس میں اتنی شدت پسندی کہ الامان و الحفیظ ۔ دوسری طرف زمینی حقائق سے اکثر لوگ ناواقف ہیں اور ہندوستان میں اس سیاست کی بات کرتے ہیں ، ایسا لگتا کہ یہاں مسلمان اکثریت میں رہتے ہیں اور وہی فیصلہ کی طاقت میں ہیں۔
اس وقت سوشل میڈیا پر مدنی اور اویسی کے مخالفین و مواففقین کے درمیان جنگ بپا ہے اور ایک دوسرے کی مخالفت و موافقت میں حد اعتدال سے نکل کر شریعت کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور نوبت ایں جا رسید کہ طعن و تشنیع اور دشنام طرازی تک پہنچ گئے ہیں ، حد یہ ہے کہ اس میں زیادہ تر علماء اور پڑھے لکھے لوگ مشغول ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
ارادہ تھا کہ آج اس موضوع پر کچھ لکھوں اور اصل حقائق کو سامنے لاؤں اور نوجوانوں کو بتاؤں کہ تمہارے اس لایعنی اور فضول بحثوں سے دشمن ہنس رہے ہیں اور تمہاری نادانی پر ٹٹھٹے اڑا رہے ہیں ۔ لیکن اس وقت ایک مبارک سفر ،سفر عمرہ پر نکلنے جارہا ہوں ، اس لیے احباب کی خواہش کے باوجود اس موضوع پر کچھ لکھنا میرے لیے مشکل ہورہا ہے ،البتہ اس موضوع پر مشہور صحافی شکیل رشید صاحب کا ایک اداریہ بہت عمدہ اور حقیقت پر مبنی ہے ، اس مضمون کو ان کے شکریہ کے ساتھ ہدئہ قارئین کرتا ہوں۔ م۔ ق۔ ن
"ان دنوں سوشل میڈیا مولانا محمود مدنی اور اسدالدین اویسی کے موافقین و مخالفین کے درمیان جنگ کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے ، لوگ جی بھر کر انہیں کوس بھی رہے ہیں ، ان کی سراہنا بھی کر رہے ہیں ، ان کے لتے بھی لے رہے ہیں اور ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے بھی ملا رہے ہیں ، اعتدال کو سوشل میڈیائی بھیڑ نے رخصت کر دیا ہے ، جبکہ ہمیں اعتدال سے کام لینے کا حکم ہے ، ہمیں امت وسط کہا گیا ہے ۔ کئی لوگوں نے مجھ سے دریافت کیا ہے کہ اس معاملہ میں تم کیا کہتے ہو؟ میں دونوں ہی شخصیات کا احترام کرتا ہوں ، لیکن اختلافات کے ساتھ ، اور اختلاف کرتے ہوئے ذاتی حملے کرنا مناسب نہیں سمجھتا ۔ جیسے تعریف کھل کر کی جاتی ہے اسی طرح اختلاف بھی کھل کر کیا جا سکتا ہے لیکن اخلاقی قدروں کی برقرای کے ساتھ ۔ محمود مدنی اور اسدالدین اویسی کے کام کرنے کے ڈھنگ مختلف ہیں ، ایک کام کرتا ہے اور دوسرا آواز اٹھاتا ہے ، اور مسلمانوں کے لیے فی الحال کام بھی ضروری ہے اور آواز کا اٹھانا بھی ۔ لوگ جمعیتہ پر انگلی اٹھاتے ہیں کہ فسادات کے بعد حرکت میں آتی ہے ! بات سچ نہیں ہے ، میں ایک جرنلسٹ کے طور پر جانتا ہوں کہ یہ جماعت فسادات سے قبل ، کشیدگی کے دوران بھی تشدد روکنے کے لیے کوشاں رہتی ہے اور فسادات کے دوران بھی ۔ فسادات کے بعد جب لوگ اجڑتے ہیں ، اور جب وہ لوگ جن کے پیارے مارے جاتے ہیں اور وہ غم کے سمندر میں ڈوبے ہوتے ہیں اور جب پولیس مقدمات کی بھرمار کر دیتی ہے اور خانماں بربادوں کو دور دور تک اندھیرا نظر آتا ہے تب بھی یہ جماعت ( اور بڑی حد تک جماعت اسلامی) سرگرم رہتی ہے ۔ یہ کام کھیل نہیں ہے ۔ گجرات اور میوات کی مثال سامنے ہے ، آج بھی یہ جماعت مقدمے لڑ رہی اور بازآبادکاری کر رہی ہے ۔ دہشت گردی میں ملوث کیے گیے افراد کے مقدمے لڑنا کھیل نہیں ہے ، لیکن یہ کام بھی یہ جماعت کر رہی ہے ۔ مدارس و مساجد کے معاملات ، شہریت کا مقدمہ اور نہ جانے کتنے مسائل ہیں جن پر یہ جماعت توجہ دے رہی ہے ۔ ہاں مگر شکایت ہے کہ اس جماعت نے اسکول اور کالج بنانے پر توجہ نہیں دی ، اسپتال اور مسافروں کے لیے ہوسٹلوں کا قیام نہیں کیا اور نہ ہی ایسے منصوبے تیار کیے جو مسلم نوجوانوں کو روزگار دلانے میں مدد دیں ، یہانتک کہ روزگار ورک شاپ بھی یہ نہیں کراتے ۔ لیکن جو کام یہ کرتے ہیں اور اس جماعت کے اکابروں نے کیا ہے وہ اور کوئی نہ کرتا ہے اور نہ کر سکتا ہے ۔ مولانا محمود مدنی سے ایک بڑی شکایت ان بیانات کے لیے ہے جو لگتا ہے کہ حکومت کے دفاع میں ہیں ، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جب وہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف بولتے ہیں تو خوب بولتے ہیں ۔ اسدالدین اویسی ان سیاست دانوں میں سے ہیں جو آواز اٹھاتے ہیں، پارلیمنٹ میں بھی اور سڑک پر بھی اور زوردار آواز اٹھاتے ہیں ۔ مسلم مسائل پر آواز اٹھنی بھی چاہیے ، لیکن اعتدال کے ساتھ ۔ ان کے بھائی اکبرالدین اویسی کا یہ کہنا کہ پندرہ منٹ کے لیے پولیس کو ہٹالو ، یا اسدالدین اویسی کا یہ کہنا کہ یوگی اور مودی ہمیشہ نہیں رہیں گے ، اعتدال سے ہٹ کر ہیں ۔ پولیس ہٹے یا یوگی اور مودی نہ رہیں ، کیا ہوجائے گا ! تشدد ہی ہوگا ! اور تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ مسلمانوں کا محفوظ رہنا ضروری ہے ۔ اویسی کی آواز کا خیر مقدم ہے مگر ان کے ایسے جملوں کا نہیں جو کسی مسلمان کی جان جانے کا سبب بنیں ۔ اویسی مسلمانوں کے مسائل اٹھائیں ، ان کے کام کریں ، ان کی روزی روٹی کے لیے حکومت پر دباؤ بنائیں اور انہیں محفوظ بنانے کے لیے ان کے آئینی حقوق انہیں دلوائیں ۔ یہ سب کریں کہ ایک سیاست داں کے یہ کام ہیں، بھلے وہ عام مسلمانوں کے مقدمے نہ لڑیں اور فسادات کے دوران بازآبادکاری کے لیے سرگرم نہ رہیں ۔ اور الیکشن بھی لڑیں لڑوائیں مگر جیتنے کے لیے ہارنے کے لیے نہیں ۔ ہارنے کے لیے لڑیں گے تو فرقہ پرست تو جیت جائیں گے مگر وہ مسلم لیڈر جو ایوانوں میں رہ کر کچھ کام کرتے رہے ہیں وہ ضرور ہار جائیں گے "۔