شام کے بدلتے حالات اور مشرق وسطیٰ میں نئی سیاسی صورت حال
شام کے بدلتے حالات اور مشرق وسطیٰ میں نئی سیاسی صورت حال
از:– محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال
___________________
شام مشرق وسطیٰ کا ایک اہم ملک ہے جس نے کئی دہائیوں سے خطے میں مختلف قوتوں کے درمیان طاقت کی کشمکش کو اپنے اندر سموئے رکھا ہے۔ 2011ء سے شروع ہونے والی خانہ جنگی نے نہ صرف شام کے داخلی نظام کو تہس نہس کیا بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں سیاسی و عسکری تبدیلیوں کی راہ ہموار کی۔ آج، بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام ایک نئے عہد میں داخل ہو چکا ہے، جس کا اثر صرف اس ملک تک محدود نہیں رہے گا بلکہ خطے کی سیاست پر گہرے نقوش چھوڑے گا۔
اسرائیل کی حکمت عملی:
شام کی خانہ جنگی کے دوران، اسرائیل نے اپنی خارجہ پالیسی میں ایک محتاط مگر فیصلہ کن رویہ اپنایا۔ 1967ء کی چھ روزہ جنگ کے دوران قبضہ کیے گئے گولان ہائٹس کو اسرائیل نہ صرف اپنی عسکری حکمت عملی کا محور سمجھتا ہے بلکہ یہ علاقہ اس کے معاشی اور آبی وسائل کے لیے بھی اہم ہے۔
حالیہ دنوں میں اسرائیل نے بفر زون میں شام کی فوجی پوزیشنز پر قبضہ کر کے اپنے سیاسی عزائم کو مزید واضح کر دیا ہے۔ یہ قبضہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل شام کی موجودہ صورت حال کو اپنے حق میں استعمال کر رہا ہے تاکہ نہ صرف گولان ہائٹس پر اپنا قبضہ مستحکم کرے بلکہ اسد حکومت کے بعد بننے والی نئی قیادت کو دباؤ میں رکھے۔
نیتن یاہو کے اس بیان کہ "ہم دشمن قوت کو اپنی سرحدوں پر قدم جمانے کی اجازت نہیں دیں گے”، سے اسرائیلی عزائم مزید عیاں ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، شام میں ایران اور حزب اللہ کی حمایت یافتہ فورسز کے خلاف اسرائیلی کارروائیاں اس بات کا اشارہ ہیں کہ اسرائیل خطے میں اپنے لیے ایک محفوظ حصار قائم کرنا چاہتا ہے۔
اسرائیل نواز طاقتوں کا کردار:
امریکہ اور مغربی طاقتیں اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہوئے شام کے معاملات میں مداخلت کرتی رہی ہیں۔ 2019ء میں امریکہ کی جانب سے گولان ہائٹس پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ واشنگٹن اسرائیلی عزائم کو نہ صرف سہارا دیتا ہے بلکہ انہیں عملی جامہ پہنانے میں مددگار بھی ہے۔
شام میں اسد حکومت کا خاتمہ مغربی طاقتوں اور اسرائیل کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغرب اور اسرائیل کی حمایت یافتہ قوتیں شام میں استحکام لانے میں کامیاب ہوں گی یا خانہ جنگی کا ایک نیا باب شروع ہوگا؟
شام کے اندرونی اور بیرونی چیلنجز:
شامی خانہ جنگی کے بعد نئی قیادت کو کئی چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ داخلی طور پر، ملک کی تعمیر نو، مہاجرین کی واپسی، اور مختلف مذہبی و نسلی گروہوں کے درمیان اتحاد قائم کرنا ایک کٹھن کام ہوگا۔
بیرونی طور پر، شام کو اسرائیل، ایران، ترکی اور دیگر علاقائی قوتوں کی مداخلت سے نمٹنا ہوگا۔ اسرائیل کی جانب سے شام کے کیمیائی ہتھیاروں پر قبضے یا ان کے خاتمے کا خدشہ بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ، اسرائیل کے لیے یہ اہم ہے کہ وہ گولان ہائٹس پر اپنی پوزیشن مضبوط رکھے اور شام میں نئی قیادت کے ساتھ اپنے تعلقات کو اپنے حق میں استعمال کرے۔
مشرق وسطیٰ کی نئی سیاسی صورت حال:
شام کی بدلتی صورتحال نے مشرق وسطیٰ میں ایک نئے سیاسی باب کا آغاز کر دیا ہے۔ بشار الاسد حکومت کے خاتمے نے ایران اور حزب اللہ کے لیے ایک بڑا دھچکا دیا ہے، جبکہ اسرائیل اور اس کے حامی مغربی ممالک کے لیے نئے مواقع پیدا کیے ہیں۔
اسرائیل کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ شام میں ایسی قیادت کو مضبوط کرے جو اس کے مفادات کو نقصان نہ پہنچائے۔ تاہم، ایران، روس، اور دیگر قوتوں کی موجودگی اس منصوبے کو پیچیدہ بنا سکتی ہے۔
نتیجہ:
شام کے بدلتے حالات نے مشرق وسطیٰ کو ایک غیر یقینی دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اسرائیل اور اسرائیل نواز طاقتوں کی سیاسی چالیں اس بات کی عکاس ہیں کہ وہ خطے میں اپنی بالادستی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ چالیں خطے میں امن و استحکام کے لیے کتنی مؤثر ہوں گی، یہ کہنا قبل از وقت ہے۔
آج مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ شام کے معاملے پر مشترکہ حکمت عملی اپنائیں اور ایسے اقدامات کریں جو خطے کو مزید تقسیم یا جنگ کی طرف لے جانے کے بجائے امن کی راہ پر گامزن کریں۔