مفتی ناصرالدین مظاہری، استاذ مظاہر علوم وقف سہارنپور
رات کے ڈھائی بجے تھے ،فون کی گھنٹی نے پرسکون نیندکو کوسوں دور پھینک دیا،اتنی رات میں فون کاآنا عموماً ایسی خبریں لاتاہے جس کوسننے کے لئے کوئی بھی انسان طبعاً آمادہ وتیارنہیں ہوتاہے،میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ فون کوریسیوکیا،کان سے لگاکرخوف زدہ آوازمیں سلام کیا،اُدھرسے کھنکتی اور چہکتی ہوئی آوازآئی کہ میں نورپورضلع بجنورسے بول رہاہوں مجھے یہ معلوم کرناہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اورحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان جھگڑا کس بنیادپر ہوا تھا اور یہ بھی بتائیں کہ دونوں میں حق پرکون ہے؟۔
آپ خود بتائیں اتنی رات میں ہماری امت اپنے بہترین دماغ کوکن بحثوں میں صرف کررہی ہے، میں نے سادہ ساجواب دیا کہ اس بارے میں نہ توکسی قاضی کوفیصلہ کی توفیق ہوئی،نہ کسی عدالت میں یہ کیس دائرہوا،نہ کسی خلیفہ اورائمہ اربعہ میں سے کوئی فیصل بنا ویسے بھی بڑوں کی خطاؤں کوپکڑنا،ان کی خامیوں کوتلاش کرنااوران میں سے کسی ایک کوقصوروار گرداننا بھی قصور اورغلطی ہے۔ہم کون ہوتے ہیں کہ حضرت علیؓ اورحضرت امیرمعاویہؓ کے درمیان فیصلہ کریں؟ہم کون ہوتے ہیں اماں عائشہؓ اورحضرت علیؓ کے درمیان ججی کرنے والے؟ہمیں کیاحق پہنچتاہے کہ ہم حضرت حسینؓ اوریزید کے درمیان عدالت سجائیں؟ہم نے توکبھی سوچاہی نہیں کہ ہمارے اندراتنی جرأت بھی ہوسکتی ہے کہ ان کے فیصلے ہم اپنے ہاتھوں شروع کردیں۔
امت کابڑا طبقہ اکثر و بیشتر ان ہی معاملات میں الجھتارہاہے،بڑے بڑے معرکے اس باب میں ہوتے رہے ہیں،فیصلے توکبھی نہیں ہوئے البتہ دوریاں مزیدپیداہوتی گئیں، اختلافات کم اورختم توکیا ہوتے دونوں گرپوں اورگروہوں میں خلیج مزید گہری ہوتی گئی یہاں تک کہ ایک نے دوسرے کوقصوروار گردانا، متحارب گروہوں میں حرب وضرب کی نوبت آگئی ۔
ہمارے فیصلے ایسے لوگوں اورایسی عدالتوں میں پہنچ گئے جہاں نہ ایمان ہے،نہ قرآنی فیصلے ہیں،نہ شریعت ہے نہ اسلام کے ماننے اورچاہنے والے ہیں،اوپرسے نیچے تک کفر اپنے جاہ وجلال کے ساتھ ’’منصف‘‘ بناہواہےاورمجرموں کے کٹہرے میں کلمہ گومسلمان کھڑا ہے۔
کیایہ المیہ نہیں ہے کہ ہم اپنے دینی اورشرعی معاملات کے لئے ’’ثالثی‘‘ کسی ایسے شخص کے حوالے کردیں جونہ ہمارا حامی ہو اورنہ ہمارے دین کاحامی ہو،کیاوہ کوئی ایسافیصلہ کرسکتاہے جس سے اسلام اور مسلمانوں کی ساکھ بھی مجروح نہ ہواورفیصلہ بھی خوب سے خوب تر ہوجائے؟ یہ ناممکن ہے۔ہم نے اپنا قلادہ جب اپنے علاوہ کسی غیر کوتھمادیاہے توہزیمت اٹھانی ہی پڑے۔
یہ بھی پڑھیں: چلو کہ ہم بھی زمانے کے ساتھ چلتے ہیں
ایک دن مجھ سے ایک صاحب نے پوچھاکہ جنت اورجہنم کہاں واقع ہیں؟میں نے اُن سے پوچھاکہ آپ کوجانا کہاں ہے؟بولے جنت ،میں نے کہاکہ اعمال جنت والے کررہے ہویاجہنم والے؟بغلیں جھانکنے لگے اورکہنے لگے اجی اعمال میں توبہت کوتاہی ہوتی ہے، میں نے کہاکہ کوتاہی توسبھی سے ہوتی ہے ،لیکن کوتاہی پراحساس،توبہ کی توفیق،نیک اعمال کاعزم وارادہ یہ چیزیں خوش آئندہیں ،برے اعمال پرجری ہونایہ بدبختی کی علامت ہے ۔آپ ایک ایسی چیزمعلوم کررہے ہیں جس کی ضرورت ہی نہیں ہے ،فرض کرو میں نے آپ کوبتابھی دیاکہ جنت ساتویں آسمان کے اوپرہے یاجہنم ساتویں زمین کے نیچے ہے توکیافرق پڑتاہے ،کسی کوجنت اورجہنم اپنے پیروں سے چل کرنہیں جاناہے، جنت لے جانے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں اورجہنم تک گھسیٹ کرلے جانے والے بھی فرشتے مقرر ہیں۔جس طرح انسان دنیامیں نہ اپنی مرضی سے آیاہے اورنہ اپنی مرضی سے جائے گااسی طرح جنت اورجہنم کامداراپنے اعمال اوراللہ تعالیٰ کی رضاومرضی پرمنحصر ہیں ،ہمارے اعمال قبول ہوگئے توجنت کافیصلہ ہے.نہیں قبول ہوئے توہلاکت ہی ہلاکت ہے۔
روزہی کچھ ایسے لوگوں سے آپ کوبھی سابقہ پڑتاہوگاجوخرافات میں مبتلاہیں،جن کے درمیان ایسی ایسی بحثیں ہوتی ہیں کہ لاٹھیاں نکل آتی ہیں ۔
حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھنے لگاکہ حضرت نمازمیں ہاتھ کہاں باندھنے ضروری ہیں؟ حضرت بزرگ تھے، اللہ والے تھے ،فراست ایمانی کی دولت حاصل تھی ،سمجھ گئے اور قریب بلاکرفرمایا: "میری طرف سے آپ کواجازت ہے کہ آپ نماز کے دوران ہاتھ ناف سے نیچے باندھیں،یا ناف کے اوپر باندھیں،یاسینے پرباندھیں یابالکل ہی چھوڑکررکھیں،بس درخواست اتنی سی ہے کہ اللہ کے واسطے نماز نہ چھوڑیں، نماز فرض ہے،افضل العبادۃ ہے،اس کوجان بوجھ کرچھوڑنا گناہ کبیرہ ہے ‘‘۔
بہرحال حضرت مفتی صاحبؒ نے یہ گفتگواتنے کرب اور دردکے ساتھ کی کہ اس کی آنکھیں نم ہوگئیں،وہ اپنی نیت اورپوچھنے کی غرض پراظہار ندامت کرنے لگا،وہ سمجھ گیا کہ مفتی صاحب نے ہمارے پوچھنے کے مقصدکوبھانپ لیاہے۔ خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ :جنتیوں کو جنت میں اُن لمحات پر افسوس ہوگا جنہیں اللہ تعالی کے ذکر کے بغیر گزار دیا تھا۔(مرقاة المفاتیح)
یہ بھی پڑھیں:
جیسے موسم بدل بدل کرآتا رہتا ہے،بالکل اسی طرح کچھ بحثیں ایسی ہیں کہ وقت وقت پرآتی رہتی ہیں، ان ہی میں سے ایک بحث ہے’’ فسق یزید‘‘۔امت کاایک بڑا طبقہ جو بہترین صلاحیتوں کاحامل ہے وہ ہمیشہ اس بحث میں مبتلاہوکراپنے قیمتی وقت کوضائع کرتارہاہے ،ماضی میں یہ بحث شدومدکے ساتھ اٹھی اورحباب بحرکے مانند بیٹھ گئی ،کتنے ہی اکابرعلماء نے کتابیں لکھیں، مناظرے ہوئے ،لیکن جنھوں نے نہ ماننے کی ٹھان لی ان کے لئے کتابیں بے کارہیں ،مناظرے بے کارہیں،مباہلے بے کارہیں ،امت کوکبھی بھی ایسی چیزوں سے فائدہ نہیں ہوا ہمیشہ نقصان ہی ہواہے ۔
فرض کیجئے آپ نے اپنی صلاحیت کے زورپرثابت کردیاکہ یزید فاسق تھا،دوسرے فریق نے بھی دلائل کے زورپر ثابت کردیا کہ فاسق نہیں تھا، تو کیا ہمارے فیصلوں کی بنیاد پر یزیدکوجنت اورجہنم ملے گی؟اور کیا ہمارے فیصلے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں کوئی معنی اورحیثیت رکھتے ہیں؟۔
حجاج بن یوسف،یزید،ابن زیادوغیرہ یہ کبھی کے جاچکے،اپنے اعمال کاصلہ اوربدلہ اللہ کے یہاں سے پاچکے،اپنی قبرمیں وہ کس حال میں ہیں ہمیں یہ جاننے کاکوئی شوق نہیں ہے ،ہرشخص کواپنی ہی قبرمیں سونا ہے،ہرشخص کواپناحساب کتاب دینا ہے،اعمال کی پیشی ہونی ہے،ہمیں لغویات میں اپنا قیمتی وقت صرف نہ کرکے اچھائیوں میں لگاناچاہئے ۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْء تَرْکُہُ مَا لَا یَعْنِیْہِ۔(ترمذی) حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے فائدہ باتوں کو چھوڑ دینا آدمی کے اسلام کی خوبیوں میں سے ہے۔
حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ لایعنی کی تعریف یہ ہے کہ اگر اسے ترک کردے تو اس سے کوئی ثواب فوت نہ ہو اور اس سے کوئی ضرر عائد نہ ہو۔(التیسیر) ہمیں ہمیشہ ایسے کام کرنے کاحکم ہے جس سے اللہ تعالیٰ راضی وخوش رہے اورایسے تمام امورسے منع فرمایاہے جواللہ تعالیٰ کے غضب اورغصہ کودعوت دینے والے ہوں۔
ایک عام اصول ہے کہ مصیبت کے تذکرے سے مصیبت کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھ جاتی ہے،اسی طرح فتنوں کے تذکرے سے فتنے کم نہیں ہوتے بلکہ بڑھ جایا کرتے ہیں، فتنوں کو دبانے اور مٹانے کاسب سے آسان نسخہ یہ ہے کہ فتنوں کوغیر اہم سمجھ کربھول جاؤ،فتین کی جس قدر برائی بیان کیا جائے گی اس کی اہمیت بڑھتی جائے گی،کسی کی اہمیت گھٹانی ہوتواس کاذکرہی چھوڑد یاجائے۔
حقیقت خرافات میں کھوگئی
یہ امت روایات میں کھوگئی