Slide
Slide
Slide
shahid adil qasmi

سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے

شاہدعادل قاسمی ،پرنسپل مدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ ارریہ ضلع ارریہ 

16/جون 2023ء کا گرم دن ہے،بہار کے ریکارڈ توڑ گرم موسم میں ایک اندوہ ناک خبرسماجی روابط کے جدید پلیٹ فارم پر نہایت ہی تیزگامی کے ساتھ تشہیری مہم کو چھیڑے ہمارے سینوں کو چھلنی چھلنی کررہا ہے،ایک فکر آفاقی،ایک نگاہ افلاکی،ایک سخن دل نوازی،ایک پرواز لولاکی اپنے گوناگوں خوبیوں وکمالات کے ساتھ ساتھ عالم فانی سے فنا کی پبلسٹی لئے حیات مستعار کو الوداع کہہ رہا ہے،موجودہ "جھارکھنڈ” کا "جامتارا”کبھی” بہار”کا "دمکا”ضلع کا حصہ ہوا کرتا تھا،اسی کے قریہ”راجہ بھٹیا”میں 16/فروری 1954ء کا دن ایک ظریف اور شریف الطبع شخصیت کو وجود بخشتا ہے،جو غایت درجہ کے ذکی الحس،بذلہ سنج، پیکراخلاق اور سر چشمۂ حسنات ہیں،جن کی اخلاقی قدریں تہہ بہ تہہ شگفتہ،شائستہ ،مجلی اورمصفی ہیں،جنھیں خود نمائ،خود ستائ اور احساس تفوق سے بیر ہے،جن کی دل آویز شخصیت جہاں سحر انگیز ہے، وہیں مثبت اور مستحکم اذہان،رجحان اور میلان کو سہی دِشا اور دشا دکھانے کا مزاج بھی قابل نمونہ ہے،درست ادراک اورپاک شعور کو جلا بخشنے کی صلاحیت ان کی مایہ نازصفت رہی ہے،ابتدائ تعلیم کا سلسلہ "جامعہ حسینیہ گریڈیہہ” اور "مدرسہ اشرف العلوم کلٹی بردوان” سے ہوا ہے، جب کہ متوسطات تک کی تعلیم    1967ءمیں مظاہر علوم سہارن پورسےہوئ ہے،1968ء میں دارالعلوم دیوبند سے فضیلت،1971ء میں دارالعلوم دیوبند سے تکمیل ادب،1973ءمیں دارالعلوم دیوبند سے خطاطی اور 1975ء میں دارالعلوم دیوبند سے تکمیل افتاءکی تعلیم مکمل کی ہے،1976ء میں” علی گڑھ” سے ادیب کامل اور اسی سال آپ دارالعلوم دیوبند کے معروف عربی ماہنامہ”الداعی”کے معاون مدیربھی نام زد ہوۓ،فاصلاتی نظام کے تحت "آگرہ یونیورسٹی” سے 1989ءمیں آپ نے اردو سے ایم اے کیا۔

زمانۂ طالب علمی سےہی آپ عزم کے پکے اور مشن کے سچے رہے ہیں،آپ کے ہم عصر آپ پر مثلِ شمع پگھلتے رہے ہیں،حسن سیرت اور حسن خوش گفتاری سے آپ نے دلوں پر اپنا سکہ بہتر جمایا ہے،علمی اور تحقیقی میلان سے نفوس پر آپ نے جلوہ بھی خوب بکھیرا ہے،سوز عشق اور جستجوئے پیہم سے آپ نے لوہا منوایا ہے،علم وایقان  کو حرزجان بناکر ہمہ وقت آپ نے آئیڈیل کا کردار نبھایا ہے،بے پناہ صلاحیت واستعداد کے ساتھ ساتھ خطاطی کے نوک وپلک کو سنوارکر آپ نے اپنے نام ایک اعجاز رقم کیا ہے،الداعی کے ظاہری اور باطنی حسن کو آپ نے بالیدگی بخش کر نادر اور یکتا خطاط کے لقب کو اپنے نام سے ملقب کیا ہے،شومئی قسمت یا حالات کی ستم ظریفی سے قضیہ دارالعلوم دیوبند کو تعبیر کیجئے،تنازع دارالعلوم دیوبند کے وقت جو ناگفتہ بہ حالات پیش آۓ ،اس میں اِدھرسے اُدھر والی کیفیت خوب دھمال مچاتی رہی، حضرت مہتمم صاحب(قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ علیہ )کے ساتھ موصوف بھی دارالعلوم وقف کا جزو بن گئے،استاد حدیث کی حیثیت سے دارالعلوم وقف کی درس گاہوں کو زینت بخشتے رہے،ہزاروں تشنگان علوم نبویہ سیراب اور فیض یاب ہوتے رہے،درجنوں تالیفات وتصنیفات سے اہل علم استفادہ کرتے رہے،اپنے جسم وجثہ کے ساتھ تاحین حیات ہمہ جہتی کے ساتھ مصروف عمل رہے،گل افشانی گفتار سے محفل کو گل گل زار بناتے رہے،الگ الگ تیکنک اور اسلوب سے تخلیقات کی دل کشی کو منصۂ شہود پر پیش کرتے رہے،بے معنویت اور دھندھلکوں والی گفتگو اور عبارت  سے ہمیشہ مخاطب کوبچاتے رہے،تحقیق اور تدقیق کے ساتھ لاینحل مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بھی آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،علوم میں پختگی جو خدائ عطیہ اور موہبت ربانی ہے وہ بھی آپ میں بہ درجہ اتم موجود تھی،آپ کے علمی،ادبی،قلمی اور فکری جہتوں کے کارہاۓ نمایاں کا اعتراف آپ کے بڑے،آپ کے  ہم عصر اور آپ کے مابعد نے بھی خوب کیا ہے،سطحی اور سستی گفتگو سے آپ کا حلقہ ہمیشہ پاک رہا ہے،میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے شرف تلمذہی نہیں بل کہ میری فروگزاشتوں کوان کی نظر عنایت اور مخلصانہ نقدوتعدیل بھی حاصل رہی  ہے،دوران درس خاص توجہ اور حصول علم پر قلبی اور ذہنی یکسوئی والی کیفیت کی تاکید میری زندگی کی سب سے قیمتی اور انمول تحفہ ہے،شگفتہ تحریر،شستہ تحریر اور نفاست سے پر تحریر علمی شخصیت کو چار چاند لگانے والی ان کی تلقین آج بھی کانوں میں رس گھول رہی ہے،ناپ تول والی زبان،وزن دار قلم اور مدلل گفتگو کی اہمیت والی نصیحت آج بھی کل کی بات محسوس ہوتی ہے،ان کا علمی اور ادبی رعب آج بھی دل ودماغ پر اس طرح مرقوم ہے جیسے ابھی ابھی پردۂ سماعت سے ملاقات ہورہی ہو،اس قیمتی سرمایہ سے زمانہ نے فائدہ حاصل کیا ہے،ان کے جامع گفتار سے زمانہ محظوظ ہوا ہے،ان کے علمی تبحر سے زمانہ مستفید ہوا ہے،اس مرد حق آگاہ سے زمانہ نے دامن مراد کو خوب بھرا ہے،فالج کا پیہم اٹیک ہے، ڈاکٹروں کی ہدایت عدم ملاقات اور ممانعت لقاء ہے، مگرکوئ پرواہ کئے بناء ہجوم ناس کے مابین محو کلام ہیں،عربی زبان وادب پر عبورتوہے ہی، حدیث و فقہ پر بھی مہارت تامہ ہے،خامہ فرسائی سے جہاں موتی لٹاتے ہیں وہیں درس وتدریس کے انداز بھی نرالے ہیں،شرکاۓ مجلس کے ذہن ودماغ پر اپنی باتوں کو ایسے ثبت کرنے کی مہارت رکھتے ہیں جیسے کوزے میں سمندر،کن کن صفات خیر کا ذکر کروں ؟اس بحر بیکراں کا جنھیں آج اپنے درمیان ڈھونڈھنے سے بھی نہیں ڈھونڈ ھ پارہا ہوں،ان کا سفر اس دیار کا ہے، جہاں سے واپسی ممکن ہی نہیں ہے،خلد بریں کے اس مکیں کو رحمتہ اللہ رحمۃ واسعۃ لکھنے سے بھی دل خون کا آنسو روہا ہے اور کلیجہ زبان پر محسوس ہورہا ہے،زمانہ بعد کچھ دنوں قبل ملاقات ہوئ  تھی،اکتوبر ۲۰۲۲ءکا” دیوبند "سفر تھا،محلہ "خانقاہ دیوبند” میں واقع رہائش گاہ پرناچیزکی آمد ہوئ،فالج کا اٹیک ہے،زیارت تو نصیب ہوئ مگر خیریت طلبی کی زبانی چاشنی سے قوت سماعت محروم رہی،مرض بے مروت پر دل خوب رویا،آنکھیں  بھیگ بھیگ کر دیدار کرتی رہیں، زبان گنگ،دست شفقت سرد اور من اداس ہے، علمی شخصیت کوزمین پر "مانند زندہ لاش”  دیکھ کردل میرا بھی قسطوں میں ٹوٹتا رہا،ماضی کی رعب دار شخصیت،پر وجیہ قدوقامت آج اس طرح خاموش ہوگی واللہ تصور تک نہیں تھا،ابھی کچھ مہینے قبل تو ملاقات تھی،اپنے اسٹیٹ کی راجدھانی "پٹنہ” میں حضور کی تشریف آوری ہوئ تھی،دارالعلوم وقف کے استاد حدیث حضرت مولانا محمد فرید الدین صاحب دارالعلوم دیوبند کے سابق صدر القراء حضرت مولانا قاری ابوالحسن اعظمی صاحب،دارالعلوم وقف دیوبند کے استادحضرت مولانا نوشاد احمد نوری صاحب اور دارالعلوم دیوبند کے ناظم مہمان خانہ حضرت مولانا محمد مقیم الدین قاسمی  صاحب سبھی "امارت شرعیہ پٹنہ” کے” مہمان خانہ” میں جمع ہیں،ماہ ونجوم کی دید سے آنکھیں خوشیوں سے سرفراز ہوئیں تھیں،مدتوں بعد حضرت کی زبان پر لفظ”شاہد”کی شہادت سے قوت حافظہ کی مضبوطی پر آج بھی میں محو حیرت تھا،دودہائ بالمشافہ ملاقات تو دور مواصلاتی یامراسلاتی رابطہ تک نہیں ،اس کے باوجود یادداشت کا یہ عالم؟

حضرت کے شاگردخاص آج چار ریاستوں کے مثل امیر شریعت ہیں،ملک کے مقتدر اور مستند ادارے کے آج قائد ہیں،اپنی قیادت میں آج چار ریاست کے عوام کو سمع وطاعت پر آمادہ کئے ہوۓ ہیں،ملک ہی نہیں بیروں ملک کی عظیم شخصیتوں کی نگاہیں آج حضرت کے شاگرد پر منجمد ہیں،انتشار، اختلاف اور گہما گہمی کے بیچ آج بہار اڑیسہ جھارکھنڈ اور بنگال کے” امیر شریعت ثامن” کے انتخاب کی آخری رات ہے، صبح انتخابی جلسہ ہے،مختلف مسلک ومشرب سے مربوط ارباب حل وعقد کے علاوہ ہزاروں عقیدت مند امارت کی عمارت ہی نہیں بلکہ پھلواری شریف کے چپے چپے اور نُکڑ نُکڑ میں موجود ہے،اپنے اپنے پیروں کی سروں پر امیری کی پگڑی پہنانے کی ترکیب سبھی سجانے کی تیاری میں مشغول ہیں ،ساتویں امیر شریعت مفکر اسلام” حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی نوراللہ مرقدہ "کے انتقال کے بعد مثل امیر شریعت آپ کے شاگرد خاص، پھر آپ ہی کے ادارے کے معلم، فاضل نوجواں حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی دامت برکاتہم العالیہ ہیں جن  کی ہی دعوت پر آج پھلواری شریف میں انسانوں کا سیلاب ہے،آپ اپنے شاگرد کی اس حصول یابی پر صرف خوش ہی نہیں تھے بلکہ دعاؤں کا سلسلہ بھی بہ زور تھا،انتخاب سے قبل والی رات بڑی لمبی،گہری اور گہما گہمی والی تھی،پٹنہ پرشاسن ہی نہیں بلکہ مہماں بھی رات کے آخری پہر سڑک کنارے کھڑے تھے،کٹھن مرحلہ ،سخت حفاظتی انتظامات اور چیلنجز سے نپٹارے کی تدبیر پر بہت سارے سر یکجا تھے،حضرت کے ساتھ تقریبا دو گھنٹے گزارے،پرانی یادیں، گزری باتیں مستقبل کے عزائم اور پندونصائح سے مستفیض ہوتے رہے،سفر کی تھکاوٹ اور وقت کی سوئ نےانھیں حوالۂ نوم کیا،پھرہم سب اپنے اپنے مفوضہ ذمہ داری میں مصروف ہوگئے۔

آج دارالعلوم وقف دیوبند کے سینئر استاد حدیث "حضرت مولانا اسلام الدین قاسمی صاحب رحمتہ اللہ علیہ "اسی پٹنہ سفر کے ساتھی "حضرت مولانا محمد فرید الدین صاحب قاسمی ” استاد حدیث دارالعلوم وقف دیوبند کی امامت میں "احاطۂ مولسری” سے آغاز دارالعلوم کی زندگی کوآج اپنی آخری زندگی بنا گئے، دوبیٹے،دوبیٹیاں اور ایک بیوہ کے علاوہ لاکھوں سوگواروں کو چھوڑ کر” مزار قاسمی” میں آسودۂ خواب ہوگئے ۔

بارگاہ رب دوجہاں میں ان کی ترقئ درجات اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کی دعائیں دل کے نہا خانہ سے خود بہ خود نکل رہی ہیں,طول وعرض میں پھیلی خدمات کے احاطے کے لیے بھلا یہ چند سطور کیا حق ادا کر سکتا ہے۔مرزا غالب نے سچ کہا ہے :

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے 

سفینہ چاہیئے اس بحربیکراں کےلیے

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: