ایکس مسلم کا فتنہ

🖋مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

جس درخت پر پھل هوتے هیں، اسی پر پتھر پھینكے جاتے هیں، شجر بے ثمر كی طرف كوئی نظر اٹھا كر بھی نهیں دیكھتا، اسی طرح جن مذاهب كا دور گزر چكا هے، یا جن میں انسانیت كو متأثر كرنے كی صلاحیت نهیں هے، ان كی تردید اور ان پر تنقید كی ضرورت نهیں هوتی؛ كیوں كه ان كی عقیدت ومحبت كی جڑیں دلوں میں پیوست نهیں هوتیں، ان كی پهچان محض كچھ رسومات تك محدود هوتی هیں، دنیا كے بڑے حصے بظاهر عیسائیت كے زیر اثر هیں؛ لیكن عیسائیت عملاََ كرسمس تك محدود هے، نه اس میں حلال وحرام كا كوئی تصور هے، نه صحیح اور غلط كی سرحدیں هیں، هندو مذهب میں لاكھوں دیویوں اور دیوتاؤں كو پوجا كی جاتی هے، جو لوگ رام جی كی پوجا كریں اور راون كا پتلا جلائیں، وه بھی هندو هیں، اور جو لوگ راون كے پرستار هوں، وه بھی هندو هیں، جو لوگ خدا كے منكر هوں وه بھی هندو هیں، اور جو خداؤں كی ایك فوج كے سامنے سر جھكاتے هوں، وه بھی هندو هیں، نه هندو مذهب انسانی زندگی میں كوئی تبدیلی لاتا هے، اور نه عیسائیت انسان پر كوئی فرض عائد كرتی هے، اور زندگی كے اچھے اور برے معاملات میں كوئی رخنه ڈالتی هے، ایسے مذاهب سے انسان كی زندگی میں كوئی تبدیلی نهیں آتی تو ظاهر هے كه نه اس كو قبول كرنے میں كوئی دشواری هے اور نه هی چھوڑنے میں؛ اس لئے ان پر فكری تنقید بھی نهیں هوتی، چاهے كتنی بھی غیر فطری بات كهی جائے، لوگ سر جھكالیتے هیں، گائے كے گوبر سے جسم كو مَلتے هیں، اور گئو متر پیتے هیں، خنزیر كھاتے هیں اور شراب پیتے هیں، مردو عورت كے تعلقات میں كسی حد بندی كے قائل نهیں هیں، ایسے مذاهب انسان كی خواهشات میں كوئی ركاوٹ پیدا نهیں كرتے؛ اس لئے عام لوگوں كو ان پر انگلی اٹھانے كی ضرورت محسوس نهیں هوتی۔

جو مذهب زندگی كا ایك پورا نظام ركھتا هے، جس میں حلال وحرام كی سرحدیں مقرر هوں، جس میں انسانی خواهشات كے لئے حدیں قائم هوں، اس میں انسان كو قدم قدم پر خواهش پرستی كے راستے میںر كاوٹ پیدا هوتی هے؛ اس لئے اس پر سوالات اٹھائے جاتے هیں؛ اس لئے اگر كچھ لوگ خواه وه ایمان كے دائره سے باهر هوں، یا نام نهاد مسلمان هوں، اگر اسلام پر انگلی اٹھائیں اورزبان كھولیں تومجھ كو كوئی حیرت نهیں هوتی؛ كیوں كه یه فطری بات هے، جب كسی كی خواهش پر زد پڑتی هے، تو چاهے كتنی اچھی بات كهی گئی هو، وه اس كو ناگوار گزرتی هے۔

اس وقت عالمی سطح پر ایك فتنه سر گرم عمل هے، اس میں بعض گروپ انٹرنیشنل سطح پر كام كر رهے هیں، اور ان كی ویب سائٹس سےهندوستان میں بھی فائده اٹھایا جا رها هے، اور بھولے بھالے مسلمانوں كو گمراه كرنے كے لئے استعمال كیا جا رها هے، اور بعض ویب سائٹس هندوستان كی هیں، معلوم هوا كه اس سلسله میں كیرا له كی exmuslim.in زیاده فعال هے، یه مسلمانوں كو دعوتِ ارتداد كی ایك خطرناك صورت هے، پڑھے لكھے جدید تعلیم یافته نوجوانوں كی ایك بڑی تعداد اسلامی لٹر یچر سے نابلد هے، اور وه صرف سوشل میڈیا سے معلومات حاصل كرتی هیں، ان میں سے بهت سے وه بھی هیں، جن كا علماء ، دینی شخصیات اور دینی اداروں سے كوئی واسطه نهیں هے، ایسے نوجوانوں پر سخت توجه كرنے كی ضرورت هے۔

مسلمانوں اور خاص کر علماء ، مذہبی جماعتوں اور پیشواؤں کا فریضہ ہے کہ وہ اس بارے میں پوری فکر مندی سے کام لیں ، مسلم سماج کو ایسے فتنوں سے بچائیں ، جہاں جلسوں ، اجتماعات اور جمعہ وعیدین کے خطبات میں اعمالِ صالحہ کی ترغیب دی جاتی ہے ، وہیں مسلمانوں کو ایمان کی حقیقت اور اس کی ا ہمیت بھی بتائی جائے ، جیسے عملی گناہوں کی شناعت بیان کی جاتی ہے ، اسی طرح کفروشرک کی برائی بھی ان کے سامنے رکھی جائے ، قرآن وحدیث سے بھی انھیں سمجھایا جائے اور عقیدۂ توحید کی معقولیت ، اس کی کائنات کی فطرت سے مطابقت اورشرک کی نامعقولیت بھی انھیں سمجھائی جائے ، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرمایا کرتے تھے کہ لوگ وضوء اور روزہ کے نواقض کے مسائل تو بتاتے ہیں ؛ لیکن نواقض ایمان نہیں بتاتے، یعنی جن باتوں کی وجہ سے انسان کا ایمان ختم ہو جاتا ہے ، ان کوبھی بتانا چاہئے ، موجودہ حالات میں اس کی ضرورت و اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کو ایمان اور ہدایت کی اہمیت سمجھائی جائے کہ یہ نعمت اللہ تعالیٰ کی توفیق اور حُسن انتخاب سے ملتی ہے، رسول اللہ ﷺ کو بھیجا ہی گیا تھا انسانیت کی ہدایت و رہنمائی کے لئے ، پھر بھی آپ ﷺسے فرمایا گیا کہ ضروری نہیں کہ آپ جسے چاہیں ، وہ ہدایت پا جائے ، اللہ تعالیٰ اپنی مشیت خصوصی سے جس کو چاہتے ہیں ، ہدایت سے نوازتے ہیں : إنَّـکَ لاَ تَھدِي مَن أحبَبتَ وَلٰکِنَّ اللّٰهَ یَھدِي مَن یَّشَاء(القصص: ۵۶)تمام رشتوں میں سب سے قربت کا رشتہ بیوی اور اولاد کا ہوتا ہے ؛ لیکن حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیوی، نیز حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد کے لئے ہدایت مقدر نہیں ہو سکی، (تحریم: ۱۰-ھود:۵۶) عبداللہ بن سعد بن ابی سرح مسلمان ہوا ، بارگاہ نبوی ﷺ میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ نے اس سے وحی کی کتابت کرائی؛ لیکن اللہ کی طرف سے اس کے لئے ہدایت پر قائم رہنا مقدر نہیں تھا ؛ اس لئے پھر مرتد ہوگیا ، پھر فتح مکہ کے موقع سے اس نے توبہ کی اور حضرت عثمان غنیؓ کی سفارش پر آپ ﷺ نے اس کی توبہ قبول فرمائی ، (مسند بزار ، حدیث نمبر: ۱۱۵۱) اسی لئے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر دُعاء سکھائی ہے : اے اللہ ! ہدایت پانے کے بعد پھر ہمارے دل کو کجی میں مبتلا نہ فرمادیجئے : رَبَّنَا لاَ تَزِغ قُلُوبَنَا بَعدَ إذ ھَدَیتَنَا (آل عمران: ۸)

ایمان کی اس اہمیت کا تقاضہ ہے کہ ایمان کی حفاظت میں جن آزمائشوں سے گزرنا پڑے ، ایک صاحب ایمان ان پر صبر کرے ، اور اس کے پائے استقامت میں کوئی تزلزل نہ آئے ، قرآن مجید میں اہل ایمان اور کفر کی نمائندہ ظالم قوتوں کے درمیان تصادم کے بہت سے واقعات نقل کئے گئے ہیں ، ان واقعات مین کہیں ایسا بھی ہوا کہ اہل ایمان کو غلبہ حاصل ہوا ، یاایسا معجزہ ظہور میں آیا کہ کفر کی طاقت پاش پاش ہو گئی ؛ لیکن بہت سی دفعہ اہل ایمان کو صبر وآزمائش کے مرحلوں سے گزرنا پڑا ، اور بظاہر وہ ظلم کی چکی میں پستے رہے ، قرآن میں ان واقعات کے تذکرہ کا بظاہر یہی مقصد ہے کہ ایمان اور عمل صالح کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے آخرت کی کامیابی اور نجات کا وعدہ کیا ہے ، اور یہ ایک یقینی بات ہے ، ان شاء اللہ اہل ایمان ہی آخرت میں سرخرو ہوں گے ؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے دنیا میں یہ وعدہ نہیں فرمایا کہ بہر صورت مسلمانوں ہی کو مادی کامیابی حاصل ہوگی ، ان کے دشمن یقینی طور پر مغلوب ہوجائیں گے ، انھیں تکلیف سے آزمایا نہیں جائے گا اور اُن کے لئے پھولوں کی سیج بچھائی جائے گی ؛ بلکہ قرآن نے اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم تمہیں جان ، مال اور اولاد کے نقصان سے ضرور ہی آزمائیں گے : وَلَنَبلُوَنَّکُم بِشَئي مِّنَ الخَوْفِ وَالجُوْعِ وَنَقْصِ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ (البقرۃ: ۱۵۵۱)
قرآن مجید میں متعدد واقعات ذکر کئے گئے ، جن میں اصحاب ایمان کے بعض گروہوں کے ساتھ بڑا ظلم روا رکھا گیا ؛ لیکن کبھی انھوں نے دعوت حق سے منھ نہیں پھیرا ، قرآن مجید میں ان جادوگروں کا ذکر کیا گیا ہے ، جن کو فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں پورے مصر سے جمع کیا تھا ، جب ان جادوگروں پر یہ بات واضح ہو گئی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جادوگر نہیں ہیں ؛ بلکہ واقعی اللہ کے نبی ہیں ، تو وہ ایمان لے آئے ، فرعون نے کہا : میں تم سب کے اُلٹے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالوں گا ، اور سولی پر چڑھا دوں گا ؛ لیکن ان حضرات نے جواب دیا کہ ہمیں تو یوں بھی اللہ کی طرف لوٹنا ہی ہے ، اور اللہ تعالیٰ سے دُعاء کی کہ ہمیں صبر کرنے کی قوت عطا فرما اور اسلام کی حالت میں اس دنیائے فانی سے اُٹھا : رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ (الاعراف:۱۲۶۲)

قرآن مجید میں ایک اور واقعہ’’ اصحاب اُخدود‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے ، کچھ لوگ جو حقیقی عیسائیت پر قائم تھے ، مشرک حکمرانوں نے ان کو تبدیلیٔ مذہب کے لئے مجبورکرنے کی کوشش کی ، یہاں تک کہ ایک بڑی خندق کھود کر آگ سلگائی گئی ، تمام اہل ایمان کو اس دہکتی ہوئی آگ میں پھینک دیا گیا اور یہ سب کچھ ان کے ساتھ صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے کیا گیا : وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ لیکن اس کے باوجود وہ اس پر ثابت قدم رہے ، انھوں نے نذر آتش ہو جانا گوارا کیا ؛ لیکن دولت ایمان سے محرومی کو قبول نہیں کیا ۔(البروج: ۸)

خود صحابہ کرامؓ نے ایمان کے لئے کتنی قربانیاں دیں ؟ سیرت کے صفحات قربانی کے ان نقوش سے روشن ہیں ، یہ اُمیہ ہے ، جو حضرت بلالؓ کو دوپہر کی دھوپ میں مکہ کی سنگلاخ وادیوں میں گھسیٹتا اور گھسیٹواتا تھا ، پھر ان کے سینہ پر پتھر کی چٹان رکھ دیتا تھا کہ وہ اس گرم ریت پر حرکت بھی نہ کر سکیں ، اور کروٹ بھی نہ لے سکیں ، پھر کہتا تھا : تم کو مرنے تک اسی طرح رہنا ہے ، اس سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ تم محمد ﷺکے نبی ہونے کا انکار کرو اور لات وعزیٰ کی مورتیوں کی پوجا کرو ، قربان جائیے، حضرت بلالؓ پر!کہ ایسے حالات میں ایمان پر قائم رہنے کے ساتھ صرف زبان سے کلمۂ کفر کہنے کی گنجائش ہے ؛ لیکن حضرت بلالؓ کے عشق ایمانی اور جذبۂ قربانی کو یہ بات بھی گوارا نہیں تھی اور ان کی زبان پر’’ اَحد اَحد‘‘ یعنی ’’اللہ ایک ہے ، اللہ ایک ہے‘‘ کا کلمہ جاری رہتا تھا۔

یہ حضرت خبیب انصاریؓ ہیں ، جنھیں اہل مکہ نے گرفتار کر لیا تھا ، جب انھیں غزوہ بدر کے بعض مقتولین کے بدلہ میں حرم سے باہر لے کر نکلے ؛ تاکہ انھیں قتل کر دیا جائے تو ان کی ثابت قدمی کا حال یہ تھا کہ نہ رونا دھونا ، نہ آہ و واویلا ، نہ جزع وفزع ، نہ جان بخشی کی اپیل اور نہ خوشامد ، نہ دل کے اطمینان کے ساتھ کلمۂ کفر کا تلفظ کہ جان بچانے کے لئے خود قرآن مجید نے اس کی اجازت دی ؛ (سورۂ نحل: ۱۰۶) بلکہ صرف دو رکعت نماز کی اجازت طلب کی اور دوگانہ ادا فرمائی ، پھر فرمایا : اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ میں نماز لمبی کروں تو تم اس کو موت سے گھبراہٹ سمجھوگے تو میں نماز کو لمبی کرتا : واللّٰه لولا أن تحسبوا أن ما بی جزع لزدت (بخاری، حدیث نمبر: ۳۹۸۹) اس طرح حضرت خبیبؓنے اللہ و رسول سے وفاداری کا حق ادا کر دیا ؛ چنانچہ یہ مسلمانوں کی سنت بن گئی کہ جب بھی کسی مسلمان کو گرفتار کر کے قتل کیا جاتا تو وہ اس سے پہلے دو رکعت نماز ادا کرتا ۔ (بخاری،حدیث نمبر: ۳۹۸۹)

اس لئے مسلمانوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ مسلمان ہونا کوچۂ عشق میں قدم رکھنا ہے ، عجب نہیں کہ اس میں آگ کے شعلوں پر چلنا اور کانٹوں بھرے راستہ کو طے کرنا پڑے؛ لیکن جب انسان جان ومال اورعزت وآبرو کی حفاظت کے لئے ایسی آزمائشوں کو برداشت کرتا ہے تو ایمان کی نعمت تو اس سے کہیں بڑھی ہوئی ہے ، اس کے لئے تو یہ قربانیاں ہیچ ہیں ؛ اس لئے ہر مسلمان کو اللہ سے دُعاء کرنی چاہئے کہ ملت ِاسلامیہ ایسی آزمائشوں سے محفوظ رہے؛ لیکن اس عزم مصمم اور ارادۂ مستحکم کو اس کے سینہ میں جاں گزیں ہونا چاہئے کہ اگر صبر وآزمائش کے مرحلے آئیں گے ، تب بھی ہم اپنی وفاداری پر آنچ نہیں آنے دیں گے کہ پروانگی اس کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی کہ اس میں شمع پر جل مرنے کا جذبہ کامل موجود ہو ۔
فتنۂ ارتداد کے مقابلہ کی بہت بڑی ذمہ داری علماء پر ہے ، افسوس کہ ہم نے سمجھ لیا کہ ہمارے فرائض مساجد اور مدارس تک محدود ہیں ، اس دائرہ سے باہر جیسی کچھ بھی آفت آجائے ، اس سے نمٹنا ہمارے فرائض میں شامل نہیں ہے ، وہ زیادہ سے زیادہ نفل کے درجہ میں ہے ، یہ درست نہیں ہے ، یہ اپنے مقام ومرتبہ کے ساتھ ناانصافی اور اُمت کے ساتھ ظلم و زیادتی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: علماء أمتي کأنبیاء بني اسرائیل (المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر: ۷۰۲) میری اُمت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں ، بنی اسرائیل کے انبیاء کی زندگی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ایک نبی ایک قوم کو اپنی کوششوں کا ہدف اور جدوجہد کا مرکز بناتا تھا ، اور اس طرح وہ قوم ہدایت سے سرفراز ہوتی تھی ، علماء کا طرز عمل بھی یہی ہونا چاہئے کہ وہ ایک حلقہ کو اپنی کوششوں کا مرکز بنالیں ، اور اس حلقہ پر پوری نظر رکھیں کہ کہیں دبے پاؤں ارتداد کا فتنہ آپ کے حلقہ میں داخل تو نہیں ہو رہا ہے۔

اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : إن العلماء ورثۃ الأنبیاء (ابو داؤد: ۳۶۴۱) کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں ، اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے بعض شارحین نے ایک خوبصورت اور بامعنی اشارہ اخذ کیا ہے کہ انبیاء بلا طلب خود ضرورت مندوں تک پہنچتے تھے ، توعالم کو بھی اُمت کے درمیان بغیر طلب کے پہنچنا چاہئے ، جب ہی انبیاء کے وارث ہونے کا حق ادا ہوگا ، ضرورت ہے کہ مدارس ، مذہبی تنظیمیں ، جماعتیں اور علماء ومشائخ اپنی اصلاحی سرگرمیوں کو مساجد ، مدارس اور خانقاہوں سے باہر لے کر جائیں ، خود اُمت کے دروازوں تک پہنچیں ، ملت کے دلوں پر دستک دیں اور ان کے ایمان و اعمال کی حفاظت کو اپنی ضرورت سمجھیں۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔