اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل
اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل

بھارت کے اس تکثیری سماج کو کبھی دنیا کے لیئے ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا یہاں کی جمہوریت قانون اور دستور کی دنیا مثالیں پیش کرتی تھی لیکن اب وہ ملک کے کسی بھی حصہ میں نظر نہیں آرہی ہے اگر کسی کو نظر آبھی رہی ہے تو صرف اوراق کے دامن پر جو قوانین جو باتیں پڑھنے لکھنے تک اچھی لگتی ہیں اتنی ہی خوب صورت عملی میدان میں بھی نظر آنی چاہیئے ورنہ خواب تو سجانے سے دور ہوجائیں گے بلکہ جو پایا وہ بھی کھوتے رہیں گے اس وطن عزیز کو ہمارے آبا و اجداد نے جس خون جگر سے سینچا ہے وہ کوئی معمولی قربانیاں نہیں تھی لیکن آج کے اس نئے بھارت میں ان قربانیوں کا صلہ ظلم، عدم رواداری،مذہبی تفریق کی شکل میں ملک کے گوشے گوشے میں دستیاب ہے

شکر گزاری کا فلسفہ
شکر گزاری کا فلسفہ

آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ معمولی پریشانیوں یا مسائل پر فوراً ناشکری کرنے لگتے ہیں اور اللہ کی عطا کردہ بڑی نعمتوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ مثلاً کسی کو ذرا سا مالی نقصان ہو جائے تو وہ اللہ کے رزق کو بھول کر شکایت کرنے لگتا ہے، حالانکہ اس کے پاس صحت، گھر اور خاندان جیسی بےشمار نعمتیں موجود ہیں۔ اسی طرح، اگر موسم کسی کے حق میں نہ ہو، جیسے گرمی یا سردی کی شدت، تو لوگ فوراً شکایت کرنے لگتے ہیں، یہ بھول کر کہ اللہ نے ہمیں لباس، رہائش، اور زندگی کی دیگر سہولتوں سے نوازا ہے۔

تنہا سفر کی ممانعت
تنہا سفر کی ممانعت

حالات بدل چکے ہیں، نقل و حمل کے ذرائع ترقی پذیر بلکہ ترقی یافتہ ہو چکے ہیں، انسان کئی کئی دنوں کا سفر اب گھنٹوں میں کر لیتا ہے اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں کر رہا ہے ، سہولتوں کی فراوانی چاروں طرف نظر اتی ہے لیکن اس کے باوجود قول نبی برحق ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بجا ہے اپ کی دوراندیشانہ گفتگو اور اپ کی زبان فیض ترجمان سے نکلے ہوئے الفاظ و کلمات خدائے رحمان و رحیم کی منشا و مراد کے مطابق ہوتے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے

تازہ ترین پوسٹ

تعارف و تبصرہ

"خانوادۂ ہدیٰ کے لعل و گہر” :تعارف و تأثر

زیر نظر کتاب " خانوادۂ ہدیٰ کے لعل و گہر" مولانا مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی استاد جامعہ اسلامیہ شانتا...
Read More
شخصیات

جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی بنیاد میں اعلی حضرت اشرفی میاں کا حصہ

یہ ادارہ ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے مشہور ضلع اعظم گڑھ کے اندر قصبہ مبارک پور میں واقع ہے۔...
Read More
تاریخ و سیر

شاہی جامع مسجد سنبھل: ایک تاریخی جائزہ

تاریخ ماضی کے واقعات کا آئینہ ہوتی ہے ، ہندوستان میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے مابین باہمی رواداری اور...
Read More
تجزیہ و تنقید

گودی میڈیا کا مکروہ چہرہ اور سپریم کورٹ کا ردعمل

جامع مسجد سنبھل تنازع گودی میڈیا کا مکروہ چہرہ اور سپریم کورٹ کا ردعمل ✍ سید سرفراز احمد ________________ اصل...
Read More
تجزیہ و تنقید

احسان فراموشی نہ کریں: بیرسٹر اسد الدین اویسی کی خدمات کا اعتراف ضروری ہے

حال ہی میں بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب کی مالیگاؤں میں کی گئی تقریر کے بعد کچھ حلقوں میں ایک...
Read More

امیرشریعت سادس اور تعلیم نسواں:فکری وعملی جہات

امیرشریعت سادس اور تعلیم نسواں

فکری وعملی جہات

از :عین الحق امینی قاسمی

معہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرائے

________________

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ۔امابعد

یاد گار زمانہ عبقری شخصیات میں حضرت مولانا سید نظام الدین قاسمی نوراللہ مرقدہ کی ذات ممتاز اور ہمہ جہت تھی، تدریس ،تنظیم اور امارت شرعیہ سمیت مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم سے اُن کے کردار کی بلندی ،فکری وعملی جہات اورعلمی و دعوتی اہداف کا رنگ آج بھی گہرا ہے، ملت اسلامیہ کے دلوں میں عظمتوں کے انمٹ نقوش ،عزم وعزیمت کی بلند آہنگی اورتعلیم وتدریس کے بافیض سلسلے کی اہمیت، خوبصورتی کے ساتھ قائم ہے۔وہ اپنے غیر معمولی خلوص جہد مسلسل اورآہ سحر گاہی کی وجہ سے ہمیشہ آگے بڑھتے رہے۔اُنہوں نے جس راہ کو بھی چنا ،اُس میں اپنے امتیازات واولیات کے دیر پا نقوش قائم کئے اور نسل نو کے لئے تنہا اتنا وہ کچھ کرگئے کہ جس نے اُنہیں لاکھوں میں انتخاب کے قابل بنادیا ۔
انہوں نے اپنی فکری وعملی جہتوں سے مسلم معاشرے میں تعلیم نسواں کا احساس پیدا کیا اورقوم کی بیٹیوں کودینی وعصری تعلیم وتربیت سے جوڑنے اور اسلامی تہذیب وتمدن کی راہ پر مضبوطی سے قائم رہنے کا ذہن تیار کیا تھا ،وہ شروع دن سے بچیوں کی اعلی دینی وعصری تعلیم وتربیت کے لئے کوشاں رہے، وہ بیٹیوں کو مغربی ماحول میں تعلیم دینے کے قائل نہیں تھے،وہ مخلوط تعلیم سے سخت دل برداشتہ تھے،وہ لڑکیوں کی تعلیم کو بالخصوص ملت اسلامیہ ہند کے لئے ضروری تو خیال کرتے ہی تھے ؛مگر اپنے ماحول اوراپنے ادارے میں مکمل اسلامی تہذیب وتمدن کے ساتھ ، تا حیات وہ اِن اہداف کے لئے فکری وعملی جہات سے مسلسل کوشاں رہے،وہ جہاں بھی رہے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت پران کی خاص نگاہ رہا کرتی تھی ،بعد کے دنوں میں اس کے لئے انہوں نے نہ صرف علمی اداروں کی سرپرستی فرمائی؛بلکہ لڑکیوں کے لئے الگ سے متعدد ادارے بھی قائم کئے اور قائم شدہ بنات کے اداروں کو مستحکم بھی کیا اور یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ امارت شرعیہ اور آل اندیامسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر اہتمام ہونے والے اجلاس کے مواقع پر بہت سے ذی علم افراد سے آپ نے عورتوں کے ” حقوق وفرائض “کے موضوع پر قیمتی کتابچے اور مستقل تحریریں لکھوائیں اورایسے تمام لوگ جو باضابطہ بنات کا ادارہ قائم کر بچیوں کو دینی ماحول میں تعلیم وتربیت کی خدمت کے آرزو مند تھے ،انہیں حضرت مولانا کے فکری وعملی اقدام سے زبردست توانائی ملی اور ملک بھر میں خاص طور پر صوبہ بہار کے اندر اِس رجحان نے تحریک کی شکل اختیار کی ،جس پر ملت اسلامیہ اُن کے احسانات کے تئیں سراپا مشکور ہے۔ذیل کی سطور میں فکری جہتوں پر ایک سرسری روشنی ڈالنے کی سنجیدہ اور امکانی کوشش کی جارہی ہے۔

مخلوط نظام تعلیم کی فتنہ انگیزی

تعلیم نسواں کے تعلق سے آپ کے افکار وخیالات ہمیشہ واضح رہے،آپ نے مخلوط نظام تعلیم کے نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کیا اوردردمندانہ و مخلصانہ نہج سے حکمت عملی کی نشاندہی فرمائی اور کوشش یہ کی کہ اس تعلق سے لوگوں کی رہنمائی کی جائے تاکہ بعد میں گاو ¿ں سماج ٹولہ محلہ کے مخلص اور سنجیدہ احباب اِس فکرکو مکاتب دینیہ اور دینی ماحول میں اسکول وکالج کی شکل میں درسگاہیں زمین پرقائم کرلڑکیوں کی بہتر تعلیم وتربیت کا انتظام کرسکیں۔ حضرت امیر کا ذاتی احساس تھا کہ ایک بہتر سماج کی تعمیر وتشکیل کے لئے جس طرح مردوں کا تعلیم یافتہ ہوناضروری ہے ،اِسی طرح عورتوں کا بھی تعلیم یافتہ اور اسلامی تہذیب وتمدن کا جانکا ر ہونا ضروری ہے ،جب تک وہ دینی علوم سے آشنا نہ ہوںگی اُسے خود اپنی عظمت واہمیت کا درست اندازہ نہیں ہوسکتا ۔اسلامی علوم افکار کی تعلیم وتبلیغ مردوں کی طرح عورتوں کی بھی ذمہ داری ہے ؛مگر یہ کام خواتین سے تب ممکن ہے جب اُن کے پاس دین کا مضبوط علم ہوگا، ورنہ وہ ذمہ داریوں سے فرار کی راہ تلاشیں گی ،مساوات کے کھوکھلے نعروں کا ساتھ دیں گی اورشمع محفل بن کر اپنے ہاتھوں چراغ خانہ کو گل کرنے کا ذریعہ بنیں گی ۔ اس لئے خود خواتین کو بھی اپنی عظمت کو سمجھنا ہوگااور اپنی عزت کی پاسداری کرنی ہوگی۔ حضرت رحمة اللہ علیہ نے اپنے عزیز تر صاحب قلم جناب عارف اقبال دربھنگوی سے فرمایا تھا کہ

” آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم خواتین اپنے مقام کو پہچانیں اور آزادی نسواں اور مساوات مردوزن کا جوکھو کھلا نعرہ غیروں کی طرف سے بلند کیا جارہا ہے، اس کےنقصانات کو سمجھیں۔ عورت جب تک چراغ خانہ ہے اس کی عصمت بھی محفوظ اور عزت بھی مامون ہے اور اگر شمع محفل بن جائے تو پھر اس کی عفت عصمت کی خیر نہیں، جس کا مشاہدہ آج مختلف دلدوز واقعات اور عصمت دری کے سانحات کے ذریعہ ہو رہا ہے۔ آپ نے کہا کہ بیٹیوں کوتعلیم یافتہ بنانے سے خاندان کو تعلیم یافتہ بنانے کا اجر ملتا ہے۔ ضرورت ہے کہ ملت کے مالدار افراد اپنی بچیوں کے لئے علاحدہ اسکول اور ادارے قائم کر یں تاکہ مخلوط تعلیم کے فتنے سے ہماری بیٹیوں کی حفاظت ہو سکے“ (باتیں میر کارواں کی۔ص:183)

اندرونِ خانہ نظام تعلیم پر زور:

حضرت رحمة اللہ علیہ کا احساس تھا کہ گھر کے اندر خاص کر بہو بیٹیوں میں دین داری تب آئے گی جب افراد خانہ میں بڑوں کی زندگی میں دین ہوگا ،گھر کے چھوٹے چھوٹے بچے بچیوں میں دین سیکھنے اور اس سیکھے ہوئے پر پوری طرح قائم رہنے میں تقویت تب ملے گی جب ماں باپ دینی مزاج کے حامل ہوں گے ،اللہ تعالی اوررسولِ خدا ﷺ کی تعلیمات سے عشق ومحبت ہوگی تو اسلام بھی گھروں میں زندہ رہے گا اور نسلیں بھی اسلام کے سائے میں پرورش پائیں گی۔ خواتین کے مذکورہ بالا اجلاس میں آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ :

” مجھے یہاں پر آپ سے اور اپنی بہنوں سے یہ کہنا ہے کہ مرد وعورت دونوں کی زندگی میں دین وایمان اللہ اور اللہ کے رسول سے سچی محبت ہوگی تب یہ اسلام گھروں میں باقی رہے گا ،گھر کے بچوں اور خاندان میں قائم اور زندہ رہے گا ،صرف مرد کے دیندار ہونے سے گھر میں اور بچوں میں دینداری ہرگز نہیں آسکتی ،جس طرح دنیاوی اعتبار سے دونوں کے لئے صحت تندرستی ضروری ہے اسی طرح دینی اعتبار سے دونوں کا دین دار ہونا ضرورری ہے ،اپنی فکر کے ساتھ ساتھ گھر کی فکر کیجئے،یہ جامعة ا لبنات کا مقصد ہی دین سے واقف اور دیندار خاتون تیا ر کرنا ہے،قوم کو صحابیات جیسی صفات والی ایسی بہو بیٹی دینا ہے جس سے ایک صالح اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آئے اور جس کی امت کو شدید ضرورت ہے “ (باتیں میر کارواں کی،ص: 399)

حضرت امیر کی فکر سے سینکڑوں مکاتب کا قیام:

آپ کی خدمات کی عملی جہتوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو بات لانبی ہوجائے گی ،یہاں مختصراًیہ سمجھ لیا جائے کہ عصر حاضر کے اندرجب لڑکیوں میں ارتداد کی وبا عام ہوگئی ہے ،بین مذاہب اپنی پسند کی شادیاںذاتی مزاج بنتی جارہی ہیں،کھلے عام شرم وحیا کا جنازہ نکالا جارہا ہے ،نہ اللہ سے شرم کرنے کو اہمیت دی جارہی ہے اور نہ گاو ¿ں سماج ٹولہ محلہ کے بڑے بزرگوں کی عزت رہی اور نہ ہی ماں باپ گھر خاندان کے لوگوں کا احترام باقی رہا ،تب حضرت امیر شریعت کی تعلیم نسواں کے تعلق سے افکار اور عملی جد وجہد کی عصری معنویت دوچند ہوگئی ہے ۔ ہماری نگاہ کے اندر قدیم علماءمیں کئی جہتوں سے ہمارے حضرت امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین قاسمی رحمة اللہ علیہ کا یہ امتیاز رہاہے کہ انہوں نے ہزار خدشات اور تحفظات کے باوجود تعلیم نسواں کے سلسلے میں مروجہ نظام تعلیم کے فروغ کے لئے عملی جہت سے بھی میدان علم وتدریس میں اپنی موجود گی ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کی اور خواتین کی تعلیم پر مضبوطی کے ساتھ یہاں وہاں افراد کو جوڑتے بھی رہے ، امارت شرعیہ نے ہمیشہ گاوں کے مسائل کو ترجیح دیا ہے ،اسی لئے مسلم معاشرے کے بنیادی تقاضوں کو دیکھتے ہوئے آپ نے قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب ؒ کے مشورے سے شوری کے افراد کو جمع کیا اور شوری کے سامنے گاو ¿ں میں بچے بچیوں کے ایمان وعقائد کے تحفظ کے مسئلے کو رکھا ،چنانچہ اسی مجلس میں شوری نے فیصلہ لیا اور پھر امیر شریعت سادس نے دور افتادہ گاو ¿ں میں ہزاروںمکاتب قائم فرمائے اور کامیاب مدرسوں کی داغ بیل بھی ڈالی، اساتذہ کی تنخواہوں کا نظم کیا اوردعاة ومبلغین امارت شرعیہ کے ذریعے اُن مکاتب کو بھی مستحکم کیا ´۔

کمزورمسلم آبادیوں کے اندر خواتین میں دینی بیداری کی کوشش:

بہار کے بعض علاقے آج بھی معاشی کمزوریوں کے شکار ہیں ،جائے وقوع کے اعتبارسے جہاں دین وایمان کے لٹیرے مدد وسہولیات پہنچانے کے نام پر لالچ دے کر اُن کے دین و ایمان کو لوٹنے کی سازش کرتے رہے ہیں ،حضرت امیر شریعتؒ کی بصیرت افروز نگاہ نے اِس کو بروقت بھانپ لیا ،اور اپنے مبلغین ونقباءکو وہاں بھیج کر باطل کو نہ صرف کھدیڑا ؛بلکہ مالی ا مداد ،کھانے پینے اور ضرورت کی اشیاءسے اُن کی مدد کی اور اُن کے ایمان وعقائد کا تحفظ کیا وہاں اپنے معلمیں کو رکھا جنہوں نے وہاں کی خواتین اور بچے بچیوں کو دین کی بنیادی باتوں سے آگاہ کیا ،اُنہیں طہارت وپاکی کے مسائل بتائے ،کلمہ درست کرایا اور نمازوں کے طریقے سیکھائے اور مردوںکی امامت کی۔

ساٹھی اور چترا کی بستیوں میں لڑکیوں کی تعلیم پر زور :

حضرت امیر شریعتؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒکے خصوصی شاگردوں میں سے ایک تھے، اس لئے ملت کی سماجی وعلمی زندگی کی فکرانہیں روحانی طور سے حاصل ہوئی تھی، آپ جب دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوکر 1948 ءمیں ساٹھی پہنچے اور حضرت مولانا ریاض صاحب رحمة اللہ علیہ نے آپ کو ریاض العلوم کاصدر مدرس بنا یا تو آپ نے وہاں مقیم بچوںکی تعلیم وتربیت کے ساتھ بالخصوص گاوں کی پڑھنے والی بچیوں پر بھی خاصی توجہ دی جس کی وجہ سے آپ کی گیارہ سالہ مدت قیام کے دوران اس گاو ¿ں میں بے شمار بیٹیوں نے علوم دینیہ سے خود کو مستفید کیا ،میرے ایک عزیز کے بیان کے مطابق جہاں آج بھی بڑی بوڑھی خواتین حضرت کی خدمات اورانداز تربیت کو بیان کر آبدیدہ ہوجارہی ہیں۔
یہی حال تقریبا چترا ہزاری باغ کے تدریسی دور میں بھی رہا ،جب 1963 ءمیں مولانا رحمت اللہ چتراوی ؒ کی دعوت پر آپ رشید العلوم چترا تشریف لائے تو یہاں بھی دوسالہ مدت قیام میں آپ نے گاو ¿ں کی لڑکیوں کی تعلیم وتر بیت پر خصوصی نگاہ رکھی ،حالاں کہ مشاہدہ بتاتا ہے کہ عام طور پر گاوں کے بچے رسماً ہی جڑے رہتے ہیں اور ساری کوششیں مقیم طلباءکے لئے ہواکرتی ہیں ،مگر حضرت کا مزاج شروع سے خواتین کی تعلیم وتربیت کو بہتر سے بہتر بنانے کا رہا۔یہاں مدت تدریس بہت کم رہی ؛مگر اُس دور کی بچیاں (جو اب اپنی عمر کے آخری پڑاو ¿میںہیں) آج بھی حضرت کو یاد کرتی ہیں اور کئی ایسی خواتین ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنی اولاد کو علوم دینیہ سے وابستہ کیا ؛بلکہ وہ گاو ¿ں گھر کی خواتین میں آب حیات بانٹتی رہی ہیں۔

گھوری گھاٹ میں درسگاہ کا قیام

گھوری گھاٹ کے مکتب کی ایک مستقل تاریخ ہے جو چالیس سال تک بحیثیت مکتب ،ملت کے نونہالوں کو علم سے آراستہ کرتا رہا ،1992ءمیں اسے امیر شریعت نے باضابطہ مدرسے کی شکل دی ،حیرت کی بات یہ ہے کہ جس وقت مدرسہ قائم ہوا ہے آس پاس میں ڈیڑھ سو بستیاں مسلمانوں کی آباد تھیں جہاں دینی تعلیم کی کوئی قابل ذکر درسگاہ نہیں تھی ،امیر شریعت نے اس ادارے کو گود لے کر عالقے والوں پر بڑا کرم فرمایا ،مدرسہ آج بھی زندہ ہے اور بافیض ہے جہاں علاقے کی بچیاں بڑی تعداد میں علم دین سیکھ کر خود بھی رب کے احکام پر عمل کررہی ہیں اور دوسروں تک علم کی روشنی پھیلا نے کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔

جامعہ رشید البنات کی کامیاب سرپرستی:

اداروں اور تنظیموں کی تاریخ بھی بڑی عبرت آموز رہی ہے ،جہاں سے بہت کچھ سیکھ کر اپنی ذات کو حرکت وعمل پر ابھا را جا سکتا ہے،زیر تبصرہ ادارہ محی السنہ شاہ ابرارالحق صاحب ہردوئی ؒنے اپنے مرید خاص جناب محمد یونس صاحب کی مدد سے ایک اہم ضرورت کی وجہ سے قائم فرمایا تھا اور تقریبا تین بیگھا قطعہ زمین اس ادارے کو وقفاً ملی تھی اور محض آٹھ چھ برسوں میں ہی وہ بند ہونے کے کگار پر آگیا ،اللہ جزائے خیر دے امیر شریعت سادس کو جب انہیں اس کا علم ہوا تو انہوں نے نہ صرف ادارے کو بچالیا ؛بلکہ جائے وقوع کے لحاظ سے بھی ایک بڑی ضرورت کی تکمیل فرمائی ،آج وہ ادارہ الحمد للہ حضرت کے صاحب زادے محترم مولانا عبد الواحد ندوی صاحب زید مجدہ کی نظامت میں اعلی پیمانے پر تعلیم نسواں کے فروغ کے لئے اپنی ممتاز خدمات انجام دے رہا ہے ،جہاں درجہ اعدادیہ،درجہ حفظ اور درجہ پنجم تک بحسن وخوبی عربی تعلیم ہورہی ہے ۔بزم خواتین اور بزم ثقافت کے بینر تلے برابر پرگرامس کا سلسلہ رہتا ہے ،اس علاوہ مزید کڑھائی ،بنائی ،سلائی،اور پینٹنگ وغیرہ جیسے ہنر سے بھی ملت کی بیٹیوں کو آراستہ کیا جاتا ہے۔حضرت امیر شریعت تا حیات اس ادارے کی کامیاب سرپرستی فرماتے رہے ، جس کا نتیجہ ہے کہ یہاں بچیاں آج مختلف شبوں سے وابستہ ہیں اور نمایاں خدمات انجام دے رہی ہیں۔

جامعة المومنات پھلواری شریف

جامعہ کا قیام، حضرت امیر شریعت سادس رحمة اللہ علیہ کے ہاتھوں عمل میں آیا تھا،جامعہ کے معتمد خاص محترم مولانا عبدالواحد ندوی صاحب زید مجدہ ہیں،جن کی نگرا نی میں جامعہ بحمدللہ پھل پھول رہا ہے ،یہاں دورہ حدیث شریف تک تعلیم دی جارہی ہے ،فی الوقت ایک سو اسی 180 طالبات جامعہ میں مقیم رہ کر تعلیم وتربیت حاصل کررہی ہیں ،حضرت امیر شریعت رحمة اللہ علیہ نے اپنی زندگی میں ہی اس اداے کو قائم فرمایا تھا اور تاحیات اس کی نگرانی وسرپرستی فرماتے رہے ۔منفرد اور مثالی تعلیم وتربیت کی وجہ سے جامعہ نے بہت تھوڑے وقت میں ملکی سطح پر شہرت حاصل کی ،اس کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ اکابرین واہل اللہ کو اس جامعہ غیر معمولی لگاو ¿ ہے اور گاہے گاہے ملک بھر سے اکابرین علماءکی آمد رہتی ہے، جامعہ اپنی عمارت میں پوری یکسوئی کے ساتھ قوم کی بیٹیوں کو تعلیم یافتہ اور دیندار بنانے کی جد وجہد میں شبانہ روز محو سفر ہے۔یوں تو خواتین کی تعلیم وتربیت کا تذکرہ ،حضرت کی حیات کا ایک اہم پہلوہے،جس پر متعدد جہتوں سے بالتفصیل لکھنے کی ضرورت ہے ،مگراُن تمام کا احاطہ اِن مختصر سطور میں ناممکن ہے ،البتہ کوششوں کی یہ متنوع جہتیں حضرت ؒ کے لئے بلندی درجات کا سبب بنیں گی اور بے لوث خدمات کاا جر، اُن کے لئے زاد آخرت ثابت ہوگاان شاءاللہ۔

تشکر وامتنان !

حضرت امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین قاسمی صاحب نور اللہ مرقدہ کی ذات ایک انجمن تھی ،اُن کے یہاں ہر مسلک اور ہر طبقے کے لوگوں کی قدر تھی ،وہ خود بھی کردار کے حامل سظیم انسان تھے اور باکردار لوگوں کو عزیز تر رکھتے تھے، اُنہوں نے زندگی کو قریب سے برتا اور ہر سماج کے لئے جو خدمتیں ہوسکتی تھیں اُنہیں خوبیوں کے ساتھ انجام دینے میں کبھی غفلت کو پاس پھٹکنے نہیں دیا ،اُن کی ہمہ جہتی خدمات کے روشن نقوش ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ،اُن کی ذات وسیرت کاہر ایک پہلو قابل استفادہ ہے ۔ قبل سے حضرت رحمة اللہ علیہ پر اُن کی شایان شان ایک عطیم سیمینار کی شدید ضرورت محسوس کی جاری تھی۔پوری امت کی طرف سے مبارک باد اور شکریہ کے مستحق ہیں امیر شریعت سادس سیمینار کہ وہ تمام مخلص افراد ،جو حضرت ؒ کی شخصیت پر منعقد ہونے والے اِس تاریخی سیمینار کو کامیاب بنانے کے لئے شب وروز محنت میں لگے ہوئے ہیں ،خاص طور پر اس سیمینار کے خاکہ نگار مولانا عبد الواحد ندوی صاحب ناظم جامعةالمو ¿منا ت پھلواری شریف پٹنہ ،جن کی ذاتی دلچسپیوں سے ایک پر وقار سیمینار مورخہ ۰۲۔۱۲ اکتوبر20/21 کو منعقد ہورہا ہے ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ رب کریم وسائل مہیا فرمائے اور سیمینار کو ملت اسلامیہ کے لئے خیر کا ذریعہ بنا ئے۔ آمین یا رب العالمین

نائب ناظم وفاق المدارس الاسلامیہ امارت شرعیہ پٹنہ

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: