آہ بچپن!

از:- محمد رافع شاد اعظمی ندوی

تعلیم کا جنون کہیے یا معصوم بچوں کے بچپن کو نظر انداز کرنا، ان کی نفسیات کا خیال نہ کرنا یا اس کا شعور ہی نہ ہونا یا مادہ پرستی اور فیشن کا رجحان یا تعلیم کے نام پر جھوٹے دوغلے سماج سے متأثر ہونا، کچھ بھی کہیے بہرحال آج کا معصوم بچہ جس کسمپرسی، بے حسی، بے کسی، بے بسی، محرومی اور حرماں نصیبی کے دور سے گزر رہا ہے؛ اس کا بیان نہایت تکلیف دہ بل کہ روح فرسا ہے۔

پہلے بھی بچے پڑھتے تھے لیکن انہیں بنیادی ضروری تعلیم ان کے محلے یا گاؤں یا زیادہ سے زیادہ قریبی گاؤں میں مل جاتی تھی، جہاں وہ کھیلتے کودتے جاتے، بعض بچے روتے دھوتے اور پکڑ دھکڑ کے ساتھ بھی لے جائے جاتے اور یہی تو بچپن کی معصومیت ہے، جہاں حافظ جی، مولوی صاحب اور ماسٹر صاحب اسی طرح ہلکے پھلکے انداز میں کھیلتے کھلاتے، نہایت مہارت اور فن کاری کے ساتھ حساب، دینیات، دعائیں، قرآن، اردو، انگریزی اور پہاڑے وغیرہ اس طرح بچوں کو گھول کر پلا دیتے تھے کہ ان کو محسوس بھی نہ ہوتا کہ ہماری پڑھائی ہو رہی ہے، اس درمیان بچوں کو کھیلنے کودنے کا موقع بھی دیا جاتا، حافظ جی بیچ میں تھوڑی دیر کے لیے اٹھ جاتے ناشتے کے لیے یا کسی ضرورت سے اور وہ وقت بچوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہ ہوتا تھا، اس وقت بھی کتابیں ہوتی تھیں، کچھ کاپیاں ہوتی تھیں لیکن زیادہ تر کام تختی سے نکالا جاتا تھا، نہ ڈریس کی پابندی نہ دوسرے جھمیلے، دوپہر میں وقفہ ہوتا تو بچے دوڑتے بھاگتے کھیلتے کھلاتے گھر پہنچتے، جو بھی چٹنی روٹی، ساگ سبزی گھر میں پکا ہوتا یا گڑ روٹی یا نمک اور روٹی کڑوا تیل لگا کر اور لپیٹ کر اس کو شوق سے کھاتے اور قلابازیاں لگاتے ہوئے پھر مدرسے کی طرف بھاگ نکلتے، پھر سہ پہر میں عصر سے کچھ پہلے بچوں کی چھٹی ہوتی، مکتب میں وہ شور ہوتا وہ چہل پہل، وہ ہنگامہ، وہ رونق ہوتی کہ پوچھیے مت، اب تو بس وہ یادیں حافظے ہی کا حصہ ہیں، ان بچوں پر حافظ جی یا مولوی صاحب کو پورا کنٹرول ہوتا، وہ ان کے معلم بھی تھے مربی بھی، حافظ جی نہ صرف مکتب اور مدرسے میں بچوں کو پڑھاتے تھے بلکہ دوسرے اوقات میں بھی ان پر کڑی نظر رکھتے تھے، مسجد میں ان کی تربیت ہوتی، ان کی دیکھ بھال کی جاتی، مغرب بعد عصر بعد بچے مسجد میں جمع ہو جاتے، دعائیں سکھائی جاتیں، نماز کی عملی مشق سکھائی جاتی، اذان سکھائی جاتی، ہفتے میں وہ جمعرات کا دن ہوتا یا کوئی اور دن جب مسجد کی صفائی کی مہم بچوں کو سونپی جاتی، بچے لوٹے بندھنیاں دھو کر چمکا دیتے، بچیاں قرآن پاک کے غلاف نکال کر گھروں میں لے جا کر، اسی طرح مسجد کی ٹوپیاں گھروں میں لے جا کر خوب اچھی طرح دھو کر چمکا کر لے آتیں، پھر صاف ستھرے جزدانوں میں قرآن پاک کو سلیقے سے رکھ دیا جاتا، مسجد کا فرش دھویا جاتا، چٹائیوں کو دھوپ دکھائی جاتی، مصلے جھاڑے جاتے، گرد غبار صاف کیا جاتا، مسجد میں جھاڑو لگائی جاتی اور مسجد نمازیوں کے لیے خوبصورت، آرام دہ اور فرحت بخش ہوجاتی، ان دنوں کسی گلی میں نکل جائیے اور بطور خاص حافظ جی سامنے ہوں تو سلام کا وہ شور اٹھتا ہے کہ الامان الحفیظ ۔ وہ زمانہ تھا جب حافظ جی اور مولوی صاحب کی محبت دلوں میں تھی، گاؤں کے، محلے کے بڑے بوڑھے بزرگ اور نوجوان سب ان کا دل سے احترام کرتے تھے، سیزن کا پہلا پھل حافظ جی کے یہاں بھیجا جاتا، عمدہ چیزیں، گھر میں کوئی اچھی چیز پکی تو اس میں حافظ جی کا حصہ ہوتا، یا کوئی باہر سے ولایت سے کما کر آیا تو خوشبو ٹوپی کپڑے کے ہدیے نذرانے حافظ جی کو نہایت احترام اور خلوص کے ساتھ پیش کیے جاتے تھے، یہی خلوص اور محبت واحترام ہی درحقیقت حافظ جی کی اصل کمائی اور ان کی محنت اور بچوں کی تربیت میں ان کی جاں فشانی کا ثمرہ ہوتا تھا۔

اس زمانے میں بچے عام طور سے پانچ سال سے پہلے مکتب یا مدرسے کا رخ نہیں کرتے تھے، عام طور سے جب بچوں کی عمر پانچ سال ہو جاتی تو ان کو مکتب کے اندر اطفال میں بٹھایا جاتا جو پرائمری کی پہلی کلاس ہوتی، اس سے پہلے ڈھائی سال، تین سال ساڑھے تین سال کے بچوں کو مکتب یا مدرسے میں بھیجنے کا بالکل تصور نہ تھا، اس عمر میں تو وہ معصوم گھروں کی رونق ہوتے تھے، گھروں کو اپنی خوشبوؤں سے مہکاتے تھے، مٹی میں کھیلتے نہاتے تھے، ہنستے تھے، روتے دھوتے تھے، گھر کو جنت بناتے تھے، اس زمانے میں ماں یا دادی نانی ہی ان کے لیے سب کچھ ہوتیں، استاد بھی، مربی بھی، سب کچھ، ماں ہی ہوتی جو انہیں رات میں لوریاں سناتی ، کلمے اور دعاؤں کے ساتھ ان کو تھپکیاں دیتی، انہیں اپنا دودھ پلاتی۔

لیکن اب حالات یکسر بدل گئے ہیں، گاؤں اور محلوں کے مکاتب اور مدارس کا نظام ٹوٹ چکا ہے، کبھی گاؤں کے مدرسے یا مکتب میں خوب رونقیں ہوا کرتی تھی، لیکن آج وہ عمارت کھنڈر میں تبدیل ہو چکی ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں، جو زبان حال سے اپنے ماضی پر نوحہ کناں ہیں اور عہد حاضر کے انسانوں سے شاکی ہیں کہ اسے یوں بے رونق، بے سہارا، بے کس و بے بس بنا کر اکیلا اور تنہا چھوڑ دیا گیا، شاذ و نادر کہیں کہیں آپ کو کوئی مدرسہ یا مکتب گاؤں میں نظر آجائے گا ورنہ عمومی صورتحال وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی، اگر کہیں مدرسے اور مکتب کی پرانی عمارت نظر بھی آجائے تو اس کی پرانی تصویر نہیں ملے گی، بل کہ اب اسے بدل کر نیا رنگ روغن چڑھا کر ماڈرن تعلیم کا اڈا بنادیا گیا۔

اب بچے پڑھنے کے لیے دور دور کے گاؤں بازاروں میں موجود جدید ماڈرن اکثر انگلش میڈیم اسکولوں میں بسوں میں بھر بھر کے جاتے ہیں، ستم تو یہ ہے کہ وہ معصوم بچہ جس کی عمر محض ڈھائی برس یا تین ساڑھے تین برس ہے؛ اسے بھی اپنی ماں کی گود سے، اپنے باپ کی شفقت سے، دادی اور نانی کی محبت بھری چھاؤں سے دور کر کے روزانہ اس کے جذبات کو پتھر سے کچل کر، اس کی معصوم ذہنیت اور نفسیات کو خون کرکے، بظاہر خوش نما ڈریس پہناکر خوبصورت بستے کے ساتھ بسوں میں بھر کر دور کسی اسکول میں بھیج دیا جاتا ہے؛ جہاں سے اس معصوم کی واپسی شام کے تین چار بجے سے پہلے نہیں ہوتی۔

اس معصوم کو کیا معلوم کہ تعلیم کیا ہوتی ہے؟ اسے کیا شعور حروف کا؟ اسے کیا شعور کتابوں کا، کاپیوں کا؟ اسے تو جیتے جی مار دیا گیا، اس کا معصوم بچپن اس سے چھین لیا گیا، اس کی ماں کی گود، ماں کا پیار، دادی اور نانی کی شفقتیں، گھر کا محفوظ ماحول، گھر کی خوشیاں، گھر کا کھانا دودھ؛ سب کچھ تو اس سے چھین لیا گیا، کس نام پر؟ شاید تعلیم کے نام پر، شاید تربیت کے نام پر یا شاید اس لیے کہ دنیا بندر بن گئی ہے، نقالی اور اندھی تقلید کی عادی ہو چکی ہے، دیکھا دیکھی لوگ اس سڑے ہوئے کلچر کو، اس پھسپھسی تہذیب یا بے تہذیبی کو قبول کرتے جا رہے ہیں، کوئی اس بات کے لیے تیار نہیں، نہ نونہانوں کے والدین، نہ ان کے گارجین، نہ ماہرین تعلیم، نہ جھوٹے تعلیم کے ٹھیکے دار، نہ اساتذہ کا گروپ نہ اسکول کا اسٹاف؛ کوئی بھی بچے کی نفسیات، اس کی نفسیاتی کیفیات، اس کے ذہنی احساسات، بچے کی جسمانی صحت اور اس کے مینٹالیٹی پر پڑنے والے منفی اثرات کو سمجھنے، اس کی اداس انکھوں میں جھانک کر دیکھنے، اس کے چہرے کی اڑی ہوئی رنگت پر نظر ڈالنے، اس کے تھکے ہوئے قدموں، اداسیوں اور محرومیوں میں بدل گئی اس کی مسکراہٹ کو دیکھنے کی کسی کو فرصت نہیں ہے۔

اس معصوم کو اسکول بھیجنے کا خوبصورت جواز یہ نکالا گیا کہ وہاں بچوں کو کھلایا جاتا ہے، دوستانہ ماحول میں مشفقانہ انوارمینٹ میں کھیلتے کھیلتے ان کو بہت ساری باتیں، بہت ساری چیزیں یاد کرائی جاتی ہیں، ان کی تربیت کی جاتی ہے، ان کو اچھی عادتیں سکھائی جاتی ہیں، لیکن ان سارے دعووں کی حقیقت کسی سراب سے زیادہ نہیں ہے، کون کہہ سکتا ہے کہ اسکول کی چار دیواری میں اس معصوم کو ماں سے زیادہ پیار کرنے والی کوئی استانی ملے گی، دادی اور نانی سے زیادہ شفقت کرنے والا کوئی سرپرست ملے گا، وہ بچہ جو سات سے آٹھ گھنٹے اپنے محفوظ گھر سے دور رہتا ہے، ذرا سوچیے وہ خود کو کتنا غیر محفوظ محسوس کرتا ہوگا، کون ہے وہاں پر اس کی دیکھ بھال کرنے والا؟ کون ہے وہاں اسکول کے کیمپس میں اس کی کیئر کرنے والا ؟ جب کہ ایک بڑی تعداد بچوں کی وہاں پر جمع کرلی جاتی ہے، کیا ہر ہر بچے کو توجہ دینا اور شفقت دینا اسکول اسٹاف کے لیے، اس کی استانیوں کے لیے ممکن ہے، کیا بچے کی استانیاں اور اس کے استاذ ماہر فن، تربیت یافتہ، مکمل ذمہ دار، اخلاق مند اور مہربان ہیں؟ کیا بچوں کی شرارتوں سے وہ غصہ نہیں ہوتے؟ کیا بچوں کو وہاں ڈانٹ ڈپٹ نہیں کیا جاتا؟ اگر بچے پیشاب پاخانہ کردیں یا ان کو کوئی عارضہ پیش آئے تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی جاتی؟ ان کے کان نہیں کھینچے جاتے، ان سے سخت کلامی نہیں کی جاتی یا ان کے ساتھ نہایت سنگ دلانہ اور جارحانہ برتاؤ نہیں کیا جاتا ہے؟ بچے کو جو ماں کی ممتا حاصل ہوتی ہے، جو اپنے گھر کے اندر اسے احساس تحفظ ہوتا ہے، مضبوطی ہوتی ہے ،کیا اس کا عشر عشیر بھی اسکولوں کے کیمپس میں بچوں کو نصیب ہوتا ہے؟ میری باتوں پر اگر یقین نہیں تو کبھی آپ کسی اسکول کا جائزہ لیجیے حقیقت حال خود آپ پر نصف النہار کی طرف واضح ہوجائے گی، کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ پری نرسری یا پلے کلاس یا پلے گروپ کا نظام مختلف ملکوں میں رائج ہے اور لوگوں نے اس کو قبول کیا ہے، لہذا اس پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا، میں ان سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آیا اس پری نرسری کے لیے کوئی گائیڈ لائن اور اصول وضوابط بھی ہیں؟ کیا اس کے لیے گھنٹوں کی کوئی تعداد بھی ہے؟ اس کے لیے کسی خاص ماحول کی فراہمی بھی مطلوب ہوتی ہے؟ اس کے لیے اساتذہ، سہولیات اور اسکول کی کوالٹی بھی معنی رکھتی ہے؟ اس کے لیے اخلاق، احساس ذمہ داری، اخلاص اور محبت بھی کوئی چیز ہے؟ اور کیا ہمارے ہاں ان سارے معیاروں کو حاصل کر لیا گیا ہے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔

افسوس یہ معصوم بچے اس ظالمانہ، جاہلانہ اور سرمایہ دارانہ نظام سے بغاوت بھی نہیں کر سکتے، وہ بیچارے بے زبان اپنے احساسات کی ترجمانی بھی کرنے سے قاصر ہیں، انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ یہی ہماری زندگی ہے، وقت سے پہلے وہ بڑے ہوگئے، انہوں نے اسی طرز حیات سے سمجھوتہ کرلیا، اس لیے کہ بھری دنیا میں ان کے احساسات و جذبات کو سمجھنے والا کوئی نہیں؛ خود ان کے والدین بھی نہیں بے بل کہ شاید وہ انہیں اسکول کے حوالے کرکے اپنے لیے ان کے شور ہنگامے، ان کے رونے پکارنے اور ان کی موج مستیوں سے اپنے آپ کو دور کرنے کا ایک بہانہ ڈھونڈ لیتے ہیں، اپنے لیے سکون اور عافیت کے چند لمحے حاصل کرلیتے ہیں، ان مجبور بچوں نے اسی زندگی کو قبول کرلیا ہے، اور پھر ان کے اندر بہت کچھ ٹوٹ گیا بکھر گیا جس کے اثرات بعد میں ظاہر ہو کر رہیں گے، یہ بچے جو نہایت چھوٹی عمر میں اپنے ماں باپ سے، اپنے گھر کے ماحول سے گھنٹوں کے لیے دور کر دیے جاتے ہیں؛ یہ آگے چل کر نہ اپنے ماں باپ کا احترام کریں گے نہ ان سے محبت بلکہ ان کے تئیں ان کے دلوں میں نفرت کے جذبات پیدا ہوں گے، ان کے اندر چڑچڑاپن، غصہ، ہٹ دھرمی اور نافرمانی پیدا ہوگی، اور پھر ماں باپ ماتم کریں گے کہ بچہ بگڑ گیا۔

کون ہیں وہ لوگ، وہ والدین جنہوں نے اس نظام کو قبول کرلیا؟ آخر وہ کیا چاہتے ہیں؟ اگر اپنے معصوموں کی شرارت اور ان کی شوخیاں وہ نہیں دیکھ سکتے تو لعنت ہے ایسے والدین پر، اللہ انہیں غارت کرے جو اپنے بچے کی شرارتوں، اس کی معصومیتوں، اس کے رونے دھونے اور اس کی چیخ پکار کو نہیں سن سکتے، اس کے کھیل تماشوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے، اس بچپن سے محظوظ نہیں ہوتے، لعنت ہے ایسے ماں باپ پر۔

رہی بات اسکولوں کی، اسکول انتظامیہ کی، ان کے سبز باغوں کی اور پرکشش اور پر فریب دعووں کی تو اس کا سیدھا فائدہ ان کو ہی ملتا ہے اور وہ یہاں سے اچھا خاصا پیسہ کماتے ہیں، ایک موٹی فیس وصول کرتے ہیں، پھر ظاہر ہے وہ کیوں اس کی مخالفت کریں گے، وہ تو یہی چاہیں گے کہ قوم کا ہر بچہ پیدا ہوتے ہی ان کے اسکول میں آجائے جس کے لیے انہوں نے بد تہذیب، غیر ذمہ دار، غیر تربیت یافتہ نوجوان لڑکیوں کو، پھوہڑ دائیوں کو اکثر کم پیسوں میں یا کبھی کچھ زیادہ پیسے دے کر ہائر کیا ہے اور خوبصورت شان دار دکان چلائی جارہی ہے۔

حیرت تو اس پر ہے کہ ان معصوموں کے نازک کاندھوں پر کتابوں کا بوجھ بھی لاد دیا گیا ہے، ظاہر ہے ان کتابوں کی تعلیم کی ذمہ داری استانیوں کو سونپی گئی ہے اور پھر ظاہر ہے ان سے یہ مطالبہ بھی ہوگا کہ آپ نے کتنا سمجھایا، کتنا پڑھایا، سلیبس مکمل کیا کہ نہیں، اگر نہیں کیا تو ان کو ڈانٹ سننی پڑے گی اور وہ اس مؤاخذہ سے بچنے کے لیے بچوں پر سختی کریں گی۔

اللہ کے لیے اپنے معصوموں پر رحم کھائیے، پانچ سال سے پہلے اپنے معصوموں کو اپنی گودوں سے، اپنے گھر کے محفوظ ماحول سے، اپنے گلی محلے سے باہر نہ بھیجیے، باہر کی فضا نہایت مسموم ہے، وہ بچوں سے ان کا بچپن چھین لے گی، ان کے معصومیت کا گلا گھونٹ دے گی اور پھر یہ بچے آگے چل کر قوم و ملت کے لیے نافع نہیں؛ آپ کے باغی ہوں گے، قوم و ملت کے باغی ہوں گے۔

لیکن اگر آپ نے طے کر ہی لیا ہے کہ ہمیں اپنے معصوم بچے کو ان اسکولوں میں بھیجنا ہی ہے تو خوب اطمینان کرلیں کہ اسکول کا ماحول کیسا ہے؟ بچے کی استانیاں اور اس کے استاذ کیسے ہیں؟ وہاں آیاؤں کا کیا مزاج ہے؟ ان کی کیا تربیت ہے؟ بچوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے؟ بچوں کو وہاں کیا سہولیات دی جاتی ہیں؟ پڑھانے لکھانے کے تعلق سے کتنا فورس کیا جاتا ہے؟ آیا محبت سے انہیں سمجھایا جاتا ہے یا ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے؟ خود اپنے بچے کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھیں، اس کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کریں، اس کو جذباتی تعلق کا احساس دلائیں، جب بچہ گھر واپس آئے تو اسے سینے سے لگاکر پیار کریں، اس کا ماتھا چومیں، اس کے ساتھ وقت گزاریں، اس کو کہانیاں سنائیں، اس کے ساتھ ڈھیر ساری باتیں کریں، اس کے ساتھ خوب محبت سے پیش آئیں کہ وہ اسکول کی ساری اونچ نیچ کو اور تلخیوں کو صاف دل سے بھلا دے اور اپنے اندر تحفظ اور مضبوطی محسوس کرے، ڈھیر ساری دعائیں دے کر اس کو رخصت کریں اور کوشش کریں کہ آپ کا بچہ آپ سے چار سے پانچ گھنٹے سے زیادہ دور نہ رہے، اگر یہ ممکن ہے اور آپ ان چیزوں کو یقینی بناسکتے ہیں تو بے شک آپ اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں بھیجیے، میری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں، میری نیک دعائیں قوم کے ان نونہانوں کے ساتھ ہیں۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔