Slide
Slide
Slide

کسبِ معاش کا اسلامی تصور

کسبِ معاش کا اسلامی تصور

✍️ سالم فاروق ندوی

(ریسرچ اسسٹنٹ انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی)

__________________

عزیز مربی مولانا محمد انس مدنی فلاحی کی کتاب ”کسبِ معاش کا اسلامی تصور“ اسلام کے تصور کسبِ معاش پر مبنی ایک جامع علمی و تحقیقی تصنیف منظر عام پر آئی ہے۔ جس میں مصنف نے نہایت عمدگی سے کسب معاش کے حوالے سے اسلامی تصور کی مدلل اور مستند مواد کی روشنی میں بحث کی ہے۔

اسلامی معیشت کی بنیاد اس بات پر ہے کہ معیشت کو عدل، انصاف، اور معاشرتی فلاح و بہبود کے اصولوں کے پر پروان چڑھایا جائے۔ کسبِ معاش کے سلسلے میں ہمارے یہاں عام نظریہ یہ ہے کہ دولت کمانا، دنیا کمانا ہے اور آخرت کو برباد کرنا ہے۔مال کو خرچ کرنے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور کمانے کو ناپسندیدہ سمجھاجاتا ہے۔ مصنف اس تعلق سے لکھتے ہیں: ”را قم کا خیال تھا کہ اسلامی معاشیات کی کوششوں میں تقسیم مال پر خصوصیت سے زور دیا گیا ہے ، لیکن تکوین ثروت یعنی حصول ِمال کی جدّو جہد کا اسلامی پہلو سامنے نہیں آسکا ہے۔ اسلامی معاشیات پر موجود سو سے زائد کتابوں کا جائزہ لیا تو خوش گوار حیرت ہوئی کہ یہ پہلو تو ہمارے یہاں موجود ہے، لیکن پوری آب و تاب کے ساتھ منظر عام پر نہیں آسکا ہے۔ اس کے اسباب بھی وہی ہیں کہ دین و دنیا کے قرآنی تصور کی جگہ زہد و ورع کے عجمی تصور نے لے لی۔ “

یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب ”دنیوی زندگی قرآن و سنت کی روشنی میں“ اس میں قرآن و حدیث میں کی روشنی میں دنیا اور آخرت کے تعلق کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں جہاں دنیاوی زندگی کو ایک عارضی قیام قرار دیا گیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس زندگی کی اہمیت کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا۔اسلام میں زہد کا مطلب دنیاوی زندگی سے دستبرداری نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے دل کو دنیاوی چیزوں کی محبت سے آزاد رکھے اور ہمیشہ اللہ کی رضا کی طرف رجوع کرے۔ دنیاوی دولت اور ساز و سامان کو زندگی کا حصہ تسلیم کیا گیا ہے، لیکن ساتھ ہی اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ آخرت کی کامیابی اصل ہدف ہونا چاہیے۔ باب دوم” کسبِ معاش اور اسلام“یہ باب کتاب کے مرکزی موضوعات میں سے ایک ہے۔ اسلام نے ہمیشہ محنت اور جدّوجہد کی حوصلہ افزائی کی ہے اور رزقِ حلال کو اللہ کی نعمت قرار دیا ہے۔ اس باب میں مولانا محترم نے خصوصاً اس نظریہ کا معتدل تجزیہ کیا ہے جو گزشتہ چند دہائیوں میں پروان چڑھا ہے کہ مال کے لیے جدّوجہد ناپسندیدہ ہے۔بعض کتابیں ایسی ہیں،جن میں محض افلاس اور قربانیوں کے واقعات کو جمع کیا گیا ہےاوروہ احادیث جو خرچ کرنے کے فضائل پر زور دیتی ہیں ان کو جمع کیا گیا ہے، جن مقاصد کے پیش نظر یہ کتابیں لکھی گئیں ان میں صد فیصد کامیابی ملی لیکن اس کے پس پردہ اس نظریہ نے جنم لیا کہ اسلام غربت کی دعوت دیتا ہے، مال سے یکسر علیحدگی کی ترغیب دیتا ہے اور گویا اقتصادیات اسلام میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے، اس نظریہ کا مولانا محترم نے بہت ہی معتدل تجزیہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں:”اسلام مومن کو معاش کے لیے محنت اور زندگی کے لیے عزت و وقار کی تعلیم دیتا ہے۔ مومن کسی کے آگے دست سوال دراز نہ کرے، وہ دینے والا بنے، لینے والا نہ بنے۔ کسب ِمعاش کے سلسلے میں اسلام کا نقطۂ نظر نہایت واضح ہے۔ وہ مومن کو معاشی آسودگی کے لیے جدّ و جہد پر ابھارتا ہے، آمدنی کے حلال اور حرام ذرائع کی تفصیلات سے آگاہ کرتا ہے اور تجارت کے اسلامی اصولوں کی پاس داری اور ان پر عمل آوری کا حکم دیتا ہے۔ اس سلسلے میں رسول ﷺ کی معاشی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آپؐ نے تجارت کی اور کام یاب تاجر کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ آپؐ کی معاشی زندگی بہت خوش حال تھی، آپؐ کے ساتھ بہ یک وقت کئی صحابہ کرام دستر خوان پر شریک ہوتے تھے، کوئی سائل آپؐ کے دروازے سے خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا۔ آپؐ کی معاشی زندگی کا یہ پہلو ہمارے یہاں بہت ابھر کر سامنے نہیں آپا یا۔“

نبی کریمﷺکی حدیث ہے کہ ”روزی کمانا ہر مسلمان پر فرض ہے۔“ اس حدیث کی روشنی میں اسلام میں کسبِ معاش کو عبادت کا درجہ حاصل ہے، جہاں محنت کو اللہ کی رضا کے حصول کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس باب کے ضمن میں معاشی جدّوجہد کو حسن عمل قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رزقِ حلال کمانا ایک ایسا عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں، اور محنت کرنے والا شخص معاشرتی طور پر عزت و احترام کا مستحق ہوتا ہے۔ اس باب میں مسلم مفکرین کی آراء بھی شامل ہیں، جنہوں نے محنت اور معیشت کے اسلامی اصولوں کو نہایت عمدگی سے بیان کیا ہے۔ جیسے کہ امام ابو حنیفہؒ اور امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ نے اپنے تصانیف میں محنت اور کسبِ معاش کو دینی فرائض میں شامل کیا ہے۔باب سوم” کسب معاش: اصول و ذرائع“اس باب میں اسلامی معیشت کے اصولوں پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔مسلمان کو کن کن ذرائع سے روزی کمانے کی اجازت ہے اور کن ذرائع کو اسلام نے ممنوع قرار دیا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں تجارت، زراعت، صنعت و حرفت، اور دیگر جائز ذرائع کو حلال قرار دیا گیا ہے، جب کہ سود، جوا، رشوت اور دھوکہ دہی جیسے ذرائع کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس باب میں ان اصولوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے کہ ایک مسلمان کو کس طرح اپنے معاشی معاملات کو اسلامی اصولوں کے مطابق چلانا چاہیے۔تجارت میں دیانت داری، شفافیت، اور اہل حق کے حقوق کی ادائیگی اس کا لازمی حصہ قرار دیا گیا ہے۔باب چہارم” رسول اللہ ﷺ کے ذرائع معاش“یہ باب نبی کریم ﷺکے زندگی کے عملی نمونوں پر مبنی ہے، جنہوں نے نہ صرف معاشرتی اور روحانی اصولوں کی تعلیم دی، بلکہ اپنی زندگی میں معیشت کے بہترین اصولوں کو اپنایا۔ آپؐ نے اپنی جوانی میں تجارت کی اور اس میں ایمانداری اور دیانت کو ہمیشہ مقدم رکھا۔ آپؐ نے کی تجارت میں سچائی اور اخلاقیات کی وہ اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔باب پنجم” مال خرچ کرنے کے اسلامی اصول“یہ باب مال خرچ کرنے کے اصول اور آداب پر مبنی ہے، جس میں اسراف سے بچنے، میانہ روی اختیار کرنے، جود و سخا کی ترغیب اور اس کے صحیح استعمال کی ہدایت دی گئی ہے۔ باب ششم کاعنوان’کسب ِ مال و صرف ِ مال کے اسلام اورغیر اسلامی تصورات: اثرات و نتائج‘پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس کی ایک فصل میں ’اسلامی تصورِ معاش کے فیوض وبرکات‘پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اسلام میں دولت کو اللہ کی نعمت سمجھا جاتا ہے اور اسے درست طریقے سے تقسیم کرنے کی تعلیم دی گئی ہے تاکہ معاشرے میں عدم مساوات اور غربت کا خاتمہ ہو۔ غیر اسلامی معاشی نظام، جیسے کہ سرمایہ داری، دولت کو صرف چند ہاتھوں میں محدود رکھتا ہے اور غربت میں اضافہ کرتا ہے۔ اس باب میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ غیر اسلامی معیشت میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، سماجی ناانصافی کا سبب بنتی ہے اور اس سے معاشرے میں غربت اور محرومی میں اضافہ ہوتا ہے۔
کتاب میں اس بات پر خصوصیت سے زور دیا گیا ہےکہ رزقِ حلال کے لیے محنت اور جدّوجہد کرنا دین کا اہم حصہ ہے اور اسے عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ کتاب کاموضوع اورمشمولات اچھوتے اورزبان وبیان نہایت سلیس اور رواں ہے۔ امید ہے کہ علمی حلقوں میں اسے بھرپور پذیرائی حاصل ہوگی۔ (ان شاء اللہ)

اللہ تعالیٰ مصنف محترم کو جزائے خیر عطا فرمائے اور اس کتاب کو امت مسلمہ کے لیے نفع بخش بنائے۔ آمین۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: