از قلم: شاہد عادل قاسمی
19/مئ کی دھندلی شام ہے،ایک کنوارے رفیق کی موبائل کے اسکرین پر دھمک ہے،گلابی رخسار اور پنک ہونٹ پر کالے چھالے کا پہرہ دیکھ کر مجھے حیرانگی ہوئ، میرے بولنے سے قبل کچھ ادھر سے شکوہ کناں نے اپنی رپٹ لکھوادی "آپ کو سکوں تو ملا اب میری گلابی ہار کی خواہش وقت سے پہلے مرجھا گئ نا”مجھے اس معمہ نما گفتگو سے ہنسی آئی۔ در حقیقت مجھے اس وقت تک نہیں معلوم تھا کہ گلابی چپس کی ویلیڈیٹی سماپت ہوچکی ہے یا ریچارج ختم ہوچکا ہے اور نہ ہی 8/نومبر 2016کی آٹھ بجے رات رونما ہوۓ حادثہ کا دوبارہ وہم وگمان تھا۔میں نے انھیں کریدنے کی کوشش کی،میری یہ کوشش ان کے زخم پر نمک پاشی جیسی تھی۔ شاید، وہ بڑبڑانے لگا،ان کی جھلاہٹ سے مجھے محسوس ہوا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے،لگے ہاتھ سامنے ٹنگے اسکرین پر وہی پرانا حکم نامہ آج پھر رینگنے لگا،کالا دھن کی واپسی،ملک میں خوش حالی،دہشت گردوں پر کنٹرول،ڈرگ مافیا اور انڈر ورلڈ کی کمر توڑ والی گفتگو،پچاس دن،چوراہے،پھانسی اور ناکامی کی ذمہ داری خود معلن کی ہوگی والی پرانی باتیں ایسے دماغ کے شیشے میں دکھنے لگی جیسے ابھی کچھ وقفہ ہی ہوا ہو۔
8/نومبر2016 کی ریزور بینک کی ساڑھے پانچ بجے شام کی بیٹھک اور آٹھ بجے پانچ سواور ہزار کے نوٹ پر بارہ بجے سے پابندی والااعلان کس قدر لائق معیار اور قابل اعتبار تھا آج بھی لوگ ششدر ہیں،چھیاسی فیصدی نقدی پر پابندی لگائی جارہی ہے،ملک کی جاری کرنسی پر بن لیکھا جوکھا بینڈ کا حکم نافذ کیا جارہا ہے۔ مشاورتی ٹیم میں کون کون شامل ہیں،بینڈ لگاتے وقت بینڈ لگنے والی کرنسی کی تعداد کیا ہے،بینڈ کے بعد کتنے فرضی اور جعلی نوٹوں کی کھیپ حکومت کے ہاتھوں آئ،بینڈ کے بعد کتنے کالے دھنوں کی واپسی ہوئ،کتنوں کو دریاوں،صحراؤں،ندیوں،آسمانوں میں سمایا گیا یا کتنا آگ کے حوالے کیا گیا آج بھی یہ عام نہ ہوسکا تو پھر اس پابندی سے کیا فائدہ ہوا ؟
گزشتہ فیصلہ سے ملک کو کتنے فائدہ اور نقصان ہوا آج تک اس کا ڈیٹا ملک کے سامنے نہیں آیا اور نہ ہی یہ عام کیا گیا کہ گلابی نوٹ کی تعداد کیا ہے؟ان تمام نقائص کے باوجود ایک مرتبہ پھر بینڈ کے حکم پرضرور سوال ہوسکتا ہے
بلندیوں پر زندگی گزارنے والی دوہزار کی کرنسی آج بڑے بے آبرو ہوکر زمین پر گری ہے،لگزریس لائف گزارنے والی کرنسی آج اپنے موت پر خود ماتم کناں ہے،غریبوں اور فقیروں کی صندوقوں اور گلکوں میں جانے سے کترانے والی کرنسی آج دھول،گرد،کیچڑ اور آگ میں اپنے آپ کو جھونکنے سے خود کو روک نہیں پا رہی ہے، تف ہے ایسی بلندی پر، افسوس ہے ایسی زندگی پر جو کسی کے کام آۓ اور نہ ہی خود کی وجود کو بچا پاۓ۔